سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(35) نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا

  • 25150
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 1084

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(۱) نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا۔ (۲)نمازِ جنازہ میں دوسری نمازوں کی طرح سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی اور سورت ملانا۔(۳) اور جنازے کی دعائیں بلند آواز سے پڑھنا۔ کیا یہ تینوں باتیں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں؟اگر ایسا نہیں تو کیا ایسے امام کے پیچھے نمازِ جنازہ پڑھنا درست ہے ؟ اور یہ جنازہ ادا ہو گیا یا اس کا اعادہ ضروری ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 (۱) نمازِ جنازہ میں فاتحہ پڑھنی مسنون ہے۔ حدیث میں ہے:

’ وَاِذَا صَلَّی عَلَیهِ کَبَّرَ، ثُمَّ قَرَأَ الفَاتِحَة‘

یعنی جب آپ میت پر نماز پڑھتے تو تکبیر کہتے پھر فاتحہ پڑھتے۔

(اخرجہ الطیالسی:۱۶۳/۱)،(ابن ابی شیبہ:۲۱۲/۳)، (ابوداؤد:۳۱۹۴)،( سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی القِرَاء َۃِ عَلَی الجَنَازَۃِ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ، رقم:۱۰۲۷)،( سنن ابن ماجہ،بَابُ مَا جَاء َ فِی القِرَاء َۃِ عَلَی الجِنَازَۃِ ،رقم:۱۴۹۵)

اس کی سند صحیح ہے۔ پھر صحیح حدیث کا عموم بھی ہے

’لَا صَلٰوةَ لِمَن لَّم یَقرَأ بِفَاتِحَةِ الکِتَاب‘(صحیح البخاری،بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلإِمَامِ وَالمَأمُومِ …الخ،رقم:۷۵۶)

یعنی ’’جس نے نماز میں فاتحہ نہ پڑھی، اس کی کوئی نماز نہیں۔‘‘

یہ بھی اس کی مشروعیت پر دالّ ہے۔ کیونکہ شریعت نے جنازہ کا نام بھی نماز ہی رکھا ہے اور کسی بھی نماز کا وجود بلا فاتحہ نہیں۔

اسی طرح طلحہ بن عبد اللہ بن عوف کا بیان ہے، کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  کی اقتداء میں ایک جنازہ پڑھا، تو انھوں نے ’’سورۃ فاتحہ‘‘ پڑھی اور فرمایا: کہ تم کو معلوم ہونا چاہیے یہ سنت طریقہ ہے۔( صحیح البخاری،الجنائز،بَابُ قِرَاء َۃِ فَاتِحَۃِ الکِتَابِ عَلَی الجَنَازَۃِ ،رقم:۱۳۳۵)

(۲)       سورہ فاتحہ کے بعد جنازہ میں سورت ملانے کا جواز ہے

چنانچہ زید بن طلحہ سے مروی ہے، کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے سنا

:’ قرَأَ عَلٰی جَنَازَةٍ فَاتِحَةَ الکِتَابَ وَ سُورَةً وَ جَهَرَ بِالقِرَاءَةِ ‘المنتقٰی لابن الجارود،(کِتَابُ الجَنَائِزِ ،رقم:۵۳۶)، (مصنف ابن ابی شیبة، مَن کَانَ یَقرَأُ عَلَی الجِنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ، رقم:۱۱۴۰۰)

یعنی ’’انھوں نے جنازہ میں فاتحہ اور ایک سورت پڑھی اور قرأت جہری کی۔‘‘

اسی طرح طلحہ بن عبد اﷲ کے طریق سے ہے، کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما  کے پیچھے نمازِ جنازہ پڑھی:

’ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ وَ سُورَةً، فَجَهَرَ حَتّٰی سَمِعنَا ‘(المنتقٰی لابن الجارود،کِتَابُ الجَنَائِزِ ،رقم:۵۳۷)

یعنی ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما  نے جنازہ میں سورۃ فاتحہ اور ایک سورت پڑھی۔ پس اسے جہری پڑھا، حتی کہ ہم نے سنا۔‘‘

اور صاحب ’’عون المعبود‘‘ فرماتے ہیں:

’ وَهٰذِهِ الأحَادِیثُ فِیهَا دَلَالَةٌ وَاضِحَةٌ عَلٰی مَشرُوعِیَّةِ فَاتِحَةِ الکِتَابِ فِی صَلَاةِ الجَنَازَةِ. وَ فِیهَا دَلَالَةٌ أَیضًا عَلٰی جَوَازِ قِرَائَةِ سُورَةٍ مَعَ الفَاتِحَةِ فِی صَلَاةِ الجَنَازَةِ۔‘ (عون المعبود: ۱۹۱/۳)

یعنی ان احادیث میں واضح طور پر دلالت ہے کہ نمازِ جنازہ میں فاتحہ پڑھنی مشروع ہے اور ان میں یہ بھی ہے کہ نمازِ جنازہ میں فاتحہ کے ساتھ سورت ملانی بھی جائز ہے۔

نیز امام ابن حزم ’’المحلّٰی‘‘ میں فرماتے ہیں:

’ صَلّٰی المِسورُ بنُ مَخرَمَةَ ، فَقَرَأَ فِی التَّکبِیرَةِ الأَولٰی بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ ، وَسُورَةً قَصِیرَةً ، وَ رَفَعَ بِهِمَا صَوتَهٗ۔‘

یعنی مسور بن مخرمہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ پہلی تکبیر کے بعد میں فاتحہ اور چھوٹی سی سورت پڑھی، اور ان دونوں کو بلند آواز سے پڑھا۔

(۳)      پہلے گزر چکا ہے کہ فاتحہ اور سورت کو بآواز بلند پڑھا گیا اور جہاں تک دیگر دعاؤں کا تعلق ہے۔ سو اس بارے میں حضرت عوف بن مالک  رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے، کہ رسول اﷲﷺ نے ایک جنازہ پڑھایا:

’ فَحَفِظتُ مِن دُعَائِهٖ ، وَهُوَ یَقُولُ: اَللّٰهُمَّ اغفِرلَهٗ وَ ارحَمهٗ…‘ الخ" (صحیح مسلم،بَابُ الدُّعَاء ِ لِلْمَیِّتِ فِی الصَّلَاةِ،رقم:۹۶۳)

’’پس میں نے آپﷺ کی دعا سے یاد کیا،کہ آپ فرما رہے تھے:’اَللّٰهُمَّ اغفِرلَهٗ وَارحَمهُ …الخ ‘

ظاہر ہے کوئی شے دوسرے سے تب ہی یاد ہو سکتی ہے جب اسے بلند آواز سے پڑھا جائے اور لفظ ’’یَقُولُ‘‘ بھی اس بات کا متقاضی ہے، کیونکہ اس کا اطلاقِ عام بلا قرینہ صارفہ بالجھر پر ہوتا ہے (اس کے عام حکم سے پھیرنے والی کوئی دلیل موجود نہ ہو، تو پھر بلند آواز سے پڑھنا مراد ہوتا ہے)، نیز دیگر بعض روایات میں لفظ’’فَهِمتُ‘‘ اس کے منافی نہیں ہے، کیونکہ فہم کی بناء حفظ پر ہے۔

’’اَلمُنتَقٰی‘‘ میں حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ  کی روایت میں لفظ ’سَمِعتُ النَّبِّیَّ ﷺ‘ ہے جب کہ واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ  کی روایت میں’فَسَمِعَتُہٗ‘‘ کے الفاظ ہیں۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ اس پر رقمطراز ہیں:

’ جَمِیعُ ذٰلِكَ یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ النَّبِیَّﷺ جَهَرَ بِالدُّعَاءِ ‘(نیل الأوطار:۶۹/۴)

’’یہ تمام الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں، کہ نبیﷺ نے دعا کو بلند آواز سے پڑھا ہے۔‘‘

اور امام بخاری رحمہ اللہ  نے بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:

’بَابُ قِرَائَةِ فَاتِحَةِ الکِتَابِ عَلَی الجَنَازَةِ. وَ قَالَ الحَسَنُ: یَقرَأُ عَلَی الطِفلِ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ‘

’’جنازے پر سورہ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔ حضرت حسن نے کہا کہ آپﷺ بچے کی نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھتے تھے۔‘‘

یاد رہے اس بحث کا تعلق صرف جوازِ جہر سے ہے لاغیر(نہ کہ کوئی اور) مذکورہ تینوں مسئلوں میں بالاختصار شریعت کی روشنی میں وضاحت ہو چکی، جو راہنمائی کے لیے کافی ہے۔ تاہم امام ایسا شخص مقرر کرنا چاہیے جس میں اتباعِ سنت کا جذبہ موجزن ہو۔ واﷲ ولی التوفیق۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:96

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ