سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(10) بدلتے ہوئے حالات میں فقہی مسائل میں تجدید کی ضرورت

  • 23913
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1706

سوال

(10) بدلتے ہوئے حالات میں فقہی مسائل میں تجدید کی ضرورت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے کرام کا ایک طبقہ اس بات کے حق میں ہے کہ بدلتے ہوئے حالات ،گوناگوں ترقیاں اورنت نئے مسائل اورضرورتوں پیش نظر فقہ اسلامی کے اصول وقواعد میں بھی تجدید اور تبدیلی کی ضرورت ہے جب کہ دوسرا طبقہ کسی قسم کی تبدیلی یا تجدید کے حق میں نہیں ہے۔اس سلسلے میں آپ کاکیا مؤقف ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تجدد پسندی اور تبدیلی کے نام پر بعض لوگوں نے مذہبی معاملات میں کچھ یوں فتنے کھڑے کردیے کہ علمائےکرام اور دین دار حضرات اس لفظ سے کچھ چڑ سےگئے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو مغرب پرست ذہنیت رکھتے ہیں اور جدت پسندی کی آڑلے کر امت مسلمہ کی اسلامی شناخت کو سبوتاژ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔انھی لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا تھا کہ ان کی نئی باتیں وہ ہیں جو یورپ میں قدیم ہوچکی ہیں۔یہ تو کعبے کو بھی بدل دینا چاہتے ہیں۔کیا اسکے لیے وہ یورپ سے پتھر لے کر آئیں گے؟ان کی تجدد پسندی یہ ہے کہ یہ لوگ اسلامی نظریہ حیات اوراسلامی شعائر کے مقابلے میں یورپ کے افکار ونظریات اور ان کے عادات واطوار کو اختیارکرناچاہتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ اس قسم کی تجدید پسندی کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتی۔میں نے اپنے کسی مقالہ میں لکھا ہے کہ اس قسم کی تجدد پسندی کو"تجدید"نہیں بلکہ"تبدید(تباہی) کانام دینا چاہیے۔تاہم اُصولی طور پر تجدد اور تبدیلی نہ صرف شرعاً جائز ہے بلکہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور نئی دنیا کی نئی نئی ضرورتوں کے پیش نظر تجدید پسندی وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔خواہ معاملہ دنیا کا ہو یا دین کا۔حتی کہ ایمان جو کہ دین کا سب سے بنیادی عنصر ہے اس میں بھی وقتاً فوقتاً جدت کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں ایک حدیث ہے جسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وروایت کرتےہیں:

"إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا"(ابوداؤد اورحاکم)

’’بے شک اللہ تعالیٰ اس اُمت میں ہرسوسال کے بعدایسی شخصیت بھیجتا رہے گا جو اس کے دین کی تجدید کرے۔‘‘

ان احادیث سے واضح ہے کہ دین وایمان کے معاملات میں تجدید کا عمل ہماری شرعی ضرورت ہے۔اس لیے وہ تمام علوم جن کاتعلق ہمارے دین سے ہے مثلاً علم تفسیر،علم فقہ،علم اُصول فقہ اور علم کلام وغیرہ۔ان تمام علوم میں نئےحالات اور بدلے ہوئے زمانے کے پیش نظر مسلسل ریسرچ اور تحقیق ہونی چاہیے اور شرعی حدود میں رہتے ہوئے ان علوم میں بعض تبدیلیوں اور جدتوں کوشرعی ضرورت سمجھتے ہوئےقبول کرنا چاہیے۔

اُصولِ فقہ بھی ایک اسلام علم ہے جسے شروع دور میں فقہاء کرام نے ایجاد کیا تھا تاکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں  فقہی مسائل کےاستنباط کے قواعد واصول معلوم کیے جاسکیں۔ماضی میں اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔مثلاً امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  کی"الرسالہ" اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  کی"ارشاد الفحول" اور دورحاضر میں بھی اس موضوع پر مختلف کتابیں اور مقالات لکھے گئے ہیں اور کل سے آج تک کے اس لمبے علمی سفر میں فقہائے کرام نے اس علم میں حالات اور حاجات کی مناسبت سے مختلف وسعتیں اور جدتیں پیداکیں۔اس تجدد پسندی کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اجتہاد کے دروازے کو بند نہ کردیاجائے جیسا کہ بعض علمائے کرام نے اسے بند کرنے کی کوشش کی تھی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ فقہ اسلامی کے بعض اصول ایسے ہیں جوقرآن وحدیث سے ماخوذ ہیں اور جن کی حیثیت قطعی اور اٹل ہے۔جن میں کسی قسم کی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔یہ وہ اُصولی اور بنیادی احکام ہیں،جن پر ہمارے دین کی عمارت کھڑی ہے اور جن پر قیامت تک ہر زمانہ اور ہر قسم کے ماحول میں یکساں طور پر عمل کرنا لازم ہے۔مثلاً:

﴿وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزرَ أُخرىٰ...﴿١٨﴾... سورة الفاطر

’’کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘

یعنی ہرشخص اپنے گناہوں کا بوجھ خود ہی اٹھائے گا۔کسی شخص کو کسی دوسرے شخص کے گناہوں کی سزا نہیں ملنی چاہیے۔یہ ایک ایسا اُصول ہے جو تا قیامت برقرار رہے گا اور اس میں کوئی تبدیلی جائز نہیں ہے۔

2۔﴿وَما جَعَلَ عَلَيكُم فِى الدّينِ مِن حَرَجٍ...﴿٧٨﴾... سورة الحج

’’اور اللہ نے تم پر دین میں کوئی سختی اور مشقت نہیں رکھی ہے۔‘‘

یہ بھی ایک اُصولی حکم ہے کہ دینی معاملات میں حتی الامکان قدرے نرم اور آسان پہلو اختیار کرنا چاہیے۔بلاوجہ کی مشقتوں کو اختیار کرناہمارے دین کا مزاج نہیں ہے۔

"إِنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ" (بخاری،مسلم)

’’ہرطرح کے اعمال کادارومدار نیت پر ہوتا ہے۔‘‘

یہ بھی ہمارے دین کااُصول اور بنیادی پہلو ہے کہ انسان کو اس کے اعمال کابدلہ اس کی نیت کے لحاظ سے دیا جائے گا۔

4۔" لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ" (موطا امام مالك)

’’نہ خود نقصان اٹھاؤ اور نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ۔‘‘

اس اُصولی حکم کےتحت کوئی بھی ایسا عمل جائز نہیں ہے جس میں انسان کے لیے نقصان کاپہلو ہو۔

یہ چندمثالیں ہیں ان اٹل اورقطعی اُصول وقواعد کی۔یہ وہ اُصول ہیں جن پر تاقیامت اسی طرح عمل ہوتا رہے گا اور ان میں کسی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ان اٹل اورقطعی اُصول وقواعد کے مقابلے میں اسلامی شریعت کے اندر بے شمار ایسے اُصول وقواعد ہیں جن کی حیثیت قطعی نہیں ہے اور جن میں بدلتے ہوئے حالات اور نئے زمانے کی نئی ضرورتوں کے پیش نظر تبدیلی اورتجدد کی گنجائش ہوتی ہے تاکہ ہماری شریعت کے احکام ہرزمانے کے حالات سے ہم آہنگ ہوسکیں۔واضح رہے کہ قطعی اصول وقواعد کے مقابلے میں غیر قطعی اصول وقواعد کی تعداد بے شمارہے۔یابالفاظ دیگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہماری شریعت کے وہ اصول جو قطعی ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے اور ان اصول وقواعد کی تعداد بہت زیادہ ہے جنھیں زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ بدلنے اور ہر دور کے حالات سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف وہی علماء وفقہاء کرسکتے ہیں جن کے اندر اجتہادی صلاحیت ہوتی ہے۔

بہرحال جدت پسندی کے نام پر نام نہاد اسلامی اسکالروں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ قرآن وحدیث سے ثابت شدہ اورقطعی اُصول وقواعد میں خوامخواہ دخل اندازی کریں اور انھیں اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے بدلنےکی کوشش کریں۔اس طرح تو سارا دین ان کے ہاتھوں میں کھلونا بن کررہ جائے  گا۔ذرا ان کی جراءت پر غور کیجئے کہ یہ لوگ قرآن کے بعض احکام کو بھی بدل دینا چاہتے ہیں مثلاً قرآن کاواضح حکم ہے کہ وراثت میں مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں دو گناحصہ ملے گا۔لیکن یہ لوگ عورتوں اور مردوں میں مساوات کانعرہ بلندکرتے ہوئے ان دونوں کو برابر برابر حصہ دینا چاہتے ہیں۔یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ ہر دور اور ہر معاشرہ میں نان ونفقہ کی ذمے داری مردوں پر ہوتی ہے۔عورت خواہ امیر ہو یا غریب گھر کی معاشی کفالت کی ذمے دار نہیں ہوتی ہے۔اگر وہ سروس کرتی ہے تو محض رضاکارانہ طور پر۔ان معاشی ذمے داریوں کے پیش نظر مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں دو گنا حصہ ملتا ہے۔

بعض حضرات کی زبان سے یہاں تک سناگیا ہے کہ سور کا گوشت قرآن نے اس لیے حرام قراردیا ہے کہ اس کی غذاناپاک چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے۔چونکہ آج کل کے سور ناپاک اشیاء پر نہیں پلتے ہیں بلکہ بڑی صفائی کے ساتھ ان کی نگہداشت ہوتی ہے اس لیے آج کل کے سور  کاگوشت حرام نہیں ہوناچاہیے۔یہ وہ لوگ ہیں جواپنی خواہشوں اورمرضیات کو اللہ کی شریعت کے تابع نہیں بلکہ اللہ کی شریعت کو اپنی خواہش کی مرضی کے تابع بنانا چاہتے ہیں۔یہ اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلام کوزمانے کی ترقیوں کے ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ یہ لوگ اسلام کوزمانے کی ترقیوں کے ساتھ کیوں چلاناچاہتے ہیں؟ایسا کیوں نہیں کرتے کہ دنیوی ترقیوں کو اسلام کےمزاج کے مطابق اور اس سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں؟حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے حاکم کو محکوم اور محکوم کو حاکم بناڈالاہے۔

﴿أَفَحُكمَ الجـٰهِلِيَّةِ يَبغونَ وَمَن أَحسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكمًا لِقَومٍ يوقِنونَ ﴿٥٠﴾... سورة المائدة

’’کیایہ لوگ زمانہ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اوراللہ کے حکم سے بہتر کیا ہوگا ان لوگوں کے لیے جویقین وایمان رکھتے ہیں۔‘‘

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اُصول فقہ،جلد:2،صفحہ:67

محدث فتویٰ

تبصرے