السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عَن عَلقَمَةَ قَالَ: قَالَ عَبدُ اللّٰهِ ابنُ مَسعُودٍ : اَلَا اُصَلِّی بِکُم صَلَاةَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ قَالَ: فَصَلَّی فَلَم یَرفَع یَدَیهِ اِلَّا مَرَّةً " سنن أبی داؤد،بَابُ مَنْ لَمْ یَذْکُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّکُوعِ ،رقم:784
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حنفیہ کا تمام تر دارو مدار ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت پر ہے۔ جب کہ اس میں راویٔ حدیث سفیان ثوری کو وہم ہوا ہے۔ ’’علل‘‘ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ’’ وَ لَم یَقُل اَحَدٌ مَا رَوَاہُ الثَّورِیُّ‘‘ علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے ’’نصب الرایہ‘‘ میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’اَلتَّلخِیص‘‘میں ابو حاتم کا یہ قول نقل کیا ہے۔ امام بخاری نے ’’جزء رفع الیدین‘‘ میں وہم کی یہ دلیل بیان فرمائی ہے، کہ یہ حدیث عاصم سے عبد اﷲ بن ادریس بھی روایت کرتے ہیں۔ کہ جن کے متعلق امام احمد بن حنبل یحییٰ سے نقل کرتے ہیں، کہ ابن ادریس کی کتاب میں نے خود دیکھی ہے۔ اس میں یہ لفظ موجود نہیں۔ جب کہ سفیان کی روایت زبانی ہے تحریر نہیں اور مسلَّمہ اصول ہے کہ کتاب(تحریر) کو حفظ پر ترجیح ہے۔ پھر امام صاحب ابن ادریس کی روایت بیان کرکے فرماتے ہیں:
’ هٰذَا هُوَ المَحفُوظُ عِندَ اَهلِ النَّظرِ مِن حَدِیثِ ابنِ مَسعُودٍ۔‘
’’یعنی اہل تحقیق کے ہاں ابن مسعود کی حدیث اسی طرح محفوظ ہے۔‘‘
اس حدیث میں دوسری جرح امام ترمذی نے نقل کی ہے کہ عبد اﷲ بن مبارک فرماتے ہیں: ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث(ثوری کی سند کے ساتھ) ثابت نہیں اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حد یث ثابت ہے۔
تیسری جرح یہ ہے کہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا دارو مدار عاصم بن کلیب پر ہے، اور عاصم بن کلیب تفرد (تنہا ہونے) کی صورت میں قابلِ حجت نہیں۔ ’’میزان الاعتدال‘‘ میں ہے:
’ قَالَ ابنُ المَدِینِی لَا یُحتَجَّ بِهٖ بِمَا انفَرَدَ بِهٖ۔‘
حافظ ابن عبد البر’’تمہید‘‘ میں لکھتے ہیں، کہ یہ حدیث بوجہِ تفردِ عاصم ضعیف ہے۔ اس حدیث پر تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! کتاب التحقیق الراسخ ،ص:113تا 116
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب