سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(41) چاند گرہن اور سورج گرہن کی نماز

  • 23793
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-22
  • مشاہدات : 1357

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زمانہ قدیم میں یہ عقیدہ تھا کہ چاند گرہن یا سورج گرہن خدا کے غیظ و غضب کی علامت ہے۔ بندوں کی نا فرمانی جب زیادہ بڑھ جاتی ہے تو ایسی چیزیں خدا کا غضب ظاہر کرنے کے لیے ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ لیکن آج جبکہ سائنس کافی ترقی کر چکا ہے علم فلکیات کا طالب علم اور سارے ہی لوگ جانتے ہیں کہ سورج گرہن یا چاند گرہن کا سبب خدا کا غیظ و غضب نہیں بلکہ یہ ایک نہایت معمولی واقعہ ہوتا ہے جو کہ بعض تغیرات کی وجہ سے رونما ہوتا ہے سائنس اتنا ترقی کر چکا ہے کہ ہمیں کافی پہلے سے خبر ہو جاتی ہے کہ سورج یا چاند گرہن کب کہاں اور کتنی دیر کے لیے ہو گا۔ کیا واقعی ایسی صورت میں نماز پڑھنا گرہن کو ٹال سکتا ہے ؟ براہ مہربانی چاند اور سورج گرہن کے موقع پر جو نماز پڑھی جاتی ہے اس کی حکمت سے آگاہ کریں کیونکہ دشمنان اسلام نے اسے تضحیک کا ذریعہ بنا لیا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

چاند گرہن یا سورج گرہن کی نماز کا تذکرہ قرآن نہیں بلکہ حدیث میں ہے۔سن10۔ھ میں جب سورج گرہن ہوا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے ساتھ نماز ادا کی اور گرہن ختم ہو نے تک نماز پڑھتے رہے۔ کسی بھی صحیح حدیث میں یہ تذکرہ نہیں ہے کہ چاند یا سورج گرہن خدا کے غیظ و غضب کی علامت ہے۔ اگر واقعتہً گرہن خدا کے غیظ غضب کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتا تو اسے مکی دور میں ضرور ہونا چاہیے تھا جبکہ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی فرمانی اپنے عروج پر تھی سورج گرہن سن10ھ میں ہوا جبکہ مکہ فتح ہو چکا تھا اور جوق درجوق لوگ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ یہ تو خدا کی خوشنودی کا موقع تھا۔

زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ اعتقاد تھا کہ گرہن ایک طبعی تبدیلی ہے جو کہ کسی عظیم شخصیت کی وفات پر رونما ہوتی ہے یہ محض اتفاق تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے بیٹے ابراہیم کی وفات کے دن ہی سورج گرہن ہوا۔ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ابراہیم کی موت پر آج سورج بھی سوگوار ہے اور اسی وجہ سے اس پر گرہن ہے۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو جمع کر کے ایک تقریر کی اور اس باطل عقیدہ کی تردید میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سورج گرہن یا چاند گرہن یا تاروں کا ٹوٹنا کسی عظیم شخصیت کی موت کی وجہ سے نمو دار ہوتا ہے یقیناً ان کا عقیدہ باطل ہے۔یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جس پر اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔"

بخاری شریف کی روایت ہے۔

"انْكسَفتِ الشَّمسُ يومَ ماتَ إبراهيمُ، فقال الناسُ: انكسَفتْ لِموتِ إبراهيمَ. فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: إنَّ الشَّمسَ والقَمرَ آيتانِ من آياتِ الله، لا يَنكسِفانِ لِموتِ أحدٍ ولا لِحَياتِه؛ فإذا رأيتُموهما فادْعُوا اللهَ وصَلُّوا، حتَّى يَنجليَ"

’’جس دن ابراہیم کا انتقال ہوا اسی دن سورج گرہن ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کی موت کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:کہ چاند اور سورج اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ان دونوں کا گرہن کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے نمودار نہیں ہو تا۔ جب تم گرہن دیکھو تو اللہ سے دعا کرو اور گرہن ختم ہونے تک نماز پڑھو۔‘‘

بخاری شریف کی ایک دوسری روایت ہے:

"لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ ، وَلَكِنَّ اللهَ تَعَالَى يُخَوِّفُ بِهَا عِبَادَهُ "

’’ان دونوں کا گرہن کسی کی موت کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ اپنے بندوں کو اس کے ذریعہ ڈراتا ہے‘‘

حدیث کے یہی الفاظ یعنی "اللہ ان کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے"یا "(؟)کے ختم  ہونے تک نماز پڑھتے رہا کرو۔’’وہ الفاظ ہیں جنھیں دشمنان اسلام نے تضحیک اور تمسخر کانشانہ بنا لیا۔وہ کہتے ہیں کہ یہ تو ایک طبعی عمل ہے جیسے کہ دوسرے طبیعی عمل ہیں پھر صرف گرہن کے موقعےپر نمازیں کیوں پڑھی جائیں ؟ ان کے ذریعے بندوں کو ڈرانا کیسا؟اور دعائیں کیوں مانگی جائیں؟ وغیرہ۔

بے شبہ یہ ایک طبیعی عمل ہے جو اپنے وقت مقررہ پر ظاہر ہوتا ہے۔ نہ وقت سے پہلے اور نہ وقت کے بعد، کائنات کی ان تمام طبیعی حرکتوں کی طرح ان کا ظہور اللہ کے بنائے ہوئے طریقے کے مطابق اپنے مقررہ وقت پر ہوتا ہے۔ اس کائنات میں جو چیز بھی وقوع پذیر ہوتی ہے، خدا کی مرضی سے ہوتی ہے۔ البتہ ان طبیعی حرکتوں اور سرگرمیوں میں جب کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو یقیناًایسا ہوتا ہے جب خدا کی قدرت و عظمت کا خاص طور سے احساس ہو۔ اس احساس کے نتیجے میں جسم اور دل خدا کے حضور سجدہ ریز ہوں۔ ہونٹوں پر دعائیں ہوں اور دل اللہ کی عظمت و کبریائی کے احساس سے تھر تھر کانپ رہا ہو۔ اور یہی وہ جذبہ ہے جس کی طرف حدیث میں اشارہ ہے۔ خدا کی عظمت و کبریائی کا احساس صرف گرہن کے موقعے پر ہی نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے دوسری بہت ساری طبیعی تبدیلیوں اور تغیرات پر ہمیں اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ہم خدا کی عظمت کا احساس کریں۔ اس سے دعائیں مانگیں اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوں ۔ مثلاً:

1۔صبح ہونے یا شام ہونے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی امت کو تعلیم دی ہے۔

"إِذَا أَصْبَحَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ:اللَّهُمَّ بِكَ أَمْسَيْنَا وَبِكَ أَصْبَحْنَا وَبِكَ نَحْيَا وَبِكَ نَمُوتُ وَإِلَيْكَ النُّشُورُ"

’’جب صبح ہو تو تم میں سے ہر ایک کویہ کہنا چاہیے کہا اے اللہ ! ہم نے تیری وجہ سے صبح کی اور تیری وجہ سے رات کی۔ تیری وجہ سے زندہ ہیں اور تیری وجہ سے مر جائیں گے ۔اور تیری ہی طرف پلٹناہے۔‘‘

جب شام ہو تو ان الفاظ کا اعادہ کرے۔

2۔ہواؤں کے چلنے اور بادل کے چھانے پر عائشہ کی روایت ہے کہ جب ہوا چلتی تھی تو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے تھے:

"اللَّهُمَّ إِني أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا ، وَخَيْرِ مَا فِيهَا ، وخَيْر ما أُرسِلَتْ بِهِ"

’’اے اللہ میں تجھی سے اس کی اور اس کے اندرون جو بھلائی ہو طلب کرتا ہوں اور یہ ہوا جو چیز دے کر بھیجی گئی ہے اس کی بھلائی طلب کرتا ہوں اور تیری پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے اور اس کے اندرونی شر سے اور جو چیزدے کر یہ ہوا بھیجی گئی ہے اس کے شر سے۔

3۔پہلی تاریخ کا چاند دیکھنے پر ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ پہلی تاریخ کا چاند دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے تھے:

"اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ علَيْنَا بِالأَمْنِ والإِيمَانِ ، وَالسَّلامَةِ والإِسْلامِ ، رَبِّي ورَبُّكَ اللَّه"

اے اللہ اس چاند کو تو ہمارے لیے امن وایمان اور سلامتی کا پیام بنا اور جن کاموں سے توخوش ہو ان کی تو فیق کا ذریعہ بنا۔ہمارا اور اس چاند کا رب اللہ ہی ہے۔

اسی طرح متعدد دعائیں اور اذکار ہیں جو متعددموقعوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  پڑھا کرتے تھے اور ہمیں اس کی تعلیم دی ہے۔مثلاً سونے کے وقت جاگنے کے وقت کھانے پینے کے وقت نیا کپڑا پہننے پر سواری پر سوار ہوتے وقت وغیرہ وغیرہ۔

ان دعاؤں کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا دل و دماغ اللہ تعالیٰ کی طرف مائل رہے اور اللہ کو بھول نہ جائے۔جب صبح و شام جیسی روز مرہ کی تبدیلیوں پر ہمیں دعاؤں کی تعلیم دی گئی ہے تو چاند اور سورج گرہن جو سالوں بعد پیش آتے ہیں ان موقعوں پر ہمیں صرف دعاؤں پر اکتفانہیں کرنا چاہیے بلکہ دعاؤں کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔

ایک مؤمن ان طبیعی تبدیلیوں کو صرف ان ہی انکھوں سے نہیں دیکھتا جن سے عام دنیا والے دیکھتے ہیں بلکہ وہ عبرت کی نگاہوں سے انہیں دیکھتا ہے۔ خدا کی لا محدود قوت و حکمت کا اسے احساس ہوتا ہے اور اس احساس کے تحت وہ اللہ کی بڑا ئی بیان کرتا ہےاور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے۔

چاند اور سورج گرہن میں مزید ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ یہ گرہن قیامت کی یاددلاتا ہے اس کا ئنات کے ختم ہونے کی یاددلاتا رہتا ہے  کیوں کہ اس تمام کائنات کی طرح یہ سورج اور چاند بھی فانی ہیں ان میں وقوع پذیر تبدیلیوں پر بندہ مومن عبرت کی نگاہیں ڈالتا ہے۔آج کے حالات سے کل کی باتوں کو محسوس کرتا ہے۔ قرب قیامت کا احساس اس کے دل میں جاگزیں ہوتا ہے اور یوں وہ قیامت کی تیاریوں میں مشغول ہوجاتا ہے۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب "المنقذمن الضلال"میں لکھا ہے کہ:

’’یہ گمان کرنا نہایت غلط ہے کہ اسلام ان علوم حدیثہ کا انکار کرتا ہے شریعت میں کوئی ایسی بات نہیں جو ان جدید علوم سے نفی یا اثبات کے طور پر تعرض کرتی ہو۔اور نہ ان جدید علوم میں ہی کوئی ایسی بات ہے جو اسلامی اصول کے خلاف ہو۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

طہارت اور نماز،جلد:1،صفحہ:134

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ