السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو لوگ وضومیں گردن کا مسح کرتے ہیں اور اس کا فتویٰ بھی دیتے ہیں؟ کیا وہ اس کی کوئی دلیل پیش کرتے ہیں؟ نیز گردن کے مسح کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وضومیں گردن کا مسح کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ صاحب ’’عون المعبود‘‘ فرماتے ہیں:
’ اَلحَدِیث مع ضُعفِهٖ لَا یَدُلُّ عَلَی استِحبَابِ مَسحِ الرَقبَةِ، لِاَنَّ فِیهِ مَسحَ الرَّاس مِن مُقَدَّمِهٖ اِلٰی مُؤَٔخِّرِ الرَّأسِ، اَو اِلٰی مُؤَخِّرِ العُنُقِ عَلَی اختِلَافِ الرِّوَایَاتِ وَهٰذَا لَیسَ فِیهِ کَلَامُ۔ اِنَّمَا الکَلَامُ فِی مَسحِ الرَّقَبَةِ المُعتَادِ بَینَ النَّاسِ اِنَّهُم یَمسَحُونَ الرَّقبَةَ بظُهُورِ الأَصَابِعِ بَعدَ فَرَاغِهِم عَن مَسحِ الرَّأسِ۔ وَ هٰذِهِ الکَیفِیَّةُ لَم تَثبُتُ فِی مَسح الرَّقبَةِ، لَا مِنَ الحَدِیثِ الصَّحِیحِ، وَ لَا مِنَ الحَسَنِ، بَل مَا رُوِیَ فِی مَسحِ الرَّقبَةِ کُلُّهَا ضُعَافٌ، کَمَا صَرَّحَ بِهٖ غَیرُ وَاحِدٍ مِنَ العُلَمَاءِ۔ فَلَا یَجُوزُ الاِحتِجَاجُ بهَا۔ وَ نَقَلَ الشَّیخُ ابنُ الهَمَامِ مِن حَدِیثِ وَائِلِ بنِ حُجرٍ فِی صِفَةِ وُضُوءِ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ۔ ثُمَّ مَسحَ عَلٰی رَأسِهٖ ثَلَاثًا ،وَ ظَاهِرَ اُذُنَیهِ ثََلَاثًا ، وَ ظَاهِرَ رَقبَتِهِ۔ اَلحَدِیثُ وَ نسَبهٗ اِلَی التِّرمَذِیِّ فَهُوَ وَهمٌ مِنهُ ۔ لِاَنَّ الحَدِیثَ لَیسَ لَهٗ وُجُودٌ فِی التِّرمَذِیِّ ۔‘عون المعبود: ۱/۴۹۔۵۰
’’حدیث مذکور ضعیف ہونے کے باوجود گردن کے مسح کے مستحب ہونے پر دلالت نہیں کرتی۔ اس میں صرف سَر کے مسح کا ذکر ہے کہ پیشانی کی طرف سے شروع کرکے سَر کے پچھلے حصے تک یا بعض روایات کے مطابق گردن کے آخر تک ہونا چاہیے۔ اس موضوع پر تو کوئی بحث نہیں۔ بحث تو لوگوں میں معروف طریقے پر گردن کے مخصوص مسح کے متعلق ہے کہ وہ سَر اور کانوں کے مسح سے فراغت کے بعد انگلیوں کی پشت سے گردن کا مسح کرتے ہیں۔ جب کہ یہ طریقہ کسی صحیح یا حسن درجے کی حدیث سے ثابت نہیں اس موضوع پر مروی تمام احادیث اہل علم و تحقیق کے مطابق ضعیف ہیں۔ لہٰذا ان سے دلیل لینا درست نہیں۔ ابن الہمام رحمہ اللہ نے ترمذی کے حوالے سے جو روایت پیش کی ہے کہ ’’ آپﷺ نے سَر اور کانوں کے ظاہر کا تین دفعہ اور گردن کا (ایک دفعہ) مسح کیا۔‘‘ یہ ان کا وہم ہے کیونکہ’’ ترمذی‘‘ میں ایسی کوئی حدیث نہیں۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب