السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بارہا دفعہ مختلف مکاتب ِ فکر کی مساجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ہر مسلک کے ائمہ کرام ،سجدہ سہو، مختلف انداز سے ادا فرماتے ہیں۔ براہِ کرم، سجدہ سہو، کس وقت اور کیونکر کیا جاتا ہے؟ اس میں کیا پڑھا جاتا اور اسلام کس وقت پھیرتے ہیں؟(محمد صدیق طارق، راولپنڈی)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سجدۂ سہو احادیث میں جس طرح وارد ہے، ویسے ہی کرنا چاہیے۔ پس اگر ایک شخص بھول کر دو یا تین رکعات پڑھنے کے بعد سلام پھیر دیتا ہے تو اسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور عمران رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق نماز مکمل کرکے سلام کے بعد سجدۂ سہو کرنا چاہیے۔ اگر وہ دو رکعت پڑھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور بیٹھا نہیں تو اسے نماز مکمل کرلینے کے بعد ابن بحینہ کی حدیث کی رو سے سلام سے پہلے سجدہ کرنا چاہیے۔
اور اگر اسے شک ہو کہ آیا اس نے تین رکعات پڑھیں ہیں یا چار؟ تو اسے یقین پر اعتماد کرتے ہوئے ابوسعید اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث کی رو سے سلام سے قبل سجدہ کرنا ہوگا اور اگر اسے شک واقع ہو مگر اسے یہ بالکل علم نہیں ہے کہ اس نے کتنی رکعتیں ادا کی ہیں تو وہ ظن غالب پر بنا کرتے ہوئے نماز پوری کرے اور حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے مطابق سلام کے بعد سجدۂ سہو کرے۔ اس طرح سب احادیث پر عمل ہو جائے گا۔
مذکورہ صورتوں کے علاوہ اگر کوئی اور صورت پیش آجاتی ہے تو وہ مذکورہ صورتوں میں سے جس صورت کے قریب ہو گی، اس کا حکم اس صورت کا حکم ہوگا۔ صحیح ابن حبان:۱۹۵،۱۹۶/۱
علامہ شوکانی رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے، مگر ابن حبان اور ان کے قول میں فرق یہ ہے کہ انھوں نے نئی پیش آمدہ صورت میں ، ہر دو طرح درست ہے، کو اختیار کیا ہے ، یعنی اس صورت میں سجدۂ سہو سلام سے پہلے ی بعد میں، ہر طرح اختیار ہے۔ واضح رہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف فضیلت کی حد تک ہے ۔ یعنی سجدہ سہو سلام سے قبل افضل ہے یا سلام کے بعد۔ رہا جواز تو اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ ملاحظہ ہو: نیل الاوطار:۱۱۲/۳، بحوالہ القول المقبول،ص:۵۱۱۔
واضح ہو کہ سجدۂ سہو سلام سے قبل یا بعد کرنے کا ذکر تو آپ احادیث میں ملاحظہ فرما چکے ، البتہ صرف ایک ہی طرف سلام پھیر کر سجدۂ سہو کرنا سنت سے ثابت نہیں۔ اور سجدہ سہو میں تسبیح وہی ہے جو عام حالات میں پڑھی جاتی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب