السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
’’تخریج صلوٰۃ الرسول‘‘ص:۵۰۷، تاریخ اشاعت رمضان ۱۴۱۳ھ میں لکھا ہے۔ سجدۂ سہو کے بعد تشہد۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ احادیث آپس میں مل کر حسن کے درجہ کو پہنچ جاتی ہیں۔ فتح الباری: ۹۸/۲۔ ۹۹، نیل الأوطار:۱۲۳/۳
سلام سے پہلے سجدۂ سہو کیا جائے تو تشہد پڑھنا ثابت نہیں لیکن بعد از سلام سجدۂ سہو کرنے کی صورت میں مذکورہ بالا بیان ابن حجر رحمہ اللہ کی روشنی میں تشہد پڑھیں یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مقام پر اصل عبارت یوں ہے:
’ لٰکِن وَرَدَ فِی التَّشَهُّدِ فِی سُجُودِ السَّهوِ عَنِ ابنِ مَسعُودٍ، عِندَ أَبِی دَاؤد، وَالنِّسَائِی، وَ عَنِ المُغِیرَةِ عِندَ البَیهَقِی، وَ فِی إِسنَادِهِمَا ضُعفٌ۔ فَقَد یُقَالُ: إِنَّ الأَحَادِیثَ الثَّلَاثَةَ فِی التَّشَهُّدِ بِاجتِمَاعِهَا تَرتَقِی إِلٰی دَرَجَةِ الحَسَن۔ قَالَ العَلَّائِی: وَ لَیسَ ذٰلِكَ بِبَعِیدٍ۔ وَ قَد صَحَّ ذٰلِكَ عَنِ ابنِ مَسعُودٍ مِن قَولِهٖ أَخرَجَهٗ ابنُ أَبِی شَیبَةَ فتح الباری:۹۹/۳
یہاں راجح بات یہ ہے کہ نمازی کو تشہد کا اختیار ہے۔ چاہے پڑھے یا ترک کردے۔
المرعاۃ میں ہے: ’وَالرَّاجِحُ عِندَنَا أَنَّهٗ مُخَیَّرٌ فِی التَّشَهُّدِ‘ (۲/۳۹)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب