السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بلاشبہ جمعہ کا دن تمام دنوں میں افضل ہے۔جمعہ کی افضلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں نے جمعہ کی عبادتوں کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی بدعتیں بھی شامل کرلی ہیں،جن کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رواج نہیں تھا۔مثلاً جمعے کے دونوں خطبوں سے پہلے یا ان کے بعد ایک خطبہ دینا۔اس خطبے پر اس طرح پابندی ہوتی ہے گویا یہ خطبہ جمعہ کے فرائض کا ایک حصہ ہے۔اسی طرح جمعے کے دن پابندی کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر پر قرآن کی تلاوت ہوتی ہے۔قرآن کی تلاوت ایک نیک عمل ہے،لیکن اس پر اس طرح پابندی کی جاتی ہے گویا یہ جمعہ کی عبادتوں میں شامل ہے۔کیا اس طرح کی بدعتوں میں پڑ کر مسلمان گمراہی کا شکار نہیں ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میرے بھائی!ہروہ عمل جس کی ایجاد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوئی ہو اسے بدعت نہیں کہا جاسکتا۔بے شمار ایسے اعمال اور ایسی سرگرمیاں ہیں ،جن کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کوئی وجود نہیں تھا اور ان کی ابتدا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہوئی لیکن انھیں بدعت میں شمار نہیں کیاجاتا ہے۔مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آبادی میں کثرت کو محسوس کیا توانھوں نےجمعہ کےدن ایک اوراذان کا اضافہ کردیا۔اس سے قبل جمعہ کادن صرف ایک اذان دی جاتی تھی۔تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے متفقہ طور پر اس اضافی اذان کوقبول کیا اور کسی نے بھی اسے بدعت میں شمار نہیں کیا۔اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تراویح کی نماز باجماعت پڑھنے کاسلسلہ شروع کروایا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے اور کوئی بھی اسے بدعت نہیں کہتاہے ۔اسی طرح مسلمانوں نے بہت سارے ایسے علوم وفنون ایجاد کے جن کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کوئی وجود نہیں تھا اور ان علوم کی تدریس کا انتظام مسجدوں میں کیا جاتا تھا۔مثلاً علم فقہ،علم نحو،صرف اور علم بلاغت وغیرہ۔اور کبھی بھی ان علوم وفنون کو بدعت میں شمار نہیں کیا گیا۔
اس لیے ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہر وہ عمل جس کی ایجاد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہوئی ہواسے بدعت نہیں کہا جاسکتا بشرط یہ کہ یہ عمل اسلام کےمجموعی مزاج،اس کی تعلیمات اور اس کے اغراض ومقاصد سے مختلف اور متعارض نہ ہو۔حقیقت یہ ہےکہ ہردور میں انسانوں کی ضروریات بدلتی رہتی ہیں اور ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور روز بہ روز نئی نئی ترقیاں اور وسائل معرض وجود میں آتے رہتے ہیں۔ان بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر ہم بہت ساری ایسی باتوں کو اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جن کاحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عہد میں کوئی وجود نہیں تھا۔یہ نئی باتیں اگر اسلام کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہیں یا اسلام کے مزاج سے ہم آہنگ ہیں تو انھیں بدعت نہیں کہاجاسکتا۔
جمعہ کے دونوں خطبوں سے قبل یا بعد میں ایک خطبہ دینا ایسا عمل نہیں ہے جسے ہم بدعت یا گمراہی قراردیں۔کیونکہ اس خطبہ کی ابتدا کسی نیک مقصد کے تحت ہوئی ہے۔مسجد کی حیثیت دینی مرکز کی ہے۔عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مسجد جس طرح عبادت اور دعوت دین جیسے بلند واعلیٰ مقصد کے لیے استعمال ہوتی تھی۔اسی طرح کارہائے سیاست کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی۔اسی مسجدمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تقریریں کیاکرتے۔اسی میں درس وتدریس کاانتظام کرتے۔جہادی لشکر اسی مسجد سے رخصت کرتے تھے،اسی مسجد میں وفود اور سفراکا استقبال کرتے اور ان کی باتیں سنتے تھے۔بعض خوشی کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مسجد میں حبشیوں کے کھیل تماشے کا انتظام کیا ،خود بھی یہ کھیل تماشے دیکھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی اپنے کندھے پر بٹھادکھایا اور کافی لطف واندوز ہوئے۔اسی مسجد میں بعض موقع پر شعری نشست رکھوائی۔غرض کہ یہ مسجد مختلف نیک مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہے۔اگران مقاصد کے لیے مسجد کا استعمال شریعت کے خلاف نہیں ہے تو آخر اس اضافی خطبے میں کیا ممانعت ہوسکتی ہے جوجمعہ کے دونوں خطبوں سے قبل یا ان کے بعد دیا جاتا ہے۔اس خطبے میں بھی اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے۔حالات حاضرہ سے متعلق مسائل پر بحث ہوتی ہے جن کا تعلق اسلام اور مسلمانوں سے ہوتاہے۔اور لوگوں کو مفید اور کارآمد باتیں سکھائی جاتی ہیں۔بعض ممالک وہ ہیں جہاں جمعےکے خطبے عربی میں دیے جاتے ہیں حالانکہ یہاں کے لوگ عربی نہیں سمجھتے۔اس لیے ان کی آسانی کے لیے جمعہ کے دونوں خطبوں سے قبل ایک خطبہ ان کی مقامی زبان میں ہوتا ہے تاکہ وہ بھی خطبوں کو سمجھنے سے محروم نہ رہیں۔اگرچہ افضل طریقہ یہ ہے کہ جمعہ کا خطبہ باذات خود مقامی زبان میں ہو لیکن اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ جمعہ کے خطبے عربی زبان میں ہوں اور ان سےقبل یا بعد میں ایک خطبہ مقامی زبان میں ہو۔چونکہ اس خطبہ میں بھی اسلام کی تعلیم ہوتی ہے اس لیے اسے بدعت یاضلالت قراردینا سراسر غلط ہوگا۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب