سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(982) معسکرات میں نمازِ قصر کا کیا حکم ہے؟

  • 24992
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 757

سوال

(982) معسکرات میں نمازِ قصر کا کیا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ معسکرات جہاں جہادی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ہمارے جامعات کے طلباء وہاں ٹریننگ کے لیے جاتے ہیں انھوں نے وہاں اکیس دن قیام کرنا ہوتا ہے۔

ہمارے عزیز طلباء بلوغ المرام سے لے کر بخاری شریف تک اپنے اساتذہ سے محدثین کا راجح مسلک پڑھتے اور سنتے ہیں کہ تین دن سے زیادہ قیام کرنا ہو تو نماز پوری پڑھنی چاہیے لیکن معسکرات میں ان کو زبردستی نمازِ قصر پڑھائی جاتی ہے اور وہاں کے استاد جو دس دس اور پندرہ پندرہ سال سے وہاں مقیم ہیں نماز قصر ادا کررہے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ جب تک مسافر اقامت کی نیت نہ کرے ’’نمازِ قصر‘‘ پڑھ سکتا ہے۔

قرآن وسنت کی رو سے محدثین کا مسلک با دلائل واضح فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

راجح قول کے مطابق مسافر کا اگر کسی جگہ چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کا عزم بالجزم ہو تو اس صورت میں نماز پوری پڑھنی چاہیے۔ ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقعہ پر عمل نبوی اس بات کا مؤید(تائید کرنے والا) ہے۔ بصورتِ دیگر قصر کی اجازت ہے۔ چاہے کئی سال گزر جائیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں:

’ ثُمَّ اَجمَعَ أَهلُ العِلمِ عَلٰی أَنَّ لِلمُسَافِرِ أَن یَقصُرَ مَا لَم یَجمَع إِقَامَةً ، وَ  إِن أَتٰی عَلَیهِ سِنُونَ ‘سنن ترمذی،بَابُ مَا جَاءَ فِی کَم تُقصَرُ الصَّلاَةُ ،رقم:۵۴۸ مع تحفة الاحوذی:۱۱۴/۳

’’اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ مسافر جب تک اقامت کی نیت نہ کرے۔ قصر کرسکتا ہے۔ اگرچہ اس پر کئی سال گزر جائیں۔ ‘‘

قدرے تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! میری تالیف ’’جائزۃ الاحوذی فی التعلیقات علی سنن الترمذی‘‘ (۱/ ۵۵۸) مذکورہ بالا صورت سے ظاہر ہے کہ یہاں چوں کہ چار دن سے زائد اقامت کا ارادہ ہے۔ لہٰذا اکیس روزہ جہادی ٹریننگ حاصل کرنے والے اور مستقل رہائش پذیر اساتذہ کرام کو چاہیے کہ معسکرات میں نماز پوری پڑھیں۔

باقی رہا، بعض حضرات کا یہ دعویٰ کہ ہماری یہاں ٹھہرنے کی نیت نہیں۔ عملاً واقعہ کے خلاف ہے، جس کی شرعاَ کوئی حیثیت نہیں۔ واضح ہو کہ امام موصوف کے بالا قول میں عدمِ نیت سے مقصود ایسی مہم ہے جس میں آدمی جنگی امور وغیرہ میں متردد ہو یا پھر دوسرے کے تابع ہو۔ معلوم نہیں کس وقت کیا حکم ہوجائے۔ جب کہ مشارٌ الیہ شکل میں یہ کیفیت نہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:797

محدث فتویٰ

تبصرے