سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(39) صلاۃ الخوف

  • 23791
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-21
  • مشاہدات : 3303

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

براہ مہربانی صلاۃ الخوف اور اس کی تفصیل پر روشنی ڈالیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن شریف میں دو مقامات پر صلاۃ الخوف کا تذکرہ ہے۔ پہلی آیت ہے:

﴿حـٰفِظوا عَلَى الصَّلَو‌ٰتِ وَالصَّلو‌ٰةِ الوُسطىٰ وَقوموا لِلَّهِ قـٰنِتينَ ﴿٢٣٨ فَإِن خِفتُم فَرِجالًا أَو رُكبانًا ...﴿٢٣٩﴾... سورة البقرة

’’اپنی نمازوں کی نگہداشت رکھو خصوصاً ایسی نماز کی جو محاس صلوٰۃ کی جامع ہو۔اللہ کے آگے فرمانبردار غلام کی طرح کھڑے ہو، بدامنی کی حالت ہو تو خواہ پیدل ہو خواہ سوار جس طرح ممکن ہو نماز پڑھو۔

تمام ارکان و شرائط کی پابندی کے ساتھ نماز کی ادائیگی مسلمانوں پر فرض ہے۔ سوائے خوف اور بدامنی کی حالت میں، وہ بھی جب شدید خوف کی حالت ہو، جنگ چھڑ چکی ہو، تلواریں اور توپیں چل رہی ہوں، الغرض مکمل جنگ کی صورت حال ہو، تو ایسی حالت میں نماز کے بعض ارکان و شرائط کی پابندی شرط نہیں تاہم نماز اس صورت میں بھی معاف نہیں ہوتی۔نماز ہر حالت میں ادا کرنی چاہیے ۔ پیدل ہوں یا ٹینک جنگی طیاروں پر سوار۔ اگر نماز کے بعض ارکان کی پابندی نہ ہو سکتی ہو۔ مثلاً کھڑے ہو کر نماز پڑھنا وغیرہ تو ان ارکان کی پابندی ضروری نہیں۔ مجبوری ہو تو اشارے کے ذریعے نماز ادا کی جا سکتی ہے۔دو وقت کی نمازیں ایک ساتھ ملا کر بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ یہ تو ہوئی صلاۃ الخوف کی ایک صورت۔

قرآن کی دوسری آیت میں صلاۃ الخوف کی دوسری صورت کا تذکرہ ہے۔ آیت ہے:

﴿وَإِذا كُنتَ فيهِم فَأَقَمتَ لَهُمُ الصَّلو‌ٰةَ فَلتَقُم طائِفَةٌ مِنهُم مَعَكَ وَليَأخُذوا أَسلِحَتَهُم فَإِذا سَجَدوا فَليَكونوا مِن وَرائِكُم وَلتَأتِ طائِفَةٌ أُخرىٰ لَم يُصَلّوا فَليُصَلّوا مَعَكَ وَليَأخُذوا حِذرَهُم وَأَسلِحَتَهُم ... ﴿١٠٢﴾... سورة النساء

’’اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  جب تم مسلمانوں کے درمیان ہو اور انہیں نماز پڑھانے کھڑے ہو تو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ تمھارے ساتھ کھڑا ہواور اپنا اسلحہ لیے رہے ۔ پھر جب وہ سجدہ کر لے تو پیچھے چلا جائے اور دوسرا گروہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے آکر تمھارے ساتھ پڑھے اور وہ بھی چوکنا رہے اور اپنے اسلحہ لیے رہے۔‘‘

یہ ایک دوسری صورت ہے خوف کی جو پہلی صورت سے ہلکی ہے۔مثلاً جنگ نہ چھڑی ہو لیکن جنگ کا ماحول بن چکا ہو۔ جنگ کے لیے سب تیار ہوں یا بدامنی کی صورت پھیلی ہو۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ سب کے سب ایک ساتھ نماز نہ پڑھیں ۔ بلکہ ایک گروہ نماز پڑھ کر فارغ ہو جائے تب دوسرا گروہ نماز کے لیے کھڑا ہو۔لیکن ایسی حالت میں بھی جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جانی   چاہیے جیسا کہ آیت مذکور سے ظاہر ہے۔

حالت جنگ میں ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمان خوف و دہشت کا بہانہ بنا کر نماز ترک کردے بلکہ اس کے برعکس اسے چاہیے کہ نماز کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرےکیونکہ خوف اور جنگ کی حالت میں خدا سے قربت کا احساس مزید تقویت کا باعث ہو گا اور تقویت میدان جنگ میں نہایت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔

یہ ہے صلاۃ الخوف کی تفصیل اور اس کی ادائیگی کا طریقہ کار، اس نماز میں مسلمانوں کے لیے دو عبرتیں ہیں۔

1۔ پہلی عبرت یہ ہے کہ ہر حالت میں نماز کی پابندی کرنی چاہیے چاہے امن کی حالت ہو یا خوف کی۔

2۔دوسری یہ کہ نماز باجماعت ادا کرنی چاہیے خواہ بدامنی ہی کی حالت کیوں نہ ہو۔ نماز باجماعت ادا کرنا اسلامی شعار ہے اور ضروری ہے کہ اس شعار کی حفاظت کی جائے۔

اللہ فرماتا ہے:

﴿وَاركَعوا مَعَ الرّ‌ٰكِعينَ ﴿٤٣﴾... سورة البقرة

’’اور رکوع کرنے والوں(نماز پڑھنے والوں) کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘

اس آیت میں نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی تاکید ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

طہارت اور نماز،جلد:1،صفحہ:132

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ