السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بریڈ فورڈ سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا جمعہ کے دن زوال ہوتا ہے یا نہیں؟ مثلاً برطانیہ میں بارہ بجے کے بعد زوال ختم ہوتا ہو اور خطبہ بارہ بجے شروع ہوتا ہو تو زوال کے وقت یا قبل از زوال پڑھی گئی سنتوں کا کیا حکم ہے؟ یہ جومشہور ہے کہ جمعہ کے دن زوال نہیں ہوتا۔ اس کی کیا دلیل ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صاحب ’’مشکوٰۃ‘‘ نے دو احادیث بیان کی ہیں، جو اس پر دالّ(دلالت کرتی) ہیں، کہ جمعہ کے دن زوال کا وقت مَنہی اوقات(جن اوقات میں نماز پڑھنا منع ہے) سے مستثنیٰ ہے۔ اس وقت نماز پڑھنی جائز ہے۔ لیکن سندوں کے اعتبار سے دونوں احادیث کمزور ہیں۔
البتہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے، کہ ابو قتادہ کی کمزور روایت جس میں ’’جواز صلوٰۃ عند الزوال‘‘ کا ذکر ہے، اس کے ساتھ کمزور شواہد کو ملا دیا جائے، تو حدیث میں مضبوطی پیدا ہو جاتی ہے۔ مزید آنکہ صحابہ کرامy کا فعل بھی اس بات کا مؤید(تائید کرتا) ہے، کہ وہ جمعہ کے دن نصف النہار کو نماز پڑھتے تھے اور اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن تبکیر( اوّل وقت آنا) کی تحریض اور امام کے نکلنے تک نماز پڑھنے کی بلا تخصیص و استثناء ترغیب دی ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حدیث ہے:
’ مَنِ اغتَسَلَ ، ثُمَّ أَتَی الجُمُعَةَ، فَصَلّٰی مَا قُدِّرَ لَهٗ ، ثُمَّ أَنصَتَ حَتّٰی یَفرُغَ مِن خُطبَتِهٖ، ثُمَّ یُصَلِّی مَعَهٗ غُفِرَ لَهٗ مَا بَینَهٗ ، وَ بَینَ الجُمُعَةِ الأُخرٰی ، وَفَضلُ ثَلَاثَةِ أَیَّامٍ۔‘ صحیح مسلم،بَابُ فَضْلِ مَنِ اسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ فِی الْخُطْبَةِ،رقم:۸۵۶
یعنی جس نے غسل کیا پھر جمعہ کے لیے آیا، پس جو قسمت میں ہوا نماز پڑھی، پھر خاموشی اختیار کی حتی کہ خطیب اپنے خطبہ سے فارغ ہو جائے، پھر وہ امام کے ہمراہ نماز ادا کرتا ہے تو اس کے موجودہ اور پچھلے جمعہ کی درمیانی مدت اور تین دن زائد کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
یہ روایت اور اس مفہوم کی دیگر صحیح روایات کے عمومات سے معلوم ہوتا ہے، کہ قبل از جمعہ نوافل کی کوئی تعداد مقرر نہیں۔ تاہم ابن ماجہ کی روایت میں قبل از جمعہ بلا فصل چار رکعتوں کا ذکر ہے، لیکن اس کی سند میں چار راوی سخت ضعیف ہیں۔ ملاحظہ ہو! ’’عون المعبود‘‘ بواسطہ ’’مرعاۃ المفاتیح‘‘ (۹۷۲/۲)۔ لہٰذا یہ ناقابلِ حجت و استدلال ہے۔ اس لیے عامۃ الناس کا اقامتِ جمعہ سے پہلے دو یا چار سنتوں کا نظریہ غیر درست ہے۔ بلکہ پہلے وقت آنے والا حسبِ توفیق نوافل پڑھ لے۔ ’’کما تقدم آنفاً‘‘۔ البتہ خطبہ کے دوران آنے والے کے لیے دو رکعت پڑھنے کی تاکید ہے، لیکن یہ ’’تحیۃ المسجد‘‘ ہیں۔ نہ کہ ’’سنتیں‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ أَقوٰی مَا یَتَمَسَّكُ بِهٖ فِی مَشرُوعِیَّةِ رَکعَتَینِ قَبلَ الجُمعَةِ عُمُومُ مَا صَحَّحَهُ ابنُ حِبَّانَ مِن حَدِیثِ عَبدِ اللّٰهِ بنِ الزُّبَیرِ مَرفُوعًا۔ مَا مِن صَلٰوةٍ مَّفرُوضَةٍ إِلَّا وَ بَینَ یَدَیهَا رَکعَتَانِ، مِثلُهٗ حَدِیثُ عَبدِ اللّٰهِ بنِ مُغَفَّلٍ: بَینَ کُلِّ أَذَانَینِ صَلٰوة ‘مرعاة المفاتیح۲/۲۹۲
’’ سب سے مضبوط ترین دلیل، جس سے جمعہ سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے پر تمسک(یعنی دلیل لی گئی ہے) کیا گیا ہے، وہ صحیح ابن حبان میں عبد اﷲ بن زبیر کی مرفوع روایت کا عموم ہے، کہ ہر فرضی نماز سے پہلے دو رکعتیں ہیں اور اسی طرح عبد اﷲ بن مغفل کی حدیث میں ہے، کہ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔‘‘ یعنی اذان اور تکبیر۔
لیکن اس دوسری حدیث کا انطباق (لاگو کرنا) عہدِ رسالت میں مشکل نظر آتا ہے۔
’ فَتَأَمَّل هٰذَا مَا عِندِی وَاللّٰهُ أَعلَمُ بِالصَّوَابِ وَ عِلمُهٗ أَتَمُّ ‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب