السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر قبر کسی وجہ سے زمین کے برابر ہو جاوے تو عذابِ قبر ختم ہو جاتا ہے یا نہیں؟ (سائل) (۲۱ ستمبر ۲۰۰۱ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاشبہ کتاب و سنت کی متعدد نصوص عذابِ قبر کا اثبات کرتی ہیں، جو برحق ہے۔ مثلاً امام بخاری علیہ السلام نے اپنی’’صحیح‘‘ میں ’باب مَا جَاءَ فِی عَذَابِ الْقَبْرِ۔‘ عنوان قائم کرکے قرآنی آیات اور احادیث سے مسئلہ ہذا پر فقیہانہ انداز میں استدلال کیا ہے۔
پھر شارح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کی شرح و بسط کا خوب حق ادا کیا ہے ۔ لوگوں کے شکوک و شبہات وارد کرکے عقلی اور نقلی دلائل سے ان کا خوب محاکمہ کیا ہے جو لائق مطالعہ ہے ۔ اس کے ضمن میں وہ فرماتے ہیں:
’ وَإِنَّمَا أُضِیفَ الْعَذَابُ إِلَی الْقَبْرِ لِکَوْنِ مُعْظَمِهِ یَقَعُ فِیهِ وَلِکَوْنِ الْغَالِبِ عَلَی الْمَوْتَی أَنْ یُقْبَرُوا وَإِلَّا فَالْکَافِرُ وَمَنْ شَاء َ اللَّهُ ۔‘(فتح الباری:۲۳۳/۳)
’’قبر کی طرف عذاب کی نسبت اس لیے ہے کہ اکثر و بیشتر عذاب اسی میں ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ اکثر مُردوں کو قبروں میں دفن کیا جاتا ہے۔ ورنہ کافر اور نافرمان جن کو اللہ عذاب میں مبتلا کرنا چاہتا ہے انھیں موت کے بعد عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے، خواہ وہ دفن نہ بھی ہوں، لیکن یہ مخلوق سے پردے میں ہوتا ہے۔ اظہار وہاںہوتاہے جہاں اس کی مرضی ہو۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ قبر کے ہموار ہونے سے عذابِ قبر میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کیونکہ اس کا تعلق قبر کی بجائے تمام تر برزخی زندگی سے ہے۔ اب چاہے کوئی سمندر میں غرق ہو یا کسی کی راکھ کو ہوا میں اڑا دیا جائے ، یا اسے جنگلی درندے کھاپی جائیں پھر بھی برزخی محاسبے سے بچ نہیں سکتا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : شرح عقیدۃ طحاویہ اور التذکرہ(امام قرطبی
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب