سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(22) نبی کریم ﷺ کے معجزات

  • 23774
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 6328

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی محفل میں ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے معجزات پر گفتگو کررہے تھے،وہ معجزات جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت کے موقع پر ظاہر ہوئے اور وہ جو اس ولادت کے بعد ظاہر ہوئے،جیسا کہ عام طور پر لوگ میلاد النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی محفلوں میں ان معجزات کا تذکرہ کرتے ہیں۔حاضرین مجلس میں سے ایک شخص نے معجزات پر گفتگو کرتے ہوئے ان تمام معجزات کوماننے سے انکارکردیا جن کا اکثر تذکرہ لوگوں کی زبانوں پر ہوتا ہے۔مثلاً ہجرت کے موقع پر غار کے منہ پرکبوتروں کا انڈا دینا،مکڑی کاجالا بننا یا پھر ہرنی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ہم کلام ہونا،وغیرہ وغیرہ۔اس شخص نے مزید یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو صرف ایک معجزہ عطا کیا تھا جو تمام دنیا کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ ہے قرآن عظیم۔

امید ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے معجزات سے متعلق مفصل اور مدلل گفتگو فرمائیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے معجزات کے بارے میں آپ نے جس شخص کے موقف کا تذکرہ کیا ہے اس کی بعض باتیں برحق ہیں اور بعض غلط ۔ایسا نہیں ہے کہ جن معجزات کا لوگ اکثر تذکرہ کرتے ہیں وہ ساری کی ساری غلط ہیں یاساری کی ساری مبنی برحق ہیں۔ان مواقع پر غلط اور صحیح کا معیار اپنی عقل اور جذبات کو نہیں بنایا جاسکتا بلکہ ہمیں کتاب اللہ ،صحیح احادیث اور صحیح روایتوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

معجزات رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے معاملے میں تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں:

1۔پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو ہرقسم کے معجزے کومبنی برحق تصورکرتے ہیں۔جن معجزات کا تذکرہ کتابوں میں ہویا لوگوں کی زبانوں پر اس معاملے میں وہ ذرا بھی احتیاط نہیں برتتے اور ہر ضعیف وسقیم قسم کی روایت کو قبول کرلیتے ہیں خواہ وہ روایت دین اسلام کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو۔

اس پہلی قسم کا تعلق عوام الناس سے ہے اور عام طور پر میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی محفلوں میں نعتیہ نظموں میں ان معجزات کا تذکرہ کثرت سے ہوتا ہے۔

2۔ان کے مقابلے میں دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو سرے سے تمام معجزات کا انکار کرتے ہیں ۔ان کی رائے یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا واحد معجزہ قرآن کریم ہے۔یہی ایک معجزہ ہے جو تمام دنیا والوں کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔جب بھی اللہ نے کفار ومشرکین سے اس قرآن کی طرح صرف ایک آیت یاسورہ لانے کوکہا،کفار ومشرکین اس چیلنج کاجواب دینے میں ناکام رہے۔کفار ومشرکین نے جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے معجزات کی مانگ کی اللہ تعالیٰ نے قطعی طور پر ان کی مانگیں رد کردیں۔اللہ کا ارشاد ہے:

﴿وَقالوا لَن نُؤمِنَ لَكَ حَتّىٰ تَفجُرَ لَنا مِنَ الأَرضِ يَنبوعًا ﴿٩٠ أَو تَكونَ لَكَ جَنَّةٌ مِن نَخيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأَنهـٰرَ خِلـٰلَها تَفجيرًا ﴿٩١ أَو تُسقِطَ السَّماءَ كَما زَعَمتَ عَلَينا كِسَفًا أَو تَأتِىَ بِاللَّهِ وَالمَلـٰئِكَةِ قَبيلًا ﴿٩٢ أَو يَكونَ لَكَ بَيتٌ مِن زُخرُفٍ أَو تَرقىٰ فِى السَّماءِ وَلَن نُؤمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّىٰ تُنَزِّلَ عَلَينا كِتـٰبًا نَقرَؤُهُ قُل سُبحانَ رَبّى هَل كُنتُ إِلّا بَشَرًا رَسولًا ﴿٩٣﴾... سورة الإسراء

’’انہوں نے کہا کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان لانے کے نہیں تاوقتیکہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کردیں ۔ یا خود آپ کے لئے ہی کوئی باغ ہو کھجوروں اور انگوروں کا اور اس کے درمیان آپ بہت سی نہریں جاری کر دکھائیں ۔یا آپ آسمان کو ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرا دیں جیسا کہ آپ کا گمان ہے یا آپ خود اللہ تعالیٰ کو اور فرشتوں کو ہمارے  سامنے لاکھڑا کریں ۔یا آپ کے اپنے لئے کوئی سونے کا گھر ہوجائے یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم تو آپ کے چڑھ جانے کا بھی اس وقت تک ہرگز یقین نہیں کریں گے جب تک کہ آپ ہم پر کوئی کتاب نہ  اتار لائیں جسے ہم خود پڑھ لیں، آپ جواب دے دیں کہ میرا پروردگار پاک ہے میں تو صرف ایک انسان ہی ہوں جو رسول بنایا گیا ہوں‘‘

ایک دوسری آیت میں اللہ نے ان کی مانگوں کو قبول نہ کرنے کے سبب کی طرف اشارہ کیا ہے:

﴿وَما مَنَعَنا أَن نُرسِلَ بِالءايـٰتِ إِلّا أَن كَذَّبَ بِهَا الأَوَّلونَ وَءاتَينا ثَمودَ النّاقَةَ مُبصِرَةً فَظَلَموا بِها وَما نُرسِلُ بِالءايـٰتِ إِلّا تَخويفًا ﴿٥٩﴾... سورة الإسراء

’’ہمیں نشانات (معجزات) کے نازل کرنے سے روک صرف اسی کی ہے کہ اگلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں۔ ہم نےثمودیوں کو بطور بصیرت کے اونٹنی دی لیکن انہوں نے اس پر ظالم کیا ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں‘‘

ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،معجزات کی  فرمائش کے بدلے میں اس نے قرآن نازل کیا جو تمام معجزات کے مقابلہ میں اکیلا ہی کافی ہے:

﴿أَوَلَم يَكفِهِم أَنّا أَنزَلنا عَلَيكَ الكِتـٰبَ يُتلىٰ عَلَيهِم ...﴿٥١﴾... سورة العنكبوت

’’اور کیا ان لوگوں کے لیے نشانی کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے‘‘

حکمت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معجزہ ایک عقلی اور ادبی قسم کا معجزہ ہو نہ کہ مادی اور حسیاتی کا تاکہ رہتی دنیا تک یہ معجزہ لوگوں کے لیے ایک چیلنج کی صورت میں برقرار رہے:

اپنی اسی رائے کی تائید میں یہ لوگ ایک صحیح حدیث بھی پیش کرتے ہیں۔

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنَ الأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلا أُعْطِيَ مَا مِثْلهُ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ ..... "(بخاری)

’’ہرنبی کو اللہ نے چند نشانیاں اور معجزے عطاکیے اور ان نشانیوں کی تعداد کے برابر ان پر ایمان لانے والے بھی رہے وہ معجزہ جو مجھے عطا کیا گیا ہے وہ اللہ کی وحی(قرآن) ہے‘‘

3۔تیسری قسم ان لوگوں کی ہے،جن کی رائے درمیانی ہے۔یعنی وہ نہ تمام معجزات کا انکار کرتے ہیں اور نہ تمام کا اقرار۔اور یہی وہ رائے ہے جو میرے نزدیک قابل ترجیح ہے۔اس رائے کی تفصیل یہ ہے:

الف:بلاشبہ قرآن کریم حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا سب سے بڑا معجزہ ہے جو رہتی دنیا تک تمام لوگوں کے لیے چیلنج ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ب:اس معجزے کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو چند دوسرے معجزات سے نوازا تھا لیکن ان معجزات کی حیثیت چیلنج یا لوگوں پر حجت قائم کرنے کے لیے نہیں تھی۔جیسا کہ دیگر انبیاء علیہ السلام  کا معاملہ تھا بلکہ یہ معجزات حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے باعث تکریم وتعظیم اور خدا کی طرف سے باعث نصرت ورحمت تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان معجزات کا ظہور کافرین کی فرمائش پر نہیں ہوا بلکہ کسی مصیبت کی گھڑی میں ہوا مثال کے طور پر غزوہ بدر کے موقع پر بارش کا ہونا جس سے صرف مومنین فیض یاب ہوئے اور کفار اس سے محروم رہے حالانکہ وہ مومنین سے صرف چند گز کے فاصلے پر تھے۔یا مثال کے طور پر اسراء ومعراج کا واقعہ جس کا تذکرہ قرآن اور حدیث دونوں میں ہے۔

ج:ہم صر ف ان ہی معجزات پر ایمان رکھتے ہیں جن کا تذکرہ قرآن یا صحیح  حدیث میں ہو جو معجزات قرآن یا صحیح  حدیث سے ثابت نہ ہوں ان کی حیثیت ہماری نظروں میں ذرہ برابر نہیں ہے۔

ذیل میں بعض ان معجزات کا تذکرہ ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں:

1۔منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بننے سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم  جس کھجور کے تنے پر کھڑے ہوکرخطبہ دیتے تھے اس تنے کا اس وقت آہیں بھرنا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے منبر بننے کے بعد اس کا استعمال ترک کردیا۔اس کی آہیں سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کے پاس آئے اور اپنامبارک ہاتھ اس پر رکھ دیا چنانچہ وہ خاموش ہوگیا۔

2۔صحیح احادیث میں مختلف ایسے واقعات کاتذکرہ ہے کہ غزوہ یا سفر میں پانی کی قلت کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان طریقوں سے پانی حاصل کیا جن سے پانی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔مثال کے طور پر یہ واقعہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے ساتھ زوراء کے مقام پر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  پانی سے بھرا ایک پیالہ منگوایا اور اس میں اپنی ہتھیلی ڈال دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی انگلیوں سے پانی کاچشمہ جاری ہوگیا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی وضو کیا اورتمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے بھی۔اسی طرح حدیبیہ کے موقعے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سوکھے ہوئے کنویں میں اپنے وضو کا بقیہ پانی ڈال دیا اور دعا کی۔چنانچہ کنواں پانی سےلبالب ہوگیا۔

3۔صحیح احادیث میں ایسے واقعات کا بھی تذکرہ ہے کہ مصیبت کی گھڑی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا کی اور اللہ نے فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعا قبول کی۔مثلاً غزوہ بدر کے موقع پر بارش کی دعایا اس غزوہ میں فتح کی دعا۔اسی طرح عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے لیے تفقہ فی الدین کی دعا اور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کےلیے کثرت اولاد اور لمبی عمر کی دعا اوریہ ساری دعائیں حرف بہ حرف مقبول ہوئیں۔

4۔صحیح احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعض پیشن گوئیوں کا تذکرہ ہے،جو حرف بہ حرف پوری ہوئیں۔مثلاً یمن،بصریٰ اور فارس پر مسلمانوں کی فتح کی پیشن گوئی۔حضرت عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے لیے یہ  پیشن گوئی کہ انہیں ایک ظالم گروہ قتل کرے گا اورایسا ہی ہوا۔یا پھر قسطنطنیہ پر مسلمانوں کی فتح کی پیشن گوئی۔

ہجرت کے موقع پر غار کے منہ  پر کبوتر کے انڈادینے کا تذکرہ کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے۔مکڑی کے جال بننے کی روایت کو بعض علماء نے ضعیف اوربعض نے صحیح قراردیا ہے۔لیکن قرآن کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اللہ نے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مدد غیر مرئی(نہ دکھائی دینے والی) چیزوں سے کی تھی حالانکہ کبوتر کاانڈا یا مکڑی کاجالا غیر مرئی چیزیں نہیں ہیں۔

اس لیے ان روایات کاماننا قرین قیاس نہیں معلوم ہوتا۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عقائد،جلد:1،صفحہ:88

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ