سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(7) یوم تمنائے موت، جمعہ یا سوموار؟

  • 25122
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 745

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کہا جاتا ہے کہ جب کوئی آدمی جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن فوت ہو جائے تو اللہ جل جلالہ اس پر سے قیامت تک عذاب ہٹا لیتاہے۔ یہ مسئلہ کہاں تک درست ہے؟(سائل زرین جمال سلفی نگری ضلع بونیر) (۲۵ اکتوبر،۱۹۹۱ئ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمعہ کی رات یا دن موت کی فضیلت کے بارے میں وارد روایات ضعیف ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے’’صحیح بخاری‘‘کے کتاب الجنائز کے اختتام پر حضرت عبد اللہ بن عمرو سے مروی حدیث :

’ مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَمُوتُ یَوْمَ الجُمُعَةِ أَوْ لَیْلَةَ الجُمُعَةِ إِلاَّ وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ القَبْرِ‘( سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ مَاتَ یَوْمَ الجُمُعَةِ،رقم:۱۰۷۴)

’’یعنی جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات فوت ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر سے محفوظ فرما لیتا ہے۔‘‘

نقل کرنے کے بعد رقمطراز ہیں:

’وَفِی إِسْنَادِهِ ضَعْفٌ وَأَخْرَجَهُ أَبُو یَعْلَی مِنْ حَدِیثِ أَنَسٍ نَحْوَهُ وَإِسْنَادُهُ أَضْعَفُ‘(فتح الباري:۲۵۳/۳)

’’ اس حدیث کی سند میں ضعف ہے اور اس کی مانند حدیث ابو یعلی نے بھی حضرت انس سے بیان کی ہے لیکن اس کی سند اس سے بھی زیادہ کمزور ہے۔‘‘

مذکور حدیث کے بارے میں امام ترمذی فرماتے ہیں:

’ وَهَذَا حَدِیثٌ غَرِیْبٌ وَ لَیْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ رَبِیعَةُ بْنُ سَیْفٍ إِنَّمَا یَرْوِی عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ الحُبُلِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَلاَ نَعْرِفُ لِرَبِیعَةَ بْنِ سَیْفٍ سَمَاعًا مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو. ‘(سنن الترمذی، بَابُ مَا جَاء َ فِیمَنْ مَاتَ یَوْمَ الجُمُعَةِ،رقم: ۱۰۷۴)

’’یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند متصل نہیں ۔ ربیعہ بن سیف کی روایت تو عبداللہ بن عمرو سے ابوعبدالرحمن حبلی کے واسطہ سے ہے۔ ربیعہ بن سیف کا سماع عبد للہ بن عمرو رضی اللہ عنہ  سے معلوم نہیں ہو سکا۔‘‘

شارح ترمذی علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ فَالْحَدِیْثُ ضَعِیْفٌ لِاِنْقِطَاعِهِ لٰکِنْ لَهٗ شَوَاهِدُ ‘

’’پس انقطاع کی بنا پر حدیث ضعیف ہے لیکن اس کے کچھ شواہد ہیں۔‘‘

پھر علامہ سیوطی سے بحوالہ ’’مرقاۃ‘‘ کچھ آثار و شواہد نقل کیے ہیں۔(تحفۃ الاحوذی،ج:۴،ص:۱۸۸) بہرصورت ان آثار کی صحت یا قابلِ صحت ہونا مشکوک ہی نظر آتا ہے۔ جب کہ علامہ سیوطی کی شخصیت بھی رطب و یابس جمع کرنے میں معروف ہے۔ مجھے اس وقت سخت تعجب ہوا جب میں نے استاذِ محترم مفتی محمد عبدہ صاحب مدظلہ العالی کی کتاب’’احکام جنائز‘‘ کا مراجعہ کیا تو اس کے حواشی میں بحوالہ ’’تحفہ ‘‘فرماتے ہیں:

’مسند احمد۔ ترمذی وَ لَهُ شَوَاهِدٌ فَالْحَدِیْثُ بِمَجْمُوْعِ طُرُقِهٖ حَسَنٌ اوَ صَحِیْحٌ‘

’’یعنی عبداللہ بن عمرو کی روایت ’’مسند احمد‘‘ اور ترمذی میں ہے اور اس کے کچھ شواہد بھی ہیں۔ پس حدیث مجموع طرق کے اعتبار سے حسن یا صحیح ہے۔‘‘

دراں حالیکہ مذکور عبارت محل مقصود میںقطعاً نہیں ہے۔  البتہ ایک دوسرے مقام پر علامہ موصوف فرماتے ہیں: ’’یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کی تائید متعدد حدیثوںسے ہوتی ہے۔(فتاویٰ ثنایہ،ج:۲،ص:۲۵)

گویا کہ موصوف کا رجحان اثبات مسئلہ رفع عذاب کی طرف ہے لیکن اس بارے میںدرجہ حجت و استدلال

کا حصول ایک مشکل امر ہے۔ اور یہ بات مسلّمہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کا انتقال سوموار کے روز ہوا تھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے مرض الموت میں اسی تمنا کا اظہار کیا تھا۔ اس پر امام بخاری نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں تبویب یوں قائم کی ہے: ’ بَابُ مَوْتِ یَوْمِ الِاثْنَیْنِ ‘

شارحین حدیث نے لکھا ہے اس سے مصنف کا مقصود جمعہ کی فضیلت کے بارے میں وارد حدیث کی تضعیف ہے۔ واقعاتی طور پر وفات کا جو دن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ خاتم النبیینﷺ کے لیے منتخب اور پسند فرمایا وہی افضل اور بہتر ہونا چاہیے۔ اسی بنا پر خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  نے اس دن موت کی چاہت کی تھی۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:80

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ