السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چار ماہ پوے ہونے کے بعد اگر حمل ساقط ہو جائے تو کیا اس کی نمازِ جنازہ پڑھنی چاہیے؟ کیونکہ چار ماہ پورے ہونے کے بعد روح ڈال دی جاتی ہے۔ (شیخ عبداللہ۔ سنت نگر، لاہور) (۱۷ مئی ۲۰۰۲ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسئلہ ہذا میں اختلاف ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ ایسی صورت میں نمازِ جنازہ پڑھنی چاہیے چنانچہ ’’مسند احمد‘‘ میں بسند حسن حدیث میں ہے:
’اَلسِّقْطُ یُصَلّٰی عَلَیْهِ۔‘
’’اسقاط والے بچے کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ یہ مسلمان کی میت ہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’اَلْقَوْلُ بِعَدْمِ الصَّلَاةِ عَلَی السِّقْطِ ضَعِیْفٌ وَالصَّوَابُ شَرِیْعَة الصَّلَاة عَلَیْهِ اِذَاسقط بعد نَفخِ رُوْحٍ فِیْهِ وَ کَانَ مَحْکُوْمًا بِاسْلَامِه لَأنه میت مسلم فشرعت الصلاةعَلَیْهِ کَسَائِرِ مَوْتٰی الْمُسْلِمِیْنَ‘ (حاشیه فتح الباری:۲۰۱/۳)
’’مولود قبل از وقت کی نمازِ جنازہ پڑھنے کا قول ضعیف ہے۔ درست بات یہ ہے کہ اس کی نمازِ جنازہ پڑھنا مشروع ہے۔ جب کہ وہ روح پھونکے جانے کے بعد پیدا ہوا ہے، وہ مسلمانوں کے ہاں مسلمان ہی پیدا ہوا ہے۔ لہٰذا دوسری مسلمان میتوں کی طرح اس پر بھی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب