سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(27) قسم کے احکام

  • 23749
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 9399

سوال

(27) قسم کے احکام
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قسم کے احکام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قسم کو عربی میں یمین بھی کہتے ہیں جس کی جمع ایمان آتی ہے۔ قسم کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ مخصوص طریقے سے کسی کام یا حکم کو مؤکد بنانا۔قسم کو یمین کہنے کی وجہ یہ ہے کہ لغت عرب میں دائیں ہاتھ کو یمین کہا جاتا ہے۔ جب دو قسم اٹھانے والے قسم اٹھائیں تو وہ اپنے اپنے ہاتھ کو اپنے ساتھی کے داہنے ہاتھ پر مارتے ہیں جیسے عہدو پیمان میں ہوتا ہے۔

جس قسم میں کفارہ لازم آتا ہے ایسی قسم ہے جو اللہ تعالیٰ کے نام یا اس کی کسی صفت کا ذکر کر کے اٹھائی گئی ہو۔

مثلاً: کوئی کہے:اللہ تعالیٰ کی قسم یا اللہ تعالیٰ کی عظمت کبریائی جلال عزت رحمت یا قرآن کی قسم ۔

غیر اللہ کی قسم حرام اور شرک ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"فَمَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ أَوْ لِيَصْمُتْ"

"جو شخص قسم اٹھانا چاہتا ہو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائےیا چپ رہے۔"[1]

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ"

"جس نے غیراللہ کی قسم اٹھائی اس نے کفر کیا یا شرک ۔"[2]

اور فرمان نبوی ہے:

"مَنْ حَلَفَ بِالْأَمَانَةِ فَلَيْسَ مِنَّا"

"جس نے امانت کی قسم اٹھائی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔"[3]

ان مذکورہ روایات سے ثابت ہوا کہ غیر اللہ کی قسم اٹھانا حرام اور شرک ہے:مثلاً: کوئی کہے : نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی قسم تیری زندگی کی قسم کعبہ کی قسم بچوں کی قسم وغیرہ:

ابن اعبدالبر رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔"اس مسئلے میں علمائے امت کا اجماع ہے:"

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"غیر اللہ کی قسم اٹھانا شرک (حرام)ہے سیدناابن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول ہے کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے نام کی جھوٹی قسم اٹھالوں تو یہ غیر اللہ کے نام کی سچی قسم سے بہتر ہے۔"[4]

شیخ موصوف فرماتے ہیں:"سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے کلام کا یہ مطلب ہے کہ توحید کی نیکی سچ بولنے کی نیکی سے بڑھ کر ہے جیسا کہ جھوٹ بولنے کا گنا شرک کے گناہ سے نہایت کم ہے۔"[5]

جو شخص اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر توڑدے تو اس پر کفارہ دینا لازم آجا تا ہے بشرطیکہ اس میں درج ذیل تین شرائط موجود ہوں۔

1۔قسم کا انعقاد ہو یعنی آدم ایسے کام پر ارادے کے ساتھ قسم اٹھائے جس کا تعلق مستقبل کے ساتھ ہو نیز ممکن بھی ہو۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَيْمَانَ"

"اللہ تمھاری لغوقسموں پر تم سے مؤاخذ ہ ان قسموں پر فرماتا ہے جو تم مضبوط باندھ لیں۔"[6]

قسم کا انعقاد تبھی ہوتا ہے جب کام کا تعلق زمانہ مستقبل کے ساتھ ہونا کہ زمانہ ماضی سے کیونکہ زمانہ ماضی سے تعلق رکھنے والے کام میں قسم پوری کرنا یا تو ڑنا ممکن نہیں۔ البتہ اگر کسی نے جان بوجھ کر زمانہ ماضی کے کسی کام پر جھوٹی قسم اٹھائی تو وہ "یمین غموس" ہے۔ واضح رہے غموس کے معنی "غوطہ لگانے"کے ہیں کیونکہ ایسا شخص گناہ (کے سمندر) میں اور پھر جہنم میں غوطہ لگاتا ہے۔ اس قسم میں کفارہ نہیں ہے کیونکہ یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ کفارے سے معاف نہیں ہوتا نیز یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔

اگر نیت کیے بغیر قسم کے الفاظ زبان پر آگئے مثلاً:کسی کا تکیہ کلام ہو"ہاں! اللہ کی قسم۔" نہیں! اللہ کی قسم "وغیرہ چونکہ اس میں نیت شامل ہوتی ۔ اس لیے یہ لغو قسم ہے اس میں کفارہ نہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

"لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَيْمَانَ"

"اللہ تمھاری لغوقسموں پر تم سے مؤاخذ ہ نہیں فرماتا لیکن ان قسموں پر فرماتا ہے جو تم مضبوط باندھ لیں۔"[7] 

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے لغو قسم کے بارے میں فرمایا:

"هُوَ كَلَامُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ، كَلَّا وَاللَّهِ، وَبَلَى وَاللَّهِ"

"آدمی گھر میں بیٹھا بات بات پر کہے نہیں۔ اللہ کی قسم! کیوں نہیں اللہ کی قسم وغیرہ!"[8]

اسی طرح ایک شخص نے خود کو سچا سمجھتے ہوئے قسم اٹھائی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ بات اس طرح نہ تھی (تویہ بھی لغو قسم ہی ہے اور اس میں کفارہ نہیں)

2۔قسم اٹھانے والا اپنی مرضی اور اختیار سے قسم اٹھائے ۔ اگر اسےقسم پر مجبور کیا گیا ہو تو قسم منعقد نہ ہو گی ۔ یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے گا۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"عفي لي عَنْ أُمَّتِي الخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ"

"اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطا بھول چوک اور جس پر ان کو مجبور کر دیا جائے معاف کر دیا ہے۔[9]

3۔قسم کو اپنے اختیار سے اور جانتے ہوئے توڑ دے۔ اگر اس نے اپنی قسم کو بھول کر توڑا یا اس سے زبردستی قسم تڑوائی گئی تو اس پر کفارہ نہیں کیونکہ یہ گناہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"عفي لي عَنْ أُمَّتِي الخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ"

"اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطا بھول چوک اور جبرواکراہ سے درگزر فرمایا ہے۔"[10]

اگر قسم میں کلمہ استثنا کہا گیا مثلاً: کسی نے کہا:"اللہ کی قسم!میں یہ کام ضرور کروں گا انشاء اللہ تعالیٰ "تو اسے کام نہ کرنے کی صورت میں کفارہ نہ پڑے گا بشرطیکہ کلمہ استثنا قسم اٹھانے کے وقت بولا گیا ہو۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"من حلف على يمين فقال :إن شاء الله؛ لم يحنث "

"جس نے قسم اٹھائی اور ساتھ ان شاء اللہ کہا تو وہ حانث نہ ہوگا۔"[11]

اگر کلمہ استثنا(ان شاء اللہ ) کا مقصد استثنا نہ تھا بلکہ محض تبرک تھا یا ان شاء اللہ کا کلمہ قسم کے متصل بعد نہ بولا گیا ہو بلکہ ایک وقت گزرنے کے بعد کہا گیا تو اس کلمہ استثنا سے فائدہ اٹھانا درست نہ ہو گا البتہ بعض علماء کا قول ہے۔کہ قسم مکمل کرنے کے بعد اس نے ان شاء اللہ کہہ دیا یا مجلس میں سے کسی نے اسے کہا:ان شاء اللہ کہہ دو اور اس نے کہہ دیا تو ان کا فائدہ ہو گا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:" یہی بات درست ہے۔"

قسم کوتوڑنا کبھی واجب ہوتا ہے کبھی حرام اور کبھی مباح۔

اگر کسی نے واجب کام چھوڑ دینے کی قسم اٹھائی تو اس پر قسم توڑدینا اور کفارہ ادا کرنا واجب ہے مثلاً:اگر قسم اٹھائی کہ وہ صلہ رحمی نہ کرے گا یا حرام کام کا ارتکاب کرےگا مثلاً: شراب پیے گا تو اس پر واجب ہے کہ قسم کو توڑدے اور کفارہ ادا کرے

2۔ کبھی قسم کو توڑنا حرام ہوتا ہے مثلاً: کسی نے قسم اٹھائی کہ وہ فلاں حرام کام نہیں کرے گا ۔یافلاں فرض ادا کرے گاتو اس پر واجب ہے کہ قسم پوری کرے اسے توڑنا جائز نہ ہوگا۔

3۔اگر کسی نے کوئی مباح کام کرنے یا چھوڑنے کی قسم اٹھائی تو اس میں قسم کا توڑنا مباح ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَيْتُ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَكَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِي"

"اگر میں کسی کام پر قسم اٹھالو لیکن اس کے غیر میں بہتری ہوتو میں بہتر کام ہی کروں گا اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کروں گا۔"[12]

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"من حلف على يمين فرأى غيرها خيرا منها فليأت الذي هو خير ، وليكفر عن يمينه "

"جس شخص نے کسی کام پر قسم اٹھائی لیکن وہ سمجھتا ہے خیر و بھلائی دوسری صورت میں ہے تو وہ خیر والی صورت اختیار کرے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔"[13]

اگر کسی شخص نے بیوی کے سوا کسی اور مباح شے کو اپنی ذات پر حرام قراردے دیا مثلاً: کھانا پینا یا لباس کا پہننا جیسے کسی نے کہا:اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو حلال قراردیا ہے وہ حرام ہے۔ یہ فلاں شے کھانا مجھ پر حرام ہے تو وہ شے حرام نہ ہوگی ۔ اسے چاہیے کہ وہ اس شے کو استعمال میں لائے اور اپنی قسم کا کفارہ دے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے فرمایا ہے:

"يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١﴾ قَدْ فَرَضَ اللَّـهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ "

"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضا مندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ اللہ نے آپ کے لیے آپ کی (ناجائز) قسمیں کھولنا فرض کر دیا ہے۔"[14]

اگر کسی نے بیوی کو اپنے آپ پر حرام قراردے دیا تو شرعی اصطلاح میں "یہ ظہار" ہے ۔ اس میں ظہار کا کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ قسم کا کفارہ کافی نہ ہو گا۔[15]

اس مسئلے میں یہ تنبیہ کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کے سوا کسی اور ملت کی قسم نہ اٹھائی جائے مثلاً: اگر کسی مسلمان نے کہا: "اگر اس نے فلاں کام کیا تو وہ یہودی ہو گا یا نصرانی ہوگا۔"یا" فلاں کام نہ کیا تو یہودی یا نصرانی ہو گا ۔"ایسے الفاظ نہایت ناپسندیدہ اور شدید حرام ہیں۔"

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَنْ حَلَفَ عَلَى مِلَّةٍ غَيْرِ الْإِسْلَامِ فَهُوَ كَمَا قَالَ"

"جس نے اسلام کے سواکسی اور ملت پر جان بوجھ کر جھوٹی قسم اٹھائی تووہ ویسا ہی بن جائے گا جیسا اس نے کہا ہے۔[16]

ایک اور روایت  میں ہے:

"مَنْ حَلَفَ فَقَالَ : إِنِّي بَرِيءٌ مِنْ الْإِسْلَامِ فَإِنْ كَانَ كَاذِبًا فَهُوَ كَمَا قَالَ ، وَإِنْ كَانَ صَادِقًا فَلَنْ يَرْجِعَ إِلَى الْإِسْلَامِ سَالِمًا"

"جس نے قسم اٹھائی اور کہا کہ وہ اسلام سے الگ تھلگ ہو گیا تو اگر وہ جھوٹا ہے تو وہ ویسا ہی ہو گیا جیساکہ اس نے کہا اور اگر وہ سچا ہے تو اسلام کی جانب صحیح سالم واپس نہ لوٹےگا۔"[17]

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس قسم کی بری باتوں سے محفوظ فرمائے اور ہمارے اقوال وافعال اور نیتوں کو درست رکھے وہی دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے:

کفارہ قسم کا بیان

اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں  پر فضل و کرم ہے کہ اس نے کفارہ مقرر کرنے قسم کا حل پیش کر دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ "

"تحقیق اللہ نے تمھارے لیے قسموں کو کھول ڈالنا مقرر کیا ہے۔"[18]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ، فَرَأيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَأتِ الَّذِي هُوَ خَيرٌ وَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ"

"جب تم کسی کام کے کرنے پر قسم اٹھاؤ اور تم دیکھو کہ اس کے علاوہ دوسرا کام بہتر ہے تو بہتر کام ہی کر اور قسم کا کفارہ ادا کردو۔"[19]

کفارہ قسم میں اختیار اور ترتیب ہے اختیار یہ ہے کہ چاہے تو دس مساکین کو کھانا کھلادے۔ہر مسکین کو نصف صاع کھانا دے۔اور چاہے تو دس مساکین کو لباس پہنادے۔ ہر مسکین کا لباس پہنا دے ہر مسکین کا لباس اس قدر ہوجو اسے ادائیگی نماز کے لیے کافی ہویا چاہے تو ایسا غلام یالونڈی آزاد کرے جو ہر قسم کے عیب سے پاک ہو۔ اگر اسے ان تین اشیاء میں سے کسی کی طاقت نہ ہوتو تین روزے رکھے۔

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ کفارہ قسم اختیار اور ترتیب کا مجموعہ ہے کھانا کھلانا لباس پہنانا اور لونڈی یا غلام آزاد کرنا ان تینوں کاموں میں سے جو چاہے اختیار کرے۔ البتہ ان کاموں میں اور روزے رکھنے میں ترتیب ہے ینی جو شخص پہلے تین کام نہ کر سکتا ہو تو وہ تین روزے رکھے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

"فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ"

"اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا دینا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہویا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے۔اور جس کو مقدور نہ ہوتو (اس کے لیے ) تین دن کے روزے ہیں۔"[20]

جمہور علماء نے لونڈی یا غلام کو آزاد کرنے کی صورت میں اس کے مومن ہونے کی شرط عائد کی ہے۔ اسی طرح تین روزوں کے بارےمیں  مسلسل روزے رکھنے کی شرط مقرر کی ہے کیونکہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی قراءت یوں ہے:

"فصيام ثلاثة أيام متتابعات"

"پے درپے تین روزے رکھے۔"[21]

کفارہ قسم کے بارے میں اکثر لوگ مغالطے میں مبتلا ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اختیار ہے کہ قسم کے کفارے کی جو صورت بھی ادا کر دیں گے کافی ہو گی لہٰذا وہ کھانا کھلانے یا لباس کی طاقت کے باوجود روزے روزے رکھ لیتے ہیں حالانکہ ایسی صورت میں روزے رکھنے سے کفارہ قسم کفایت نہ کرے گا کیونکہ روزے رکھنے کا حکم تب ہے جب کوئی (قسم توڑنے والا) کھانا اور لباس دینے سے عاجز ہو۔

قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دینا بھی جائز ہے جس طرح بعد میں جائز ہے۔ کفارہ پہلے دیا تو اس کی وجہ سے قسم کی تحلیل ہو جائے گی اور بعد میں دیا تو یہ قسم کا کفارہ ہوگا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ، فَرَأيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَأتِ الَّذِي هُوَ خَيرٌ وَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ"

"جب تم کسی کام کے کرنے پر قسم اٹھاؤ اور تم دیکھو کہ اس کے علاوہ دوسرا کام بہتر ہے تو بہتر کام ہی کر اور قسم کا کفارہ ادا کردو۔"[22]

یہ حدیث قسم توڑنے کے بعد کفارہ دینے کے جواز پر دلیل ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے:

"فكفز عن يمينك ثمّ ائت الذي هُوَ خَيْرٌ"

"اپنی قسم کا کفارہ دے اور وہ کام کر جو بہتر ہے۔"[23]

یہ حدیث قسم توڑنے سے پہلے ہی کفارہ دینے کے جواز کی دلیل مہیا کرتی ہے۔ ان دونوں قسم کی احادیث سے کفارہ کی تقدیم و تاخیر کا جواز ہے۔

اگر ایک مسلمان دوسرے پر قسم ڈال کر کوئی کام کرنے کو کہے تو اسے پورا کرنا مسلمان کا مسلمان پر حق ہے چنانچہ براء بن عازب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے:

"أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ وَنَهَانَا عَنْ سَبْعٍ: أَمَرَنَا بِعِيَادَةِ المَرِيضِ، وَاتِّبَاعِ الجِنَازَةِ، وَتَشْمِيتِ العَاطِسِ، وَإِجَابَةِ الدَّاعِي، وَإِفْشَاءِ السَّلاَمِ، وَنَصْرِ المَظْلُومِ، وَإِبْرَارِ المُقْسِمِ، وَنَهَانَا عَنْ خَوَاتِيمِ الذَّهَبِ، وَعَنِ الشُّرْبِ فِي الفِضَّةِ، أَوْ قَالَ: آنِيَةِ الفِضَّةِ، وَعَنِ المَيَاثِرِ وَالقَسِّيِّ، وَعَنْ لُبْسِ الحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ وَالإِسْتَبْرَقِ "

"رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا۔ مریض کی بیمار پرسی کرنے جنازے میں شریک ہونے چھینک مارنے والے کا جواب دینے کوئی کسی کام کے کرنے پر قسم اٹھائے تو اس سے تعاون کرنا تاکہ اس کی قسم پوری ہو مظلوم کی مدد کرنے سلام کو عام کرنے اور دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول کرنے کا۔۔۔"[24]

اگر کسی نے ایک ہی کام کرنے پر کفارہ ادا کرنے سے پہلے متعدد قسمیں اٹھائی ہوں تو وہ ایک ہی قسم شمار ہوگی اور ان کا کفارہ بھی ایک ہی ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی نے متعدد اشیاء پر ایک ہی قسم اٹھائی مثلاً:اس نے کہا: اللہ کی قسم میں نہ کچھ کھاؤں گا نہ پیوں گا اور نہ لباس پہنوں گا پھر اس نے کوئی ایک کام کر لیا مثلاً: کچھ پی لیا تو اس پر ایک ہی کفار ہوگا اور وہ باقی چیزوں کی قسم سے آزاد ہو جائے گا کیونکہ یہ ایک ہی قسم تھی جو ختم ہو گئی۔

اگر کسی نے متعدد کاموں پر متعدد قسمیں اٹھائیں پھر توڑ دیں تو اس پر ہر قسم کا الگ الگ کفارہ ہو گا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"جس نے کفارہ ادا کرنے سے قبل کئی قسمیں اٹھائیں تو اس کے بارے میں کئی روایات منقول ہیں۔ ان میں سے صحیح بات ہے اگر کسی ایک کام کرنے پر قسم اٹھائی ہو تو ایک ہی کفارہ ادا کرنا ہو گا ورنہ جتنی قسمیں اٹھائے گا کفارے بھی اسی حساب سے ادا کرے گا۔"

اگر کسی نے قسم اٹھائی کہ وہ فلاں کام نہیں کرے گا پھر اس نے بھول کر یا کسی کے مجبور کرنے پر وہ کام کر لیا اسے معلوم نہ ہوا کہ یہ کام بھی اس قسم میں شامل ہے تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی اور اس پر کفارہ واجب نہ ہوگا اور جو کام زبردستی کرایا جائے وہ کرنے والے کی طرف منسوب نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ "

"اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا۔"[25]

علاوہ ازیں اس امت کے افراد کے لیے خطا ونسیان اور جس کام میں کسی کو مجبور کیا گیا ہو سب میں معافی ہے۔اللہ تعالیٰ نے کفارہ قسم کو بیان کر کے فرمایا:

"وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُم"

"اور اپنی قسموں کا خیال رکھو۔"[26]

قسموں کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ قسمیں اٹھانے میں جلد بازی سے کام نہ لویا قسموں کو توڑنے میں جلدی نہ کیا کرویا توڑدیا ہے تو کفارے کے بغیر نہ چھوڑو۔ قرآن مجید کی آیت کا اطلاق ان تمام صورتوں پر ہوتا ہے خلاصہ یہ ہے کہ آیت کریمہ میں حکم ہے کہ قسم کا لحاظ کرو اور اسے بے وقعت اور معمولی  نہ سمجھو۔

اس امر پر تنبیہ کرنا نہایت ضروری ہے کہ بعض لوگ جب قسم اٹھاتے ہیں تو قسم کی مخالفت کے لیے حیلہ سازی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ قسم کی ذمے داری سے بچ گئے ہیں۔

امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  اس مسئلے پر تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"باطل حیلوں میں سے یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے قسم اٹھائی کہ وہ یہ روٹی نہ کھائے گا یا اس سال وہ فلاں گھر میں رہائش نہیں رکھے گا یا وہ فلاں کھانا نہیں کھائے گا پھر وہ وہی روٹی کھاتا ہے مگر ایک لقمہ نہیں کھاتا یا وہ سارا سال مقررہ مکان میں رہائش رکھتا ہے مگر ایک دن کم یا سارا کھانا کھالیتا ہے مگر تھوڑا سا چھوڑ دیتا ہے تو یہ حیلہ باطل ہے۔ اس نے جب یہ کام کر لیا تو اس کی قسم ٹوٹ گئی۔ حیلہ ساز کو چاہیے کہ اس قسم کے کاموں سے خود کو بچائے۔[27]

بعض لوگ قسم اٹھالیتے ہیں کہ وہ فلاں کام نہیں کریں گے پھروہ فلاں کام نہیں کریں گے پھر وہ کسی کو اپنا وکیل بنا لیتے ہیں جو وہی کام کر دے۔یہ بھی حیلہ سازی ہے جو مذموم ہے البتہ اس کی قسم تب ہی قائم رہے گی جب وہ قسم اٹھائے گا کہ وہ یہ کام خود نہیں کرے گا۔

الغرض ہر حال میں  قسم کی بہت اہمیت ہے اس میں تساہل جائز نہیں اور نہ قسم کے حکم سے بچنے کے لیے کوئی حیلہ سازی کرنی چاہیے۔

نذر کے احکام

نذر کے لغوی معنی "لازم کرنے"کے ہیں جبکہ شرعی معنی" کسی عاقل ،بالغ اور مختار شخص کے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے اوپر کسی کام کو لازم کرنے"کے ہیں۔

نذر عبادات کی اقسام میں سے ایک قسم ہے لہٰذا غیر اللہ کے لیے نذر ماننا جائز نہیں۔ جس شخص نے غیر اللہ کے لیے مثلاً: کسی قبر فرشتے نبی ولی کے لیے نذر مانی تو اس نے شرک کی ایسی قسم کا ارتکاب کیا جو دین اسلام سے خارج کرنے والی ہے کیونکہ اس نے غیر اللہ کی عبادت کی ہے جو لوگ اولیاء صالحین کی قبروں کے نام پر کچھ دینے کی نذر مانتے ہیں شرک اکبر کے مرتکب ہوتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ توبہ کریں اور اس کبیرہ گنا سے بچیں اور اپنی قوم کو ڈرائیں تاکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے غضب اور جہنم سے بچ جائیں۔

نذر کا اصل حکم یہ ہے کہ وہ مکروہ ہے بلکہ علمائے کرام کی ایک جماعت نے اسے حرام قراردیا ہے۔ ان کی دلیل سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت ہے کہ:

"نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّذْرِ وَقَالَ إِنَّهُ لَا يَرُدُّ شَيْئًا وَلَكِنَّهُ يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنْ الْبَخِيلِ "

"نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نذر ماننے سے منع کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: نذر تقدیر کو نہیں بدلتی البتہ اس کے ذریعے سے بخیل شخص سے کچھ مال نکلوالیا جاتا ہے۔[28]

مکروہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نذر ماننے والا اپنے آپ پر ایک ایسی شے لازم کر لیتا ہے جو شرع میں اس پر لازم نہ تھی ۔ اس بنا پر وہ خود کو مشکل میں ڈالتا ہے جبکہ ایک مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ نیکی کاکام بغیر نذر مانے ہی کرے۔

نذر مان لینے کی صورت میں اسے پورا کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ ۗ  "

"تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ تم نذر مانو تو بے شک اسے بخوبی جانتا ہے۔[29]

اللہ تعالیٰ نے نذر پوری کرنے والوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

"يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا"

"جو نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے۔"[30]

اور فرمایا:

"وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ "

"اور انھیں چاہیے کہ وہ اپنی نذریں پوری کریں۔"[31]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلَا يَعْصِهِ"

"جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا تو وہ اطاعت کرے اور جس نے نذرمانی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کرے گا تو وہ اس کی نا فرمانی نہ کرے۔"[32]

امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے کام کو اپنے پر لازم کرنے کی صرف چار صورتیں ہیں۔

1۔ کسی کام کا التزام صرف قسم سے کرے۔

2۔کوئی شخص کام التزام نذر ماننے سے کرے۔

3۔ قسم سے لازم کرے۔ نذر سے اسے مؤکد بنائے۔

4۔ نذر سے لازم اور قسم سے اسے مزید پختہ کرے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ"

"ان میں وہ بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہمیں اپنے فضل سے مال دے گا تو ہم ضرور صدقہ و خیرات کریں گے اور پکی طرح نیکو کاروں میں ہو جائیں گے۔[33]

ایسے شخص کو چاہیے کہ اپنا عہد پورا کرے ورنہ وہ اس وعید کا مستحق ہوگا۔

"فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ "

"چنانچہ اس کی سزا میں اللہ نے ان کے دلوں میں اتفاق ڈال دیا۔"[34]

فقہائے کرام نے نذر کے انعقاد کے لیے یہ شرط عائد کی ہے کہ نذر ماننے والا عاقل بالغ اور مختار ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے۔

"رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثلاثة: عن الصَّبِى حَتَّى يَبْلُغَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ"

"تین اشخاص مرفوع القلم ہیں۔سویا ہوا حتی کہ بیدار ہو جائے چھوٹا بچہ حتی کہ بالغ ہو جائے اور مجنون حتی کہ عقل مند ہو جائے۔"[35]

اگر کافر شخص نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی نذر مانی ہو تو درست ہو گی لیکن اس کو پورا کرنا تب لازم ہو گا جب وہ مسلمان ہوگا۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت ہے کہ میں نے عہد جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ بیت اللہ میں ایک رات  کے لیے اعتکاف بیٹھوں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أَوْفِ بِنَذْرِكَ" "اپنی نذر کو پورا کرو۔"[36]

جائز نذر کی پانچ اقسام ہیں۔

1۔نذر مطلق مثلاً: کوئی شخص کسی کام کانام لیے بغیر کہے۔"میں نے اللہ تعالیٰ کے لیے نذر مانی۔"ایسے شخص  پر کفارہ قسم لازم آتا ہے خواہ مشروط ہو یا غیر مشروط چنانچہ عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں۔

"كفَّارة النذر إذا لم يُسمِّ كفارة اليمين"

"جب نذر میں کسی کام  کانام نہ لیا جائے تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔[37]

2۔ نذر غضب مثلاً: کوئی کہے:"اگر میں نے تجھ سے کلام کیا یا مجھے تیرے بارے میں خبر نہ ملی یا اگر فلاں خبر صحیح ثابت ہوئی یا فلاں خبر جھوٹ ثابت ہوئی تو میں حج کروں گا یا غلام لونڈی آزاد کروں گا ۔"اس قسم میں نذر ماننے والے کو اختیار ہےکہ وہ نذر کو پورا کرے یا اس کا کفارہ ادا کرے چنانچہ حضرت عمران بن حصین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرما رہے تھے۔

" لا نذر في غضب ، وكفارته كفارة يمين"

"غصے کی حالت میں مانی ہوئی نذر کا پورا کرنا ضروری نہیں ۔ اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔[38]

3۔نذر مباح مثلاً: کسی نے نذر مانی کہ وہ ایسا کپڑا پہنے گا یا اپنےفلاں جانور پر سوارہوگا ۔اس قسم میں بھی اسے اختیار ہے چاہے تو نذر پوری کرے اور چاہے تو کفارہ ادا کردے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کی رائے ہے کہ نذر مباح ماننے والے پر کفارہ لازم نہیں آتا جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  خطبہ ارشاد فرمارہے تھے تو ایک آدمی کو کھڑا دیکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے کہا:یہ ابو اسرائیل ہے۔ اس نے نذر مانی ہے کہ دھوپ میں کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں اور سائے میں نہیں آئے گا کسی سے بات نہیں کرے گا اور روزہ رکھے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مروه فليتكلم، وليستظل، وليقعد، وليتم صومه"

"اسے حکم دو کہ بات چیت کرے سائے میں آئے بیٹھ جائے اور روزہ پورا کرے۔"[39]

4۔نذر معصیت : ایسی نذر جس میں شریعت اسلامی کے کسی حکم کی مخالفت  ہو مثلاً: شراب پینے کی نذر ایام حیض یا یوم نحر(عید والے دن)میں روزہ رکھنے کی نذر۔ اس قسم کی نذر کو پورا کرنا ہر گز جائز نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے۔

"وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَلا يَعْصِهِ "

"جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے گا تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔"[40]

بعض اہل علم کے نزدیک ایسی نذر کا کفارہ ادا کرنا ہوگا کیونکہ کاارتکاب کسی حال میں جائز نہیں۔ صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی ایک جماعت حضرت ابن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی یہی مروی ہے۔اور اہل علم کی ایک جماعت کی یہ رائے ہے کہ معصیت کی نذر منعقد ہی نہیں ہوتی لہٰذا اس میں کفارہ بھی نہیں۔آئمہ اربعہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے اسی رائے کو پسند کیا ہے اور فرمایا ہے:" جس نے قبر یا قبرستان میں یا پہاڑ پر یا درخت پر چراغ جلایا یا اس کے لیے نذر مانی تو جائز نہ ہو گا اور نہ اسے پورا کیا جائے گا بلکہ وہ رقم کسی نیکی کے کام میں خرچ کی جائے گی۔"

5۔نذر تبرر یعنی جائز کام کرنے کی نذر ماننا جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو۔ مثلاً: نماز، روزے، حج وغیرہ کی نذر ماننا۔ وہ مطلق ہو مثلاً:میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نماز ادا کروں گا یا روزے رکھوں گا۔ یا کسی شرط کے ساتھ ہو مثلاً: کوئی کہے اگر اللہ تعالیٰ نے میرے فلاں مریض کو شفادی تو اتنی رقم اللہ کے راستے میں دوں گا یا اتنی تعداد میں نوافل ادا کروں گا۔ اگر شرط پوری ہو جائے تو نذر کو پورا کرنا لازم ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ"

"جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا تو وہ اس کی اطاعت کرے۔"[41]

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"يُوفُونَ بِالنَّذْرِ" "جو نذریں پوری کرتے ہیں۔"[42]

اور فرمان ہے:

"وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ" "اور وہ اپنی نذریں پوری کریں۔"[43]واللہ اعلم بالصواب۔


[1]۔صحیح البخاری الشہادات باب کیف یستحف؟ حدیث 2879۔وصحیح مسلم الایمان باب النھی عن الحلف بغیر اللہ تعالیٰ حدیث 1646۔

[2]۔جامع الترمذی النذرو الایمان باب ماجاء فی ان حلف بغیر اللہ فقد اشرک حدیث 1535 وسنن ابی داؤد الایمان والنذور باب کراھیہ الحلف بالا مامۃ حدیث 3251۔

[3]۔سنن ابی داؤد الایمان والنذور باب کراھیہ الحلف بالا مامۃ حدیث 3253۔

[4]۔مجموع الزوائد4/177۔حدیث 6699والمصنف لا بن ابی شبہ 3/81حدیث 12279۔

[5]۔الفتاوی الکبری الاختیارات العلمیہ الایمان 5/552۔

[6]۔المائدہ:5/89۔

[7]۔المائدہ:5/89۔

[8]۔سنن ابی داؤد الایمان النذور باب لغو الیمین حدیث 3254 بعد حدیث 3324۔

[9]۔سنن ابن ماجہ الطلاق باب الطلاق المکرہ والناسی حدیث 2045 لیکن ابن ماجہ میں(عفي عَنْ أُمَّتِي) کے بجائے (إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي) کے الفاظ ہیں ارواء الغلیل 1/1234۔حدیث 82۔

[10] ۔دیکھیے سابقہ حوالہ۔

[11]۔جامع الترمذی النذور والایمان باب ماجاء فی الاستثناء الیمین حدیث 1531۔ومسند احمد 2/309واللفظ لہ۔

[12]۔صحیح البخاری الایمان والنذور باب قول اللہ تعالیٰ:(لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ)(المائدہ 5/89۔)حدیث وصحیح مسلم الایمان باب ندب من حلف یمینا فرای غیرھا خیراً منہا۔ حدیث 1649۔

[13]۔صحیح مسلم الایمان باب ندب من حلف یمینا فرای غیرھا خیراً منہا۔ حدیث 1649۔

[14]۔التحریم 66۔21۔

[15]۔ظہار اور اس کے کفارے کی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔

[16]۔صحیح البخاری الجنائز باب ماجاء فی قاتل النفس حدیث 1363۔وصحیح مسلم الایمان باب بیان غلظ تحریم الانسان نفسہ حدیث 110۔

[17]۔سنن ابی داود، الایمان والنذور باب  ماجاء فی  الحلف بالبراءۃ۔ حدیث 3257۔

[18]۔التحریم:2/66۔

[19]۔صحیح البخاری الایمان والنذور باب قول اللہ تعالیٰ:(لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ)(المائدہ 5/89۔)حدیث وصحیح مسلم الایمان باب ندب من حلف یمینا فرای غیرھا خیراً منہا۔ حدیث 1649۔ وسنن ابی داؤد الایمان باب الحنث اذا کان خیراً حدیث 3277واللفظ لہ۔

[20]۔المائدہ: 5/89۔

[21]۔تفسیر الطبری المائدۃ5/89۔حدیث 9753۔9756۔

[22]۔۔صحیح البخاری الایمان والنذور باب قول اللہ تعالیٰ:(لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ)(المائدہ 5/89۔)حدیث وصحیح مسلم الایمان باب ندب من حلف یمینا فرای غیرھا خیراً منہا۔ حدیث 1649۔ وسنن ابی داؤد الایمان باب الحنث اذا کان خیراً حدیث 3277واللفظ لہ۔

[23]۔ وسنن ابی داؤد الایمان باب والنذور الحنث اذا کان خیراً حدیث 3277واللفظ لہ۔

[24]۔صحیح البخاری النکاح باب حق اجابۃالولیمہ والدعوۃ حدیث 5175۔وصحیح مسلم اللباس والزینۃ باب تحریم استعمال اناء الذہب والفضۃ علی الرجال والنساء حدیث 2066۔

[25]۔البقرۃ:2/286۔

[26]۔المائدہ: 5/89۔

[27]۔اعلام الموقعین :3/267۔

[28]۔صحیح البخاری القدر باب القاء العبد النذر الی القدر حدیث6608وصحیح مسلم النذر باب النھی عن النذرو انہ لا یرد شینا حدیث 1639۔ 1640۔

[29]۔البقرۃ:2/270۔

[30]۔الدہر7/76۔

[31]۔الحج 22۔29۔

[32]۔صحیح البخاری الایمان باب النذر فی الطا عۃ حدیث 6696۔وسنن ابی داؤد الایمان والنذور باب النذر فی المعصیۃ حدیث 3289۔واللفظ لہ۔

[33]۔التوبۃ 9/75۔

[34]۔التوبۃ 9/77۔

[35]۔سنن ابن ماجہ الطلاق باب طلاق المعتوہوالصغیر والنائم حدیث :2041۔

[36]۔صحیح البخاری الاعتکاف باب الاعتکاف لیلا حدیث 2032۔

[37]۔صحیح مسلم النذر باب فی کفارہ النذر حدیث: 1645۔وجامع الترمذی النذور باب فی کفارۃ اذا لم یسم حدیث 1528۔واللفظ لہ۔

[38]۔(ضعیف) مسند احمد4/433وارواء الغلیل 8/211۔حدیث 2587۔

[39]۔صحیح البخاری الا یمان باب النذر فیما لایملک وفی معصیۃ حدیث 6704۔

[40]۔۔صحیح البخاری الایمان باب النذر فی الطا عۃ حدیث 6696۔وسنن ابی داؤد الایمان والنذور باب النذر فی المعصیۃ حدیث 3289۔واللفظ لہ۔

[41]۔صحیح البخاری الایمان باب النذرفی الطا عۃ حدیث:66۔96۔

[42]۔الدھر7۔76۔

[43]۔الحج 22۔ 29۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

قسم کھانے اور نذر ماننے کے مسائل:جلد 02: صفحہ480

تبصرے