اسلام میں قضا کے احکام
قضا کے لغوی معنی" کسی شے کو مضبوط کرنے یا کسی کام کو سر انجام دے کر فارغ ہونے"کے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ"
"پھر اللہ نے انھیں دو دن میں سات آسمان بنادیا۔"[1]
علاوہ ازیں اس لفظ(قضا)کے لغت عرب میں اور بھی معانی ہیں قضا کے شرعی اور اصطلاحی معنی ہیں۔شرعی حکم کو واضح کر کے اسے کسی پر لازم کر دینا اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" قضا (منصف)کی ذمے داری قبول کرنا دینی طور پر واجب اور باعث ثواب ہے۔ یہ سب سے افضل نیکیوں میں شامل ہے۔ اس معاملے میں خرابی اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ بہت سے لوگ اس کے ذریعے سے مال اور چودھراہٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔"[2]
قضا کے احکام کتاب اللہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع سے ثابت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ"
"آپ ان کے معاملات میں اللہ کی نازل کردہ وحی کے مطابق ہی حکم (فیصلہ ) کریں۔"[3]
نیز ارشاد ہے:
"يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ"
"اے دادو! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنا دیا ۔لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو۔"[4]
"شرعی حکم واضح کرنا اور اسے نافذ کرنا اور جھگڑوں کے فیصلے کرنا۔"خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے درمیان متعدد فیصلے کیے نیز اسلامی سلطنت کے مختلف اطراف میں قاضی مقرر کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی اس سلسلے کو قائم رکھا۔
شیخ موصوف رحمۃ اللہ علیہ قاضی کے بارے میں مزید فرماتے ہیں:"وہ فیصلے کے اثرات کے اعتبار سے گواہ ہوتا ہے۔اور امرونہی کے اعتبار سے مفتی ہوتا ہے اور فیصلہ صادر کر کے لازم کردینے کے اعتبار سے صاحب اقتدار کی حیثیت رکھتا ہے۔[5]
دین اسلام میں قضا کا حکم فرض کفایہ کا ہے کیونکہ اس کے بغیر لوگوں کا نظام قائم ہی نہیں رہتا چنانچہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" لوگوں کے لیے حاکم ہونا ناگزیر ہے تاکہ ان کے حقوق ضائع نہ ہوں۔"[6]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کرنے والے چند آدمیوں پر عارضی طور پر بھی لازم قراردیا کہ وہ دوران سفر میں اپنا امیر مقرر کریں۔ اس میں تنبیہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں قضا کا ہو نا لازمی اور ضروری ہے۔"[7]
جو شخص قاضی بننے کا اہل ہو اس پر واجب ہے کہ حکومت کو اپنی خدمات پیش کرے۔ بشرطیکہ کوئی اور شخص نہ مل رہا ہو۔ جو بھی شخص اس ذمے داری کی قوت واہلیت رکھتا ہو اس کے لیے اس عہدے پر فائز ہونا عظیم اجر کا باعث ہے اور جو شخص اس کا حق ادا نہ کرے گا اس کے لیے انتہائی خطرناک امر ہے۔
مسلمانوں کے خلیفہ پر واجب ہے کہ حالات اور ضرورت کے مطابق قاضی مقرر کرے تاکہ لوگوں کے حقوق ضائع نہ ہوں۔ اور وہ اس منصب کے لیے ایسے آدمیوں کا انتخاب کرے جو علم و تقوے میں بہتر ہوں اور اگر باصلاحیت اشخاص کا علم نہ ہو تو لوگوں سے معلوم کرے اور پوچھ لے۔
قاضی کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان زیادہ ممکن حد تک عدل و انصاف سے فیصلے دے۔ خلیفہ کو چاہیے کہ بیت المال سے قاضی کی اس قدر تنخواہ مقرر کرے کہ وہ ضروریات زندگی کے حصول سے بے فکر ہو جائے۔ خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین حکومت کے مناصب پر فائز حضرات کے لیے بیت المال سے اس قدر وظیفہ دیتے تھے جو انھیں ضروریات زندگی کے لیے کافی ہوتا تھا۔
قاضی کی اہلیت اور صلاحیت کا دارومدار مختلف اوقات و حالات پر منحصر ہے کیونکہ جس معاملے میں شریعت نے حد بندی نہیں کی اس کا دارومدار موجودہ احوال اور عرف ہی پر ہوتا ہے۔
اس دور میں مملکت سعودیہ کی وزارت عدل و انصاف نے ایسا نظام رائج کیا ہے کہ جس کے تحت قاضی اپنے ماتحت علاقوں میں اپنا کام کر رہے ہیں۔ اور ان کے اختیارات کا بھی تعین کر دیا گیا ہے لہٰذا ان اصول وضوابط کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ اس میں معاملات کی اصلاح اور اختیارات کا تعین ہے لہٰذا وہ نظام کتاب و سنت کا مخالف نہیں ہے اس لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
ایک قاضی کا حتی الامکان نوصفات سے متصف ہونا ضروری ہے جو درج ذیل ہیں:
مکلف یعنی عاقل و بالغ ہو کیونکہ غیر مکلف خود کسی کی سر پرستی میں ہوتا ہے لہٰذا وہ حاکم بننے کا اہل نہیں۔
2۔مرد ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
"لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً"
"وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جنھوں نے اپنے معاملات میں عورت کو حکمران بنا لیا۔"[8]
3۔آزاد ہو۔ اس وصف کی وجہ یہ ہے کہ غلام اپنے آقا کے حقوق کی ادائیگی میں ہمہ وقت مشغول ہوتا ہے۔
4۔مسلمان ہو کیونکہ کسی شخص کی نیکی دیانت و شرافت مسلم ہونے کے لیے اسلام میں داخل ہونا شرط ہے۔نیز اسلامی معاشرے میں کافر ماتحت رکھنا اور اسے مسلمانوں والی عزت نہ دینا مطلوب ہے۔ حکمرانی یا عہد قضا عزت واحترام کا سبب ہے۔
5۔عادل ہو، یعنی صالح شریف اور دیانت دار ہو۔ فاسق کو عہد ہ قضا دینا قطعاً جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا"
"اے مسلمانو! اگر تمھیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔"[9]
جب فاسق کی خبر مقبول نہیں تو اس کا فیصلہ بطریق اولیٰ غیر مقبول ہوگا۔
6۔ اس کی قوت سماعت قائم ہو کیونکہ بہرہ ہونے کی صورت میں فریقین کے بیانات نہیں سن سکے گا۔
7۔دیکھنے کی قوت رکھتا ہو کیونکہ نابینا شخص مدعی اور مدعا علیہ میں فرق نہ کر سکے گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو قاضی بنایا جا سکتا ہے جیسے اس کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے کیونکہ اسے صرف جھگڑا کرنے والے کی ذات کو پہچاننے میں مشکل پیش آتی ہے اور یہاں اس کی حاجت نہیں بلکہ وہ تو بیان کردہ اوصاف کے مطابق فیصلہ کرتا ہے جیسے سیدنا داؤد علیہ السلام نے دو فرشتوں کے درمیان فیصلہ کیا تھا۔[10]
8۔بولنے کی قوت رکھتا ہو کیونکہ گونگے شخص کے لیے بول کر فیصلہ دینا ناممکن ہے۔ باقی رہے اشارات تو تمام لوگ انھیں سمجھ نہیں پاتے۔
9۔قاضی ایسا شخص ہو جو اجتہاد کر سکتا ہو۔ اگرچہ وہ اپنے اس مذہب میں مجتہد ہو جس میں وہ آئمہ میں سے کسی امام کی تقلید کر رہا ہے تو ضروری ہے کہ مذہب میں راجح اور مرجوح قول کا علم رکھتا ہو۔
اس شق پر عہد قدیم ہی سے عمل ہوتا چلا آرہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگوں کے احکام معطل ہو کر رہ جاتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ان شرائط کا حتی الامکان اعتبار کیا جانا چاہیے جو زیادہ علم تجزبہ اور معرفت والا ہو اس کو دوسروں پر ترجیح ہونی چاہیے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کی دلالت بھی یہی ہے کہ دو فاسقوں میں سے جو زیادہ نفع و فائدے والا اور کم خرابی والا ہو اس کو والی (سربراہ) بنانا چاہیے۔[11]
انصاف پسند اور مذہب کی معرفت رکھنے والے مقلد کو بھی قاضی یا صاحب امر بنایا جا سکتا ہے ورنہ لوگوں کے بہت سے کام معطل رہیں گے۔
ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ مفتیوں کے طبقات ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"مجتہد وہ ہے جو کتاب و سنت کا علم رکھتا ہو۔مجتہد بعض امور میں اگر کسی تقلید کرے گا تو یہ عمل اس کے مجتہد ہونے کے منافی نہ ہو گا۔ ہرمجتہد اور امام نے بعض مسائل میں اپنے سے بڑے عالم کی تقلید کی ہے۔[12]
قاضی کے اوصاف کا بیان
اس باب میں ان اوصاف اور خوبیوں کو بیان کرنا مقصود ہے جن سے ایک قاضی کو متصف ہونا لازمی امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قاضی میں سب سے اعلیٰ اور اچھی خوبی یہ ہے کہ وہ غصے میں نہ آئے اور کسی فریق سے عنادو کینہ نہ رکھے۔"
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قاضی کے لیے تین چیزوں کا جاننا ضروری ہے۔ ان کے بغیر قاضی کا فیصلہ دینا درست نہیں یعنی دلائل اسباب اور شہادتوں کی معرفت اور ان کا علم کیونکہ دلیل سے اسے شرعی حکم معلوم ہوگا۔
اسباب سے اسے معلوم ہوگا کہ زیر غور مقدمے میں یہ حکم لگتا ہے یا نہیں اور گواہیوں سے اختلاف کے وقت فیصلہ کرنا ممکن ہوگا اگر ان تین میں سے کسی ایک میں غلطی ہوگئی تو فیصلہ کرنے میں غلطی واقع ہو جائے گی۔"[13]
قاضی کے لیے ضروری ہے کہ وہ درشت نہ ہو لیکن ہر اعتبارسے مضبوط ہوتا کہ ظالم اس سے کوئی غلط طمع نہ رکھے نیز وہ حلیم الطبع ہو اسے چاہیے کہ فیصلے میں کمزوری نہ دکھائے تاکہ صاحب حق اس سے خوف نہ کھائے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"حکمرانی کرنے کے لیے دو چیزیں رکن کا درجہ رکھتی ہیں یعنی قوت اور امانت لہٰذا قاضی کو چاہیے کہ وہ حلیم ہوتا کہ کسی فریق کے بیان پر غصے میں نہ آئے کہ صحیح فیصلہ دینے کے لیے رکاوٹ بن جائے لہٰذا علم کی زینت اور اس کا حسن و جمال ہے۔ جس کی ضد جذبات میں آنا جلد بازی کرنا اور عدم ثبات ہے۔ قاضی کو چاہیے کہ وہ علم والا ٹھنڈے مزاج کا حامل اور حوصلہ مند ہوتا کہ جلد بازی اور جوش کی وجہ سے اس سے ایسا کام سر زد ہو جائے جو اس کے لائق نہ ہو۔ وہ فطین و فہیم ہو تاکہ کوئی فریق اسے دھوکہ نہ دے سکے وہ عفیف ہو پاک دامن ہو۔ یعنی خود کو حرام کاموں سے بچانے والا ہو۔ صاحب بصیرت ہو اور اپنے سے پہلے قاضیوں کے فیصلوں سے آگاہ ہو ۔ قاضی کی جگہ ومقام یعنی عدالت ممکن حد تک شہر کے وسط میں ہوتا کہ تمام اہل شہر اس کے پاس آسانی سے پہنچ سکیں۔ یہ مسجد کو جائے عدالت بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں چنانچہ خلفائے راشدین سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد ہی میں لوگوں کے درمیان فیصلے کیا کرتے تھے قاضی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ فریقین کے ساتھ بات چیت کے لہجے الفاظ کے استعمال اور نشست گاہوں میں مساوات اور عدل و انصاف کا خیال رکھے۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:
"قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن الخصمين يقعدان بين يدي الحاكم"
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مدعی اور مدعا علیہ دونوں کو قاضی کے سامنے بٹھایا جائے۔"[14]
قاضی پر واجب ہے کہ وہ دونوں فریقوں کے درمیان انھیں اپنے سامنے بٹھانے ان کی طرف توجہ کرنے اور ان سے گفتگو کرنے میں عدل و انصاف کرے۔"
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو امتیازی جگہ پر بٹھانا یا اس پر زیادہ توجہ دینا یا ایک فریق کے استقبال کے لیے کھڑے ہونا یا اس سے مشورہ لینا منع ہے تاکہ یہ چیز دوسرے فریق کے لیے دل شکنی کا سبب نہ بنے نیز اس کا اثر یہ بھی ہوگا کہ جس فریق کو کم تر سمجھا گیا ہے اس کے دلائل کو کمزور سمجھا جائے گا اور اس کی زبان لڑ کھڑائے گی۔ یہ کیفیت افسوسناک ہے۔"
قاضی کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ کسی ایک فریق سے دوران مقدمہ میں سر گوشیاں کرے یا اسے مقدمہ جیتنے کے لیے دلائل سکھائے یا اس کی مہمانی کرے اور اسے دعوی کرنے کا طریقہ بتائے اور اس کے بارے میں کوئی سبق پڑھائے لیکن اگر مدعی دعوئے میں کوئی ضروری بات چھوڑدے تو قاضی اسے یاد لا سکتا ہے۔
قاضی کو چاہیے کہ مشکل حالات میں مشورے کے لیے علمائے کرام سے تعاون لے۔ اگر مقدمے کی مکمل صورت حال سمجھ میں آجائے تو فیصلہ دے دے وگرنہ صورت حال واضح ہونے تک فیصلہ مؤخر رکھے۔
قاضی کے لیے حرام ہے کہ وہ غصے کی حالت میں فیصلہ دے کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لاَ يَقْضِيَنَّ حَكَمٌ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ"
"کوئی حاکم غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ دے۔"[15]
اس کی وجہ یہ ہے کہ غصے کی حالت میں انسان کے دل و دماغ پر دباؤ اور کھچاؤ ہوتا ہے نیز غصے کی کیفیت کمال فہم کے لیے مانع ہے۔ غصے سے نظر انصاف دھندلا جاتی ہے علم و حلم کی راہ گم ہو جاتی ہے۔
غصے کی کیفیت پر قیاس کرتے ہوئے اس حالت کا بھی یہی حکم ہے۔ جب قاضی ذہنی انتشار اور تناؤ ہو۔ اسے سخت بھوک یا پیاس لگی ہو۔ وہ شدید غم سے دوچار ہو اکتاہٹ یا اونگھ میں ہو سردی یا گرمی کی شدت نے اسے پریشان کر رکھا ہو یا قضائے حاجت کی ضرورت محسوس کر رہا ہوتو یہ سب صورتیں ایسی ہیں جو قاضی کے ذہن کو مشغول رکھ کر اسے کسی مثبت نتیجے تک پہنچنے سے روک دیتی ہیں لہٰذا یہ غصے ہی کا حکم رکھتی ہیں۔
قاضی کے لیے رشوت قبول کرنا حرام ہے کیونکہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے:
قاضی کے لیے رشوت قبول کرنا حرام ہے کیونکہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے:
"عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَعَنَ اللَّهُ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ "
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور رشوت لینے والے(دونوں)پر لعنت کی ہے۔"[16]
رشوت دو طرح کی ہوتی ہے۔
1۔جو کسی ایک فریق سے وصول کی جائے تاکہ اس کے حق میں باطل اور ناجائز طور پر فیصلہ دیا جاسکے۔
2۔کسی فریق کو اس کا جائز حق دینے کے لیے اس سے رشوت کا مطالبہ کرنا۔ دونوں صورتوں میں رشوت کا مطالبہ ظلم عظیم ہے۔
قاضی کے لیے حرام ہے کہ وہ اس شخص کا تحفہ قبول کرے جو اسے عہدہ قضا پر فائز ہونے سے قبل تحفے نہیں دیا کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"هَدَايَا الْعُمَّالِ غُلُولٌ"
"حکومت کے کارندوں کا تحائف قبول کرنا خیانت ہے۔"[17]
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شخص سے تحفہ قبول کرنا جس کی تحفے تحائف دینا عادت نہیں یہ چیز اس کے حق میں فیصلہ دینے کا سبب بن جاتی ہے۔
قاضی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ بازار سے اشیاء کی خریدو فروخت کرے کیونکہ اس طریقے سے دوکاندار لوگ اسے اشیاء رعایت دے کر محبت و پیار پیدا کر سکتے ہیں جو آگے چل کرناجائز مفاد کے حصول کا سبب بن سکتا ہے۔ البتہ قاضی کو چاہیے کہ اپنے کسی ایسے وکیل کے ذریعے سے خریدو فروخت کرے جس سے عام لوگ واقف نہ ہوں۔
قاضی اپنا فیصلہ خودنہ کرے اور نہ اس کے بارے میں فیصلہ دے جس سے متعلق خود قاضی کو گواہی شرعاً قبول نہ ہو۔ مثلاً والد ، اولاد ، بیوی وغیرہ کیونکہ اس موقع پر جانبداری کا امکان ہوتا ہے۔ اسی طرح اپنے دشمن کا فیصلہ نہ کرے کیونکہ ان احوال میں اس پر تہمت و الزام لگنے کا امکان ہوتا ہے بلکہ ایسے مقدمات کسی دوسرے قاضی کی طرف منتقل کردے۔ روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کروایا۔سیدناعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک عراقی شخص کے خلاف دعوی قاضی شریح کی عدالت میں دائرکیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کروایا۔
قاضی کے لیے مستحب یہ ہے کہ ان لوگوں کے معاملات پہلے طے کرے۔ جن کے حالات فیصلہ جلدی دینے کا تقاضا کرتے ہیں مثلاً:قیدیوں ، یتیموں اور ذہنی معذوروں کے معاملات پھر اوقاف اور وصیتوں کا فیصلہ کرے جن کا کوئی ذمے دار نہ ہو۔
اگر قاضی کا فیصلہ کتاب و سنت کے احکام کے مخالف ہو یا اجماع قطعی کے خلاف ہو تو وہ قابل قبول نہ ہو گا۔
قاضی کے ان آداب پر سرسری نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں قاضی کے عادل ہونے کی کتنی اہمیت ہے اور اسلام میں قضا کے منصب کو اتنا بلند مقام دیا گیا ہے کہ دنیا کے نظام اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:
"أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ "
"کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔؟"[18]
اللہ ستیاناس کرے ان لوگوں کا جو اس ربانی فیصلے سے اعراض کر کے شیطانی قانون کو اختیار کرتے ہیں۔ ان کی کیفیت بالکل وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں بیان ہوئی ہے۔
"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ (28) جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا ۖ وَبِئْسَ الْقَرَارُ"
"کیا آپ نے ان کی طرف نظر نہیں ڈالی جنھوں نے اللہ کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لااتارا یعنی دوزخ میں جس میں یہ سب جائیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے۔"[19]
فیصلہ کرنے کے طریقے کا بیان
جب قاضی کی عدالت میں دونوں فریق حاضر ہوں تو وہ انھیں اپنے سامنے بٹھائے اور پوچھے کہ تم میں سے مدعی کون ہے؟ یا قاضی انتظار کرے حتی کہ مدعی خود ہی گفتگو شروع کردے۔ جب ایک شخص دعوی کرے تو قاضی غور سے اس کا دعوی سنے۔جب مدعی درست طریقے سے اپنا دعوی پیش کر لے تو قاضی کو چاہیے کہ مدعاعلیہ سے سوال کرے کہ اس دعوی کے بارے میں تمھارا کیا موقف ہے؟ اگر مدعا علیہ دعوی کو سچ اور درست تسلیم کرے تو قاضی کو چاہیے کہ وہ دعوے کی سچائی کی بنیاد پر مدعی کے حق میں فیصلہ دے دے ۔ اگر مدعا علیہ دعوے کے درست ہونے کا انکار کردے تو قاضی مدعی سے گواہ طلب کرے تاکہ مدعی اپنے دعوے کو سچ ثابت کر سکے اور قاضی اس گواہی کی روشنی میں فیصلہ کر سکے۔ اگر مدعی گواہی پیش کر دے تو قاضی اس کی گواہی سنے۔ اگر گواہی قابل قبول ہو تو مدعی کے حق میں فیصلہ دے دے۔
قاضی محض اپنے علم اور ذاتی معلومات کی بنیاد پر فیصلہ نہ دے کیونکہ اس سے اس پر جانبداری برتنے کی تہمت لگنے کا اندیشہ ہے۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔" ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یا غلط فیصلے دینے کا ذریعہ بن سکتا ہے کہ قاضی غلط فیصلہ دے کر کہے گا۔ میں نے اپنی معلومات کی بنیاد پر فیصلہ دیا ہے:"
آگے چل کر امام موصوف فرماتے ہیں:"سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسا کرنے سے منع کرتے تھے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کوئی ان کے اس فیصلے کا مخالف نہیں تھا۔ قاضیوں کے سردار سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منافقین کے بارے میں علم یقنیی رکھتے تھے کہ ان کا خون اور مال مباح ہے لیکن ان کے معاملات میں اپنے علم کے ساتھ فیصلہ نہ کرتے تھے بلکہ دلائل اور شہادتوں کو بنیاد بناتے تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں اور اس کے بندوں کے ہاں ہر قسم کی تہمت بلکہ شک و شبہے سے بالاتر تھی۔"[20]
امام موصوف مزید لکھتے ہیں :"البتہ قاضی کے لیے جائز ہے کہ وہ فیصلہ دیتے وقت ان معلومات اور اخبار کو بنیاد بنالے جو متواتر اور مشہور و معروف ہوں جس میں قاضی کے ساتھ اور لوگ بھی شریک ہیں کیونکہ یہ بھی ایسے واضح شواہد اور قرائین ہیں کہ قاضی پر کسی قسم کی تہمت نہیں لگ سکتی اور اس کی بنیاد پر فیصلہ دلیل کے ساتھ فیصلہ ہے۔"[21]
اگر مدعی نے کہا: میرے پاس کوئی گواہ نہیں ہے تو قاضی اسے بتائے کہ فریق ثانی (مدعا علیہ)کے ذمے قسم ہے چنانچہ صحیح مسلم میں روایت ہے۔"
"جَاءَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ وَرَجُلٌ مِنْ كِنْدَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الْحَضْرَمِيُّ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ هَذَا قَدْ غَلَبَنِي عَلَى أَرْضٍ لِي كَانَتْ لِأَبِي، فَقَالَ الْكِنْدِيُّ: هِيَ أَرْضِي فِي يَدِي أَزْرَعُهَا لَيْسَ لَهُ فِيهَا حَقٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَضْرَمِيِّ: «أَلَكَ بَيِّنَةٌ؟» قَالَ: لَا، قَالَ: «فَلَكَ يَمِينُهُ»"
:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی اپنا جھگڑا لے کر آئے ایک حضرمی تھا ،دوسرا کندی ،حضرمی نے کہا:"اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری زمین پر اس نے قبضہ کر رکھا ہے جو کہ میرے باپ کی تھی۔ کندی نے کہا:" وہ زمین میری ہے اور میرےقبضے میں ہے میں اس پر کاشت کرتا ہوں۔ اس کا اس میں کوئی حق نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی کو کہا: کیا تیرے پاس کوئی گواہ ہے؟ اس نے کہا: نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تیرے لیے کندی کی قسم ہے یعنی کندی قسم اٹھائے گا۔[22]
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"اس روایت سے یہ قاعدہ و ضابطہ نکلتا ہے کہ قسم اٹھانے کی ذمے داری مدعا علیہ پر ہے بشرطیکہ مدعی اپنے دعوے کے حق میں کوئی مضبوط دلیل پیش نہ کر سکے۔"[23]
جب مدعی فریق مخالف (مدعا علیہ)سے قسم کا مطالبہ کرے تو قاضی کو چاہیے کہ اس قسم لے۔ جب وہ قسم اٹھائے گا تو قاضی اس کے حق میں فیصلہ جاری کرے گا اور اسے جانے دے گا البتہ مدعا علیہ کی قسم کو درست تب تسلیم کیا جائے گا جب اس کی قسم صاف اور واضح الفاظ کے ساتھ ہوگی اور مدعی کے مطالبے پر ہوگی کیونکہ جس چیز سے متعلق قسم اٹھانی ہے اس سے مدعی کا حق متعلق ہے لہذا اس کے مطالبے کے بغیر قسم درست نہ ہوگی۔
اگر مدعا علیہ قسم اٹھانے سے انکار کردے تو اس بنیاد پر اس کے خلاف فیصلہ دیا جائے گا کیونکہ مدعا علیہ کا قسم سے انکار مدعی کے سچا ہونے کی دلیل ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے۔ ان میں سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل ہیں۔ ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ جب مدعا علیہ قسم اٹھانے سے انکار کردے گا تو مدعی کو قسم اٹھانا ہو گی۔
جب مدعا علیہ قسم اٹھائے گا تو قاضی اس کے حق میں فیصلہ صادر کردے گا۔اگر فیصلہ صادر ہوجانے کے بعدمدعی اپنے دعوی کی سچائی پر گواہ ڈھونڈلایا تو اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگرمدعی نے اپنے یہ کہا تھا کہ میرے پاس گواہ نہیں تو اب اس کا گواہ قابل قبول نہ ہوگا کیونکہ وہ اپنے پہلے بیان میں جھوٹا ثابت ہوگیا۔اور اگر اس نے پہلے ایسا نہیں کہا تھا تو اس کی گواہی قابل سماعت ہوگی اور مضبوط ہونے کی صورت میں قاضی اپنے سابقہ فیصلے میں نظر ثانی کر کے اس کے حق میں فیصلہ دے گا۔
مدعا علیہ کے قسم اٹھانے سے مدعی کا حق ختم نہیں ہو جاتا کیونکہ قسم لینے سے دعوی غلط ثابت نہیں ہو گا۔ یہ قسم صرف جھگڑا ختم کرنے کے لیے ہے اس سے حقدار کا حق ختم نہیں ہو جاتا۔
اسی طرح اگر مدعی نے کہا:میں نہیں جانتا کہ میراکوئی گواہ ہے۔ بعد میں اسے گواہ مل گیا تو گواہی سنی جائے گی اور اس کی روشنی میں فیصلہ دیا جائےگا۔کیونکہ اس صورت میں وہ اپنے پہلے بیان سے منحرف نہیں ہوا۔واللہ اعلم۔
صحت دعوی کی شرائط
کسی دعوی کے صحیح ہونے کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ وہ واضح اور متعین ہو، مثلاً: اگر وہ میت پر قرض سے متعلق ہوتو دعوے میں موت کا ذکر کیا جائے۔ قرض کی نوعیت اور مقدار کی تفصیل بیان کی جائے اور وہ تمام معلومات دی جائیں جن سے دعوے کی صورت حال واضح ہو کیونکہ قاضی کے فیصلے کا دارومدار اسی تحریر پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"وَأَنَا أَقْضِي بَيْنَكُمْ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ"
"میں تمھارے درمیان بیانات پر فیصلہ دوں گا جو سنوں گا۔"[24]
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ دعوی کو واضح صورت میں پیش کرنا لازمی ہے۔ تاکہ قاضی کے سامنے حقیقت حال اچھی طرح واضح ہو جائے۔
صحت دعوی کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز سے متعلق ہو وہ شے معلوم اور متعین ہو مجہول شے نہ ہوتا کہ جب دعوی ثابت ہو جائے تو اس شے کو لازم کیا جاسکے البتہ بعض مواقع پر مجہول شے کا دعوی درست تسلیم ہو گا مثلاً:اپنے مال میں سے کچھ حصے کی یا اس کے غلاموں میں سے کسی غلام کی وصیت کرنا جسے حق مہر وغیرہ بنایا جائے۔
دعوے کا واضح اور صریح ہونا ضروری ہے۔ دعوے میں یہ کافی نہ ہوگا کہ" فلاں کے پاس میری فلاں چیز ہے۔"بلکہ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ میں اس کو لینے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ اور جس شے کا دعوی کیا گیا ہے وہ موجود ہو لہٰذا ایسے قرض کے مطالبے کا دعوی نہیں ہو سکتا جس کی ادائیگی کےلیے باہمی طے شدہ مدت ابھی باقی ہے کیونکہ مقرر وقت سے قبل اس کا مطالبہ کرنا درست نہیں اور نہ اس بنیاد پر مدعا علیہ پر کوئی پابندی لگائی جاسکتی ہے۔
صحت دعوی کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ اس کے جھوٹ ہونے کا واضح قرینہ نہ پایا جائے ۔مثلاً: کسی شخص کے خلاف کوئی دعوی کرے کہ اس فلاں شخص نے بیس سال قبل قتل کیا تھا یا چوری کی تھی حالانکہ مدعا علیہ کی عمر بیس سال سے بھی کم ہو کیونکہ عقل اس دعوی کو سچ تسلیم نہیں کرتی اس لیے اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔
اگر کسی نے بیع یا اجارے کے کسی معاہدے کا دعوی کیا تو صحت دعوی کے لیے ضروری ہے کہ بیان میں ان شرائط کا تذکرہ بھی ہو جن کے تحت معاہدہ ہواتھا کیونکہ لوگ معاہدات میں مختلف شرائط عائد کردیتے ہیں اور بسااوقات کسی شرط کی وجہ سے قاضی کے نزدیک معاہدہ صحیح نہیں ہوتا۔
اگر کسی نے وراثت کے حصول کا دعوی کیا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ وراثت کا سبب بیان کرے کیونکہ اسباب میراث متعدد ہیں۔[25]لہٰذا تعیین ضروری ہے۔
صحت دعوی کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز سے متعلق دعوی ہووہ متعین ہو۔نیز وہ چیز اسی مجلس میں یا اس شہر میں موجود ہوتاکہ اس کے بارے میں کوئی مغالطہ نہ ہو۔اگر وہ شے(دوریا)غائب ہوتو اس کے اوصاف اور علامات کا تذکرہ ضروری ہے جس سے وہ دوسری اشیاء سے ممتاز ہو جائے۔
گواہ کے قابل قبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیک اور دیانتدارشخص ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ "
"اور آپس میں دوعادل شخصوں کو گواہ کر لو۔"[26]
اور فرمان الٰہی ہے:
"مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنْ الشُّهَدَاءِ"
"جنھیں تم گواہوں میں سے پسند کر لو۔"[27]
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا"
"اے مسلمانو! اگر تمھیں کوئی فاسق خبر دے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔[28]
فقہائے کرام میں اس بات پر اختلاف ہے کہ کیا وصف عدالت ظاہری اور باطنی طور پر ہو ظاہری طور پر کافی ہے اس مسئلے میں دو قول ہیں۔ ان میں سے واضح قول یہی ہے کہ ظاہری عدالت ہی کا اعتبار ہوگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی شخص کی شہادت کو قبول کیا تھا۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول بھی ہے۔(الْمُسْلِمُونَ عُدُولٌ)"تمام مسلمان عادل ہیں۔[29]
قاضی پر لازم ہے کہ وہ عادل شخص کی گواہی کی بنا پر فیصلہ صادر کردے۔ البتہ اگر اس کے خلاف مواد موجود ہو تو جائز نہیں۔
اگر قاضی کو کسی گواہ کے عدل ہونے کا علم نہ ہو تو وہ کسی ایسے معتبر شخص سے معلومات حاصل کرے جو اس کے ساتھ رہنے یا کوئی معاملہ کرنے یا اس کے پڑوس میں میں رہنے کی وجہ سے خبر رکھتا ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجود گی میں ایک شخص نے کسی کے بارے میں تعریفی کلمات کہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا : کیا تم اس کے پڑوسی ہو؟ اس نے کہا: نہیں پھر پوچھا: کیا تم نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے؟اس نے کہا: نہیں پھر امیر المومنین نے پوچھا : تم نے اس سے درہم و دینار کالین دین کیا ہے؟ تو اس نے کہا: نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تم اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔
اگر گواہ کے بارے میں تحقیق کرتے وقت بعض لوگ اسے قابل اعتماد قراردیں اور بعض ناقابل اعتماد تو اس کی گواہی قبول نہیں ہوگی کیونکہ تعریف کرنے والے کی نسبت تنقید کرنے والے کی معلومات گہری اور وزنی ہوتی ہیں۔تعریف کرنے والے کی نظر ظاہری حالات پر ہوتی ہے جبکہ تنقید کرنے والے کی نگاہ انسان کے مخفی حالات پر بھی ہوتی ہے۔ تنقید کرنے والا ایک خامی یا برے وصف کی موجودگی ظاہر کرتا ہے جبکہ تعریف کرنے والا صرف خامیوں کی نفی کرتا ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ مثبت نافی پر مقدم ہوتا ہے۔
اگر مدعا علیہ اکیلا ہی گواہ کی تعریف کرے یا اسے سچا کہہ دے تو گواہ کے قابل اعتماد ہونے کے لیے یہ بھی کافی ہے کیونکہ گواہ کو قابل اعتماد سمجھنا مدعی کے حق کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے اس لیے اس کے قرار کی بنیاد پر اس کے خلاف فیصلہ دیا جائے گا۔
جب قاضی کو مدعی کے گواہ کے قابل اعتماد ہونے کا علم ہوتو وہ اس کی بنیاد پر فیصلہ صادر کر سکتا ہے۔ اب تحقیق کی ضرورت نہیں اسی طرح اگر اسے گواہ کے قابل اعتماد ہونے کا علم نہ ہو تو اس کی بنیاد پر فیصلہ نہیں دے سکتا۔ اگراسے گواہوں پر شک ہو تو ان سے پوچھے کہ انھیں یہ معلومات کب اور کیسے حاصل ہوئیں؟
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قاضی کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو گناہ گار ہو گا۔سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آکر دو آدمیوں نے گواہی دی کہ فلاں شخص نے چوری کی ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان پر شک ہوا تو فرمایا:" تم دونوں اس شخص کا ہاتھ کاٹ دو۔ یہ سن کروہ بھاگ گئے۔"[30]
اگر فریق مخالف نے گواہوں کو ناقابل اعتبار قراردیا تو اس سے مطالبہ کیا جائے گا کہ ان کے ناقابل اعتبار ہونے کا ثبوت پیش کرے۔ کیونکہ حدیث میں ہے۔
"البينة على المدعي"
"گواہ پیش کرنا مدعی کے ذمے ہے۔"[31]
لہذا اسے تین دن کی مہلت دی جائے گی ۔ اگر اس نے اپنی جرح کے حق میں گواہ پیش نہ کیے تو فیصلہ اس کے خلاف دے دیا جائے گا۔کیونکہ جرح کے حق میں مذکورہ مدت میں گواہ پیش نہ کر سکنا اس کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے۔
اگر قاضی کو گواہوں کے حالات زندگی کے بارے میں علم و خبر نہ ہو تو وہ مدعی سے اس کے بارے میں تزکیہ طلب کرے تاکہ ان کا عادل اور دیانت دار ہونا ثابت ہو اور ان کی شہادت پر فیصلہ دیا جائے۔ کسی شخص کے تزکیے کے لیے دو آدمیوں کی شہادت شرط ہے۔ بعض کے نزدیک ایک آدمی کی شہادت تزکیہ کافی ہے۔
اگر ایک فریق عدالت سے غائب ہے اور وہ اس قدر مسافت پر ہے جس سے نماز قصر کرنے کا حکم ہے تو قاضی اس کے خلاف فیصلہ کر سکتا ہے بشرطیکہ دلائل اس کے خلاف جارہے ہوں چنانچہ حدیث میں ہے:"ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ زیادہ ہی کفایت شعار ہیں وہ مجھے نان و نفقہ کے لیے اس قدر نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ان کی غیر حاضری میں اس قدر مال لے سکتی ہے جو تجھے اور تیری اولاد کو کفایت کر جائے۔"[32]
اس روایت سے ثابت ہوا کہ غیر حاضر شخص کے خلاف فیصلہ دیا جا سکتا ہے پھر جب وہ حاضر ہوگا تو اس کی دلیل سنی جائے گی کیونکہ اب رکاوٹ ختم ہو گئی ہے۔
جب یہ فیصلہ دے دیا جائے کہ حق فلاں شخص کا ہے تو اس سے یہ دعوی ختم نہیں ہو سکتا کہ صاحب حق کو اس کی ادائیگی کی جائے یا یہ کہ مدعا علیہ اس سے بڑی الزمہ ہو چکا ہے یا کوئی اور صورت پیش آچکی ہے جس سے حق ختم ہو گیا ہے۔
غیر حاضر شخص کے خلاف فیصلہ دینےمیں یہ شرط ہے کہ وہ قاضی کے دائرہ اختیار سے باہرہو۔ اگر وہ اس کے دائرہ اختیار کی حدود میں ہواور وہاں کوئی فیصلہ کرنے والا (نائب قاضی)موجود نہ ہوتوقاضی کسی ایسے شخص کے نام تحریری آرڈر جاری کرے جوان دونوں کے درمیان فیصلہ کر سکے اگر یہ ممکن نہ ہوتو کسی بھی شخص کے لیے ان میں صلح کروانے کا حکم جاری کرے۔اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو مدعی سے کہے کہ اپنا دعوی ثابت کرو۔ اگروہ ثابت کردےتو مدعا علیہ کو حاضر کیا جائے گا خواہ وہ کتنی ہی دور ہو۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے:"علمائے مدینہ کا مذہب یہ ہے کہ وہ غیر موجود کے خلاف فیصلہ دے دیتے ہیں۔" اور فرمایا:"یہ موقف اچھا ہے۔"
علامہ زرکشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "امام احمد رحمۃ اللہ علیہ دعوی سننے اور گواہی سننے کو غلط نہیں سمجھتے تھے۔"پھر علمائے مدینہ اور علمائے عراق کے اقوال بیان فرمائے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس مسئلے پر دونوں شہروں کے علماء میں اتفاق ہے۔
غیر مکلف کے خلاف بھی دعوے کی سماعت ہو گی اور فیصلہ دیا جائے گا۔ اس کی دلیل ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے۔
فیصلہ ہو جانے کے بعد وہ مکلف ہو جائے تو اس کے خلاف دلائل و شہود پیش کر سکتا ہے۔
حصے داروں میں تقسیم کا بیان
حصے داروں میں تقسیم کا مسئلہ کتاب اللہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
"وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْمَاءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ ۖ "
"اور انھیں خبر دے دیں کہ بے شک پانی ان کے(اور اونٹنی کے) درمیان تقسیم شدہ ہے۔"[33]
نیز فرمان الٰہی ہے:
"وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا"
"اور جب تقسیم کے وقت قرابت داراور یتیم اور مسکین آجائیں تو تم اس میں سے تھوڑا بہت انھیں بھی دےدواور ان سے(نرمی سے) بات کرو۔"[34]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"لشُّفْعَةُ فِيمَا لَمْ يُقْسَمْ"
"حق شفعہ اس چیز میں ہے جو تقسیم نہ ہوئی ہو۔"[35]
علاوہ ازیں حدیث میں ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کیا کرتے تھے ۔ اس مسئلے پر اجماع کا ہونا متعدد علماء سے منقول ہے۔ مزید برآں انسان کی ضرورت اس مسئلے کی متقاضی ہے کیونکہ جن لوگوں کا حق ایک مشترک چیز سے متعلق ہے اس کی وصولی تقسیم کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔
تقسیم کا مطلب ہے ایک مشترک چیز میں جس شخص کا جو حصہ ہے اسے الگ الگ کر دینا۔ تقسیم کی دو قسمیں ہیں۔
(1)رضا مندی کی تقسیم (2)زبردستی کی تقسیم۔[1]۔حم السجدۃ12۔41۔
[2]۔الفتاوی الکبری الاختیارات العلمیہ باب القضاء5/556۔
[3]۔المائدہ:5/49۔
[4]۔ص:38۔26۔
[5]۔الفتاوی الکبری الاختیارات العلمیہ باب القضاء5/556۔
[6]۔المغنی والشرح الکبیر:11/374۔
[7]۔الفتاوی الکبری الاختیارات العلمیہ باب القضاء5/555
[8]۔صحیح البخاری المغازی باب کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی کسری و قیصر حدیث4425۔
[9]۔الحجرات:6۔49۔
[10]۔۔الفتاوی الکبری الاختیارات العلمیہ باب القضاء5/558۔
[11]۔اعلام الموقعین:4/186۔بتغیریسیر
[12]۔۔الفتاوی الکبری الاختیارات العلمیہ باب القضاء6/556۔
[13]۔بدائع الفوائد لابن القیم:4/12۔
[14]۔(ضعیف) سنن ابی داؤد القضاء باب کیف یجلس الخصمان حدیث: 3588۔ومسند احمد 4/4۔
[15]۔صحیح البخاری الاحکام باب ھل یقیضی القاضی اویفتی وھو غضبان ؟حدیث 7158۔وصحیح مسلم الاقضیہ کراھیہ قضاء القاضی وھو غضبان حدیث 1717۔
[16]۔جامع الترمذی الاحکام باب ماجاء فی الراشی والمرتشی فی الحکم حدیث 1337۔
[17]۔مسند احمد :5/425۔
[18]المائدہ:5۔50۔
[19]۔ابراہیم:14۔28۔29۔
[20]۔اعلام الموقعین:3/129والطراق الحکمۃ لا بن القیم ص:263۔264۔
[21] ۔ الطراق الحکمۃ لا بن القیم ص:265۔267۔
[22]۔صحیح مسلم الایمان باب وعید من اقنطع حق مسلم بیمین فاجرہ بالنارحدیث :139۔
[23] ۔ الطراق الحکمۃ لا بن القیم ص:178۔
[24]۔صحیح البخاری الحیل باب 10۔حدیث 6967وصحیح مسلم الاقصیۃ باب بیان ان حکم الحاکم لا یغیرالباطن حدیث 1713۔وسنن النسائی آداب القضاۃ باب ما یقطع القضاء حدیث 5424۔واللفظ لہ۔
[25]۔بنیادی اسباب میراث تین ہیں۔نسب نکاح اور ولاء ہر ایک کی تفصیل وراثت کے ابواب میں گزر چکی ہے۔(صارم)
[26]۔الطلاق:2/65۔
[27]۔البقرۃ:2/282۔
[28]۔الحجرات:6/49۔
[29]۔السنن الکبری للبیہقی :10۔155۔
[30]۔ الطراق الحکمۃ لا بن القیم ص:68۔99۔100۔
[31]۔جامع الترمذی الاحکام باب ماجاء فی ان البینہ علی المدعی حدیث 1341۔۔
[32]۔صحیح البخاری التفقات باب اذا لم ینفق الرجل حدیث:5364۔وصحیح مسلم الاقضیۃ باب قضیۃ ھذا حدیث :1714۔
[33]القمر:54۔28۔
[34]۔النساء:4/8۔
[35]۔۔ذکرہ البخاری فی ترجمۃ الباب کتاب الشفعہ فی مالم یقسم۔یر موارد الظمان (ابن حبان)4/38۔39۔حدیث 1152۔