سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(93) قبر میں پکی اینٹوں وغیرہ کا استعمال کرنا

  • 25208
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 1615

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا آگ سے پکی چیز کو قبر میں استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ جیسے سیمنٹ کی سلیں وغیرہ۔ ( سائل) (۱۹ مارچ ۲۰۰۴ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس چیز کو آگ نے چھوا ہو، اس کو قبر میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ ’’صحیح مسلم‘‘ میں حدیث ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص نے مرض الموت میں فرمایا:

’الْحَدُوا لِی لَحْدًا، وَانْصِبُوا عَلَیَّ اللَّبِنَ نَصْبًا، کَمَا صُنِعَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ‘(صحیح مسلم،بَابٌ فِی اللَّحْدِ وَنَصْبِ اللَّبِنَ عَلَی الْمَیِّتِ، رقم:۹۶۶)

’’میری قبر بغلی بنانا اور اس پر کچی اینٹیں لگانا جس طرح رسول اللہﷺ کی قبر پر کچی اینٹیں لگائی گئی تھیں۔‘‘

شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’وَ قَدْ نقلوا اَن عدد لبناته صلی الله علیه وسلم تسع‘

’’اہل علم نے نقل کیا ہے کہ نبیﷺ کی( قبر مبارک کی) کچی اینٹوں کی تعداد نو(۹) تھی۔‘‘

اللبن کی اہل علم نے یوں بیان کی ہے: ’اَلمَضروب منَ الطِّیْنِ مُربِعًا لِلْبِنَاءِ قَبْل الطَّبخ فَاِذَا طُبِخَ فَهُوَ الْاَجر‘(بحواله اتحاف الکرام ،ص:۱۶۰) ’’مربع شکل میں پکنے سے پہلے عمارتی اینٹ کا نام ’’اللبن‘‘ ہے اور جب پک جائے تو وہ الآجر سے موسوم ہے۔

مختصر الخرقی میں ہے:’ وَلَا یَدْخُل الْقبر اَجرا و لا خشباً و لا شَیْئًا مَسَّتْهُ النَّارُ‘(مع المغنی والشرح الکبیر:/۳۸۴)

’’قبر میں پکی اینٹ اور لکڑی استعمال نہ کی جائے اور ہر وہ شے جس کو آگ لگی ہو۔‘‘

فقیہ ابن قدامہ فرماتے ہیں کچی اینٹ اور کانے کا استعمال مستحب ہے جب کہ امام احمد نے لکڑی کو مکروہ کہا ہے۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ  نے کہا ہے کہ سلف صالحین کچی  اینٹ کو مستحب کہتے اور لکڑی کے استعمال کو مکروہ سمجھتے تھے۔

اس سے معلوم ہوا کہ قبر کو بند کرنے کے لیے اصل کچی اینٹ ہے۔ عامۃ الناس میں آج کل جو سلیں لگانے کا رواج ہے یہ غیر درست فعل ہے ،اس سے احترازہونا چاہیے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:147

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ