نکاح کے احکام
نکاح کا موضوع نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ فقہائے کرام نے اپنی تصنیفات میں نکاح کے مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس کے مقاصد اور اثرات کو خوب واضح فرمایا ہے کیونکہ کتاب وسنت اور اجماع میں اس کی مشروعیت نمایاں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
"عورتوں میں سے جو بھی تمھیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو دو،دو، تین تین اور چار چار سے۔[1]
جب اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کا ذکر کیا جن سے نکاح کرنا حرام ہے تو آخر میں فرمایا:
"اور عورتوں کے سوااور عورتیں تمھارے لیے حلال کی گئیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو۔ برے کام سے بچنے کے لیے نہ کہ شہوت رانی کرنے کے لیے۔"[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح پر توجہ اور رغبت دلاتے ہوئے فرمایا:
"اے نوجوانوں کی جماعت !جو شخص تم میں سے قوت پاتا ہو وہ نکاح کرے کیونکہ اس سے نگاہ نیچی اور شرمگاہ محفوظ ہو جاتی ہے۔"[3]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"تم بہت بچے جننے والیوں اور بہت محبت کرنے والیوں سے نکاح کرو۔ بے شک میں تمھاری کثرت ہی کی وجہ سے روز قیامت دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔"[4]
نکاح میں جو عظیم اور اہم مقاصد پنہاں ہیں اب ان کا تذکرہ اختصار سے کیا جاتا ہے۔
1۔ نکاح کے ذریعے سے نسل انسانی کی بقا ہے اور مسلمانوں کی تعداد کو بڑھانا مقصود ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں اور اس کے دین کا دفاع کرنے والوں کو جنم دے کر ان کی تعداد بڑھا کر کفار پر رعب قائم رکھنا ہے۔
2۔نکاح کا ایک مقصد عزت و عصمت کو بچانا اور انسان کو بدکاری سے محفوظ رکھنا ہے۔ جس کے باعث انسانی معاشرے میں بگاڑاور فساد پیدا ہوتا ہے۔
3۔ نکاح کا ایک مقصد یہ ہے کہ مرد خاوند کی حیثیت سے اپنی بیوی کو نان و نفقہ دے اور اس کے دیگر حقوق کا خیال رکھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
"مرد عوتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔"[5]
4۔نکاح کا مقصد خاوند اور بیوی کے درمیان محبت و سکون پیدا کرنا ہے اور دل کی راحت اور نفسانی تسکین ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اور نشانیوں میں سے ہے کہ تمھاری جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ۔"[6]
نیز فرمان الٰہی ہے۔
"وہ اللہ ایسا ہے جس نے تم کو جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس جوڑے سے انس حاصل کرے۔"[7]
5۔نکاح انسانی معاشرے کو ان برے کاموں سے محفوظ رکھتا ہے جو انسان کے اخلاق کو تباہ کرتے اور اسے اعلیٰ مقام و مرتبے سے گرادیتے ہیں۔
6۔ نکاح کے ذریعے سے نسب کی حفاظت رشتے داری کی بنیاد اور اقرباء کو باہم جوڑنا ہے۔ اور یہ ایک شریف خاندان کے قیام کا موجب ہے جس کی بنیاد محبت ،شفقت صلہ رحمی اور ایک دوسرے کی مددوخیر خواہی کرنے پر ہوتی ہے۔
7۔ نکاح سے آدمی حیوانی زندگی سے بلند ہو کر اعلیٰ انسانی زندگی کی سطح پر آجاتا ہے۔
نکاح کے یہ مذکورہ فوائد اور اثرات و نتائج اس نکاح پر مرتب ہوتے ہیں جو کتاب و سنت کے احکام کی روشنی میں منعقد ہوا اور اس کے شرعی تقاضے پورے ہوں۔
نکاح ایک عقد شرعی ہے جس کا تقاضا ہے کہ خاوند اور بیوی ایک دوسرے سے متمتع ہوں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"میں تمھیں عورتوں کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں کہ ان سے اچھا سلوک کرنا وہ تمھارے ماتحت اور احکام کی پابند ہیں۔[8]اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق تم نے ان کی عصمت کو حلال سمجھا ہے۔"[9]
عقد نکاح زوجین کے درمیان ایک پختہ معاہدے کا نام ہے ارشاد الٰہی ہے:
"اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہدو پیمان لے رکھا ہے۔[10]
اس عقد کے جملہ تقاضے پورے کرنا زوجین میں سے ہر ایک پر لازم ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
"اے ایمان والو! عہدو پیمان پورے کرو۔"[11]
جس شخص میں ہمت و استطاعت ہو اور اسے بیویوں کے درمیان ناانصافی کے ارتکاب کا خطرہ نہ ہوتو وہ ایک سے زیادہ یعنی چار عورتوں سے نکاح کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
"عورتوں میں سے جو بھی تمھیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو دو،دو، تین تین اور چار چار سے،لیکن اگر تمھیں برابری (عدل ) نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کے ساتھ نکاح کرو۔[12]
اس آیت میں عدل سے مراد حسب انصاف قائم کرنا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ خاوند اپنی بیویوں کے درمیان نفقہ ،لباس ،رہائش اور شب بسری وغیرہ امور میں مساوات قائم رکھے۔
ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت شریعت اسلامی کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ شریعت ہر زمانے میں اور ہر مقام پر قابل عمل ہے۔ اس میں مردوں ،عورتوں بلکہ پورے معاشرے کے لیے قیمتی فوائد ہیں۔
اس لیے کہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں مردوں کو ایسے خطرناک حالات سے واسطہ پڑتا ہے جن کی وجہ سے ان کی تعداد کم ہوتی رہتی ہے مثلاً: جنگ اور سفر کے خطرات وغیرہ جبکہ عورتوں کو اس قسم کے حالات کا سامنا نہیں ہوتا۔ اسی لیے ان کی تعداد بڑھتی ہے۔ اگر مرد پر صرف ایک عورت بطور بیوی رکھنے کی پابندی عائد کردی جائے تو بہت سی عورتیں دائرہ نکاح میں داخل نہ ہوسکیں گی۔
اسی طرح عورت کو حیض اور نفاس کا عارضہ بھی ہو تا ہے اگر مرد کو دوسری عورت سے نکاح کرنے سے روک دیا جائے تو مرد پر اکثر ایسے اوقات گزریں گے جن میں وہ وظیفہ زوجیت سے متمتع نہ ہو سکے گا۔
یہ بات بھی بہت واضح ہے کہ عورت سے کامل اور نتیجہ خیزاستمتاع ناامیدی کی عمر میں ختم ہو جاتا ہے جو پچاس برس کی عمر ہے بخلاف مرد کے کہ اس میں استمتاع اور تولید کی صلاحیت بڑھاپے کی عمر تک ہوتی ہے۔ اگر اسے صرف ایک عورت سے شادی کرنے کا پابند کر دیا جائے تو وہ خیر کثیر سے محروم ہو جائے گا اور منفعت انجاب و نسل کے حصول میں تعطل واقع ہوگا۔
تعداد ازواج میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسانی معاشرے میں مردوں کی نسبت عورتوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اگر مرد کو ایک عورت سے شادی کا پابند کر دیا جائے تو معاشرے میں بہت سی عورتیں بے سہارا رہیں گی۔ جس کا نتیجہ اخلاقی بگاڑ کی صورت میں ظاہر ہو گا عورتوں کا فطری اور طبعی نقصان ہوگا اور وہ زندگی کی زینت اور لطیف لمحات سے بہرہ ورنہ ہو سکیں گی۔
خلاصہ یہ کہ انسانی معاشرے پر تعداد ازواج کے کثیر اور مفید نتائج مرتب ہوتے ہیں اور شریعت کے ان احکام میں نہایت قیمتی حکمتیں پنہاں ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ستیاناس کرے جو اس راہ میں بند باندھنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور انسانی معاشرے کی فطری مصلحتوں اور منفعتوں میں تعطل پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
شرعی کے اعتبار سے نکاح کی چار قسمیں ہیں یعنی نکاح کبھی واجب کبھی مستحب کبھی حرام اور کبھی مکروہ ہوتا ہے۔ نکاح واجب تب ہے جب کسی کو ترک نکاح کی صورت میں بد کاری میں ملوث ہو جانے کا خطرہ ہو کیونکہ نکاح
کا مقصد خود کو حرام کے ارتکاب سے بچانا ہے۔
اسی حالت کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اگر کسی انسان کو نکاح کی ایسی احتیاج ہو کہ اس کے ترک سے بدکاری میں ملوث ہو جانے کا خطرہ ہو تو وہ نکاح فرض حج سے مقدم ہے۔"[13]
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ"ایسے شخص کے لیے نکاح کرنا نفلی روزے سے بہتر ہے۔" اہل علم کی رائے یہ ہے کہ ایسی حالت میں نکاح کرنا فرض ہے وہ اخراجات کی ادائیگی پر قادر ہو یا نہ ہو۔
شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر فقہاء کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح کرنے کے لیے مال دار ہونا ضروری نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نکاح کے سبب غنی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔"چنانچہ ارشاد الٰہی ہے۔
"اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے امیر بنادے گا۔"[14]
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ اس حال میں صبح ہوتی کہ کھانے کے لیے کچھ نہ ہوتا اور کبھی اس حال میں شام ہوتی کہ پاس کچھ نہ ہوتا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کی شادی کی جس کے پاس لوہے کی انگوٹھی نہ تھی۔
قوت و شہوت موجود ہو اور ارتکاب زنا کا خطرہ نہ ہو تو نکاح کرنا مستحب ہے کیونکہ نکاح مردوں اور عورتوں کے لیے بہت سی مصلحتوں اور فوائد پر مشتمل ہے۔
جب جماع کی خواہش نہ ہو مثلاً: کسی شخص کا عمر رسیدہ ہونا یا اس کی قوت باہ کا کمزور ہونا تو اس کے لیے نکاح کرنا مباح ہے۔ البتہ کبھی ایسی حالت میں نکاح کرنا مکروہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے عورت کے لیے نکاح کا مقصد یعنی تحفظ عصمت فوت ہو جاتا ہے اور اس کے فطری جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
مسلمان شخص کے لیے اس وقت نکاح کرنا حرام ہے جب وہ کفار کے ایسے ملک میں رہتا ہو جو" دارلحراب " ہو کیونکہ اس صورت میں اولاد کو اخلاقی خطرات درپیش ہوتے ہیں اور کافروں کے تسلط کا خطرہ ہوتا ہے نیز اس ماحول میں بیوی کے غیر مامون ہونے کا اندیشہ ہے۔
ایسی عورت سے نکاح کرنا مسنون ہے جو دین والی ،باعفت اور نیک خاندان کی ہو کیونکہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"عورت سے چار چیزوں کے پیش نظر نکاح کیا جاتا ہے۔(1)اس کے مال (2)خاندان (3)جمال(4)اور دین کی وجہ سے لیکن تم اس کے دین کو دیکھ کر نکاح کرو۔ تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔"[15]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے لیے عورت کے انتخاب میں دین کے علاوہ کسی اور چیز کو معیار بنانے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے۔
"عورتوں سے حسن کی بناپر شادی نہ کرو۔ہوسکتا ہے ان کا حسن انھیں تباہ کر دے۔ اور نہ ان کے مال کو دیکھ کر شادی کرو کیونکہ ممکن ہے مال انھیں سرکش بنادے تم ان کے دین کی وجہ سے شادی کرو۔"[16]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوان اور کنواری عورت سے شادی کرنے کی طرف رغبت دلائی ہے چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
"تم نے کنواری سے شادی کیوں نہ کی کہ تم اس سے اور وہ تم سے کھیل وشغل کرتی۔"[17]
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے کوئی خاوند دیکھا نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کی محبت کامل درجے کی ہوتی ہے وگرنہ ممکن ہے اس کا دل پہلے خاوند کے ساتھ معلق رہے اور دوسرے شوہر کی طرف اس کا پوری طرح میلان نہ ہو۔
مسنون یہ ہے کہ ایسی عورت سے شادی کی جائے جس سے زیادہ بچے پیدا ہونے کی امید ہو کیونکہ سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم ان عورتوں سے شادی کرو جو بہت محبت کرنے والیاں اور بچے جننے والیاں ہوں کیونکہ روز قیامت تمھاری کثرت ہی کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔"[18]
اس مفہوم کی اور بھی روایات ہیں۔
نکاح کا حکم انسان کی جسمانی اور مالی حالت اور ذمے داری نبھانے کی استعداد کے مختلف ہونے کی بنا پر مختلف ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے نوجوانوں کو جلدی شادی کرنے کی ترغیب دی کیونکہ دوسروں کی نسبت انھیں نکاح کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اے نوجوانوں کی جماعت !جو تم میں سے قوت رکھے وہ شادی کرے کیونکہ اس سے نگاہ نیچی اور شرمگاہ محفوظ ہو جاتی ہے۔اور جو شخص طاقت نہ رکھے وہ روزے رکھے اس کی وجہ سے اس کے جذبات کی شدت ختم ہو جائے گی۔"[19]
شادی کی طاقت نہ ہونے کی صورت میں آپ نے جذبات کا جوش کم کرنے کے لیے روزہ رکھنے کی ہدایت فرمائی کیونکہ روزہ سے جہاں صنفی (جنسی) خواہشات پر کنٹرول ہوتا ہے وہاں خشیت الٰہی اور تقوے کی صفات سے بھی انسان مالامال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
"اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر صوم(روزہ) فرض کیا گیا تھا تاکہ تقوی اختیار کرو۔[20]
نیز فرمان باری تعالیٰ ہے:
"لیکن تمھارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم با علم ہو۔"[21]
خلاصہ کلام یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو چیزوں کے بارے میں حکم دیا ہے اور انسان کو شہوت کے خطرات سے بچنے کی تعلیم دی ہے لہٰذا انسان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ آپ کو خطرات کے بھنور میں ڈالے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
"اور ان لوگوں کو پاک دامن رہنا چاہیئے جو اپنا نکاح کرنے کا مقدور نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے مالدار بنا دے، تمہارے غلاموں میں جو کوئی کچھ تمہیں دے کر آزادی کی تحریر کرانی چاہے تو تم ایسی تحریر انہیں کردیا کرو اگر تم کو ان میں کوئی بھلائی نظر آتی ہو۔ اور اللہ نے جو مال تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے انہیں بھی دو، تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو اور جو انہیں مجبور کردے تو اللہ تعالیٰ ان پر جبر کے بعد بخشش دینے والا اور مہربانی کرنے والا ہے "[22]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"جب کوئی کسی کو نکاح کرنے کا پیغام دے تو اگر وہ اس (خوبی) کو دیکھ سکتا ہو جس کی بنا پر وہ اس عورت کی طرف راغب ہوتا ہو تو وہ کام کر لے۔[23]
ایک اور حدیث میں ہے:
"تم اسے (اپنی متوقع بیوی کو) دیکھ لو۔ یہ زیادہ لائق ہے کہ اس وجہ سے تمھارے درمیان زیادہ محبت پیدا ہو جائے۔[24]
ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ مرد اپنی مخطوبہ کو دیکھ سکتا ہے البتہ اس کا طریقہ یہ ہو کہ عورت کو علم ہو نہ اس سے خلوت میں ملاقات ہو۔
فقہائے اسلام فرماتے ہیں۔جو آدمی کسی عورت سے منگنی کا ارادہ رکھے اور غالب گمان یہ ہو کہ عورت اس کے پیغام کو قبول کرے گی تو اس کے لیے اس عورت کے عادۃ کھلے رہنے والے اعضاء کا دیکھنا جائز ہے بشرطیکہ اس سے خلوت نہ ہواور فتنے کا ڈر نہ ہو۔"
سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے۔"(ہدایات نبوی کے مطابق) میں اسے دیکھنے کے لیے چھپ کے بیٹھا کرتا تھا یہاں تک کہ میں نے اپنی مخطوبہ کے وہ اوصاف دیکھ لیے جن کی بنا پر مجھے اس سے نکاح کی رغبت پیدا ہو گئی تو میں نے اس سے شادی کر لی۔"[25]
اس روایت سے یہ ثابت ہوا کہ مخطوبہ عورت سے خلوت میں ملاقات کرنا جائز نہیں نیز وہ اس طرح دیکھے کہ عورت کو خبر تک نہ ہو۔ علاوہ ازیں عورت کا وہ جسمانی حصہ دیکھے جو عموماً ظاہر باہر ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ اجازت تب ہے جب غالب گمان ہو کہ وہ عورت اس کی دعوت کو قبول کرے گی۔ اگر عورت کو دیکھنا ممکن اور آسان نہ ہو تو یہ کام کسی باعتماد عورت سے لیا جاسکتا ہے جو اس کے سامنے صحیح صورت حال واضح کر دے چنانچہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ایک عورت دیکھنے کے لیے بھیجا ۔
اگر کوئی شخص نکاح کرنے سے قبل کسی مرد یا عورت کے بارے میں کسی شخص سے تحقیق کرے یا کوئی رائے یا مشورہ لے تو اس شخص پر لازم ہے کہ وہ اس کی خوبی یا خامی بتا دے اور یہ غیبت شمار نہ ہوگی۔
جو عورت عدت گزار رہی ہو اسے واضح الفاظ میں دعوت نکاح دینا حرام ہے مثلا:کوئی کہے۔"میں تجھ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔"اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
"تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اشارتاً ان عورتوں سے نکاح کی بابت کہو۔"[26]
اس آیت میں عدت گزارنے والی عورت کے ساتھ تعریض (اشارے کنائے) کی اجازت دی ہے۔ مثلاً: کوئی کہے:"میں تجھ جیسی عورت سے نکاح کی رغبت رکھتا ہوں۔"یا اسے کہے:"جب تم اپنی مستقبل کی زندگی کا فیصلہ کرو تو ہمیں یاد رکھنا۔" صراحتاً دعوت نکاح دینے میں یہ خطرہ ہے کہ عورت عدت پوری ہونے سے قبل ہی نکاح کے لالچ میں تکمیل کا اعلان کر کے نکاح کر لے گی۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا یہی نقطہ نظر ہے۔
شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"عدت گزارنے والی عورت کو دوران عدت میں طلاق دینے والا صراحتاً یا اشارتاً پیغام نکاح دے سکتا ہےبشرطیکہ طلاق اس قسم کی ہو جس کے بعد عدت کے اندر بھی دوبارہ نکاح جائز ہو۔"[27]
کسی مسلمان بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح دینا حرام ہے الایہ کہ پہلا شخص خود اجازت دے دے یا اس کا ارادہ نکاح نہ رہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
"کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نہ دے(بلکہ انتظار کرے حتی کہ وہ نکاح کر لے یا (ارادہ نکاح )چھوڑدے۔"[28]
درج بالا ممانعت میں حکمت یہ ہے کہ دوسرے شخص کے پیغام بھیجنے سے پہلے شخص کے معاملے میں بگاڑ لازم آسکتا ہے جو دونوں میں باہمی عداوت کا موجب ہے نیز اس کی حق تلفی ہوتی ہے البتہ اگر پہلا شخص خود ہی ارادہ نکاح ختم کر دے یا وہ دوسرے شخص کو اجازت دے دے تو اس عوت کو پیغام نکاح دینا دوسرے شخص کے لیے جائز ہو گا۔ اس میں جہاں مسلمان کا حترام ملحوظ ہے وہاں ظلم و زیادتی سے احتراز بھی ہے۔ فرمان نبوی کا مقصد بھی یہی ہے۔
بعض لوگ اس حکم نبوی پر عمل کرنے میں لاپروائی برتتے ہیں اور یہ جاننے کے باوجود کہ فلاں نے فلاں عورت کو پیغام نکاح دیا ہے اپنی جانب سے نکاح کا پیغام بھیج کر مسلمان بھائی پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے دوسرے کاکام خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو سراسر حرام ہے۔ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں گناہ گار ہےبلکہ وہ دنیا میں بھی سخت سزا کا مستحق ہے۔
ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ایسے حالات میں خبردار رہے ۔اپنے مسلمان بھائیوں کے حقوق کا حترام کرے۔
کیونکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر بہت بڑا حق ہے لہٰذا وہ اپنے مسلمان بھائی کے پیغام پر پیغام نہ بھیجے اور نہ اس کی بیع پر بیع کرے اور اسے کسی قسم کی اذیت نہ پہنچائے۔
مستحب یہ ہے کہ عقد نکاح سے پہلے خطبہ مسنونہ پڑھا جائے جو" خطبہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ " کے نام سے مشہور ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
اس کے بعد قرآن مجید کی ان آیات کی تلاوت کی جائے جو یہ ہیں:
عقد نکاح کے تین ارکان ہیں۔
1۔خاوند بیوی بننے والے دونوں ایسے افراد ہوں کہ ان کے باہمی نکاح میں کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو۔ مثلاً: عورت نسب، رضاعت یا عدت کے اعتبار سے ایسی نہ ہو جس سے نکاح کرنا اس مرد کے لیے حرام ہو یا مرد کافر اور عورت مسلمان ہو یا اور کوئی شرعی مانع ہو جن کا ذکر آگے چل کر ہم تفصیل سے کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
2۔عقد نکاح کا دوسرا رکن"ایجاب " ہے یعنی عورت کا ولی یا جو اس کے قائم مقام ہے وہ عورت کے بننے والے شوہر سے کہے۔"میں نے فلاں نامی عورت کا نکاح تجھ سے کیا۔" یا" اسے تیری بیوی بنا دیا۔"
3۔ تیسرا رکن قبول کرنا ہے یعنی شوہر یا جو اس کا وکیل ہے وہ کہے :"میں نے یہ نکاح قبول کیا۔" یا" اسےبیوی بنالیا۔"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد رشید ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہ ہے کہ "نکاح کا انعقاد ہر اس لفظ کے ساتھ ہو سکتا ہےجو نکاح پر دلالت کرے۔[30]البتہ وہ لوگ جو نکاح کے انعقاد کو نکاح یا تزویج کے ساتھ خاص کرتے ہیں وہ یہ کہتے کہ یہ دونوں وہ الفاظ ہیں جو قرآن مجید میں وارد ہوئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
"پھر جب زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کر لی تو ہم نے اس کی تزویج تیرے ساتھ کر دی۔[31]
ایک اور مقام پر فرمان الٰہی ہے:
"اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمھارے باپوں نے نکاح کیا ہے۔[32]
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ نکاح کا انعقاد انھی الفاظ میں منحصر ہے الغرض ان دوالفاظ کے علاوہ اور الفاظ سے بھی انعقاد نکاح ہو جاتا ہے۔
گونگے شخص کا قبول نکاح تحریر یا کسی قابل فہم اشارے سے ہو گا۔
ایجاب و قبول حاصل ہو جانے سے نکاح منعقد ہو جائے گا اگرچہ اس نے کلمہ قبول و ایجاب ازراہ مذاق کہا ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
"تین چیز یں پکی کرنے سے بھی ہیں اور ازراہ مذاق بھی پکی ہیں یعنی نکاح ،طلاق اور رجوع کرنا۔"[33]
نکاح کی درستی کے لیے چار شرائط ہیں۔
(1)عقد نکاح کے وقت خاوند اور بیوی کا تعین ہوا ور یہ کہنا کافی نہیں کہ "میں نے اپنی بیٹی تیرے نکاح میں دے دی۔" جبکہ اس کی متعدد بیٹیاں غیر شادی شدہ ہوں یا وہ کہے۔" میں نے اس کی شادی تیرے بیٹے سے کر دی ۔ "جبکہ اس کے متعدد بیٹے ہوں۔
الغرض جس کا نکاح کیا جارہا ہو اس کی تعیین ضروری ہے جو اشارہ کر کے ہو یا اس کا نام لیا جائے یا اس کے امتیازی اوصاف ذکر کیے جائیں۔
2۔زوجین میں سے ہر ایک باہمی نکاح پر رضا مند ہو اس میں کسی ایک کو مجبور کرنا درست نہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"شوہر دیدہ کا نکاح اس کی رائے معلوم کیے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری سے اجازت لیے بغیر نکاح نہ کیا جائے۔"[34]
البتہ اگر کوئی عمر کے اعتبار سے چھوٹا (نابالغ بچہ) ہو یا کم عقل تو اس کا سر پرست اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر بھی کر سکتا ہے۔
3۔عورت کا نکاح اس کا سر پرست کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
"سر پرست (ولی) کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہوتا۔"[35]
اگر کسی عورت نے سر پرست کے بغیر نکاح کر لیا تو اس کا نکاح باطل ہے کیونکہ یہ زنا کا ذریعہ ہے نیز (مسلمان )عورت ولی کی نسبت بہتر خاوند کی تلاش سے قاصر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کے اولیاء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
"تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کردو۔"[36]
اور فرمان الٰہی ہے:
"چنانچہ انھیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔"[37]
عورت کے سر پرستوں کی ترتیب یوں ہے باپ ،باپ کا متعین کیا ہوا شخص ،دادا ،پر دادا اوپر تک ،بیٹا ، پوتا سگا بھائی ، علاتی یا ان کی اولاد ، سگا چچا اور ان کے بیٹے ، علاتی چچا اور ان کے بیٹے ،عصبہ نسبی میں سے میراث کی ترتیب سے کوئی قریبی قرابت دار پھر معتق اور حاکم و قاضی ۔
4۔ عقد نکاح پر گواہ موجود ہوں۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ولی اوردو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہو تا۔"[38]
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہی تھا۔ اسی طرح ان کے بعد کے تابعین عظام کا نقطہ نظر بھی یہی تھا کہ گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا اس کے بارے میں سلف صالحین کے مابین کوئی اختلاف نہ تھا البتہ بعض متاخرین اہل علم نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے۔[39]
"کفو" کے معنی ہیں"برابر اور ایک جیسا ہونا"اور یہاں خاوند بیوی کے درمیان برابری مراد ہے۔خاوند اور بیوی کاپانچ اوصاف میں ہم پلہ ہونا ضروری ہے جو درج ذیل ہیں:
1۔دین:فاجروفاسق مرد پاک دامن،صالح عورت کا کفو نہیں ہوسکتا کیونکہ ایسے شخص کی گواہی اور روایت مردود ہوتی ہے جوشرف انسانیت میں ایک نقص ہے۔
2۔نسب:عجمی اور عربی میں مساوات نہیں،لہذا عجمی شخص عربی عورت کاکفونہیں۔[40]
3۔صنعت:معمولی اور کم درجے کا پیشہ اختیار کرنے والا،مثلاً:سینگی لگانے والا اور جولاہا اس عورت کے برابر نہیں ہوسکتا جو کسی عزت والے پیشے،یعنی تاجر کی بیٹی ہے۔[41]
5۔مال میں فراخی:نکاح میں مہر اور نان ونفقہ کی ادائیگی شوہر کے ذمے ہوتی ہے،لہذا تنگدست اور فقیر شوہر مالدار عورت کے برابر نہیں کیونکہ خاوند کی تنگ دستی اور اس کی طرف سے اخراجات کی عدم ادائیگی عورت کے لیے تکلیف اور نقصان کا باعث ہے۔
(1)۔اگر خاوند اور بیوی میں درج بالا پانچ چیزوں میں اختلاف ہوتوان میں برابری اور مساوات نہ رہی۔
واضح رہے اگر ان پانچ امور میں سے کوئی ایک امر زوجین میں پایا جائے تو صحت کانکاح پر اثر انداز نہیں ہوتا کیونکہ زوجین میں برابری صحت نکاح کے لیے شرط نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مشورہ دیا تھا:
"تم اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شادی کرلو۔انھوں نے(اولاً یہ مشورہ) پسند نہ کیا۔"
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا:
"اسامہ سے شادی کرلوتو انھوں نے ان سے شادی کرلی۔"[42]
واضح رہے کہ سیدنا اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک آزاد کردہ غلام،یعنی سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے تھے جبکہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا قریش کے خاندان میں سے تھیں۔لیکن مذکورہ پانچ چیزوں میں برابری زوجین کے تعلقات میں پختگی پیدا کرنے کے لیے ہے۔(زندگی آسان گزرتی ہے ،محبت میں کمی نہیں آتی) اگر کسی عورت کی شادی کردی جائے اور اس کا شوہر اس کے مساوی اور برابر کا نہ ہوتو اس عورت یا اس کے ولی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے۔حدیث میں ہے ایک شخص نے اپنی بیٹی کا نکاح اپنے بھتیجے سے کردیا تاکہ لوگوں کی نظروں میں بھتیجے کا مقام بلند ہوجائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو نکاح قائم رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار دےدیا۔بعض علماء کی رائے ہے کہ زوجین میں کفو(برابری) صحت نکاح کے لیے شرط ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک روایت ایسی ہی ہے۔
شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی کو معلوم ہو کہ زوجین میں برابری نہیں تو دونوں کانکاح فسخ قرار دے کر انھیں علیحدہ کردیا جائے ،علاوہ ازیں ولی کے لائق نہیں کہ وہ عورت کا نکاح غیر کفو سے کرے،نہ مرد ایسا کرے نہ عورت،کفو(برابری) مالی معاملات،یعنی حق مہر وغیرہ کی طرح نہیں کہ اگر عورت اور اس کے ولی چاہیں تو اس کا مطالبہ کریں چاہیں تو چھوڑ بھی سکتے ہیں لیکن مناسب ہے کہ کفو کااعتبار کیا جائے۔"[43]
نکاح میں محرمات(جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے) کی دو قسمیں ہیں:
(1)۔وہ عورتیں جن سے نکاح کرنا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔وہ چودہ ہیں:سات نسب کی بنیاد پر حرام ہیں اور سات سبب(رضاعت اور رشتے داری) کی وجہ سے حرام ہیں ان سب کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں موجود ہے:
"اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے مگر جو گزر چکا ہے، یہ بے حیائی کا کام اور بغض کا سبب ہے اور بڑی بری راه ہے (22) حرام کی گئیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری لڑکیاں اور تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھائی کی لڑکیاں اور بہن کی لڑکیاں اور تمہاری وه مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وه پرورش کرده لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کر چکے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناه نہیں اور تمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا، یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے"[44]
درج بالا آیات کی روشنی میں جو عورتیں نسب کی وجہ سے حرام ہیں ان کی وضاحت یوں ہے:
ماں،دادی اور نانی جیسا کہ اللہ کے فرمان:﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ﴾ سے معلوم ہوتا ہے۔
بیٹی ،پوتی،نواسی پوتی کی بیٹی وغیرہ ،اللہ کے فرمان:( وَبَنَاتُكُمْ) میں ہے۔
سگی بہن،علاتی بہن اور اخیافی بہن،اللہ تعالیٰ کے ارشاد:( وَأَخَوَاتُكُمْ) سے واضح ہوتا ہے۔
پھوپھی اور خالہ۔یہ دونوں عورتیں اللہ تعالیٰ کے فرمان:( وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ) میں مذکور ہیں۔
بھتیجی ،بھتیجی کی بیٹی اوربھتیجے کی بیٹی۔یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان:(وَبَنَاتُ الْأَخِ) میں ہے۔
بھانجی ،بھانجے کی بیٹی ،بھانجی کی بیٹی۔یہ اللہ کے فرمان:( وَبَنَاتُ الْأُخْتِ) سے مستفاد ہے۔
(2)۔وہ عورتیں جو سبب کیوجہ سے حرام ہیں،ان کی تفصیل یہ ہے:
(3)۔ملاعنہ(لعان کرنے والی عورت) ،ملاعن(لعان کرنے والے) شخص پر حرام ہے،یعنی اگر مردنے اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگا دیا اور عورت نے اس کا انکار کیا تو دونوں کے درمیان لعان(ایک دوسرے پر لعنت کرنا) ہوگا۔لعان کے بعد دونوں ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں۔نکاح فسخ ہوجاتا ہے۔حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:"لعان کرنے والوں میں ہمیشہ سے یہ طریقہ رائج رہا ہے کہ ان میں جدائی ڈال دی جائےگی،پھر وہ کبھی اکھٹے نہ ہو سکیں گے۔"[45]
ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اس مسئلے میں کسی کا اختلاف ہمارے علم میں نہیں آیا۔"[46]
(4)۔رضاعت کے سبب وہ تمام عورتیں حرام ہیں جو نسب کے سبب حرام ہوتی ہیں،مثلاً:رضاعی مائیں،رضاعی بہنیں۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
"اور تمہاری وه مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں(تم پر حرام کی گئی ہیں۔)"[47]
"رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔"[48]
(4)۔باپ دادا کی منکوحہ سے نکاح کرناحرام ہے۔اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
"اوران عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیاہے۔"[49]
(5)۔بیٹے،پوتے اور پرپوتے کی بیوی سے نکاح کرناحرام ہے۔فرمان الٰہی ہے:
"اور تمہارے صلبی(سگے) بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنابھی تم پر حرام ہے۔"[50]
(6)۔منکوحہ عورت(بیوی) سے نکاح ہوتے ہی اس کی ماں،دادی ،نانی سے نکاح حرام ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور تمہاری بیویوں کی مائیں(بھی تم پر حرام ہیں۔)"[51]
(7)۔بیوی کی بیٹی،پوتی اور نواسی سے نکاح کرنا حرام ہے بشرط یہ کہ اس سے دخول ہوچکا ہو۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور تمہاری وه پرورش کرده لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کر چکے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناه نہیں"[52]
وہ عورتیں جو وقتی طور پرحرام ہیں۔ان کی دوانواع ہیں:اولاً:وہ عورتیں جو ایک شخص کے نکاح میں جمع ہونے کی وجہ سے حرام ہیں۔ان کی دو صورتیں ہیں:
1۔کسی شخص کادو بہنوں کو بیک وقت اپنی بیویاں بنا کر رکھنا حرام ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اورتمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا(بھی تم پرحرام ہے۔)"[53]
اور اسی طرح بیک وقت بیوی اور اس کی بھانجی سے یا بیوی اور اس کی بھتیجی سے شادی کرنا حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"تم عورت(تمہاری بیوی) اور اس کی پھوپھی یا عورت اور اس کی خالہ کو بیک وقت نکاح میں نہ رکھو۔"[54]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس فرمان کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
"اگرتم ایسا کروگے تو قطع رحمی کے مرتکب ہوجاؤگے۔"[55]
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ سوکنوں کے درمیان غیرت اور حسد ہوتا ہے توجب ان میں پہلے ہی سے قرابت ہوگی تو سوکن ہونے کے بعد نتیجہ قطع رحمی کی صورت میں برآبد ہوگا۔البتہ اگر ایک کو طلاق دے دی جائے اور اس کی عدت گزر جائے یا ایک فوت ہوجائے تو اس کی بہن یاپھوپھی یا خالہ سے نکاح کرنا درست ہے کیونکہ اب ممانعت کا سبب باقی نہیں رہا۔
(8)۔ایک وقت میں چار سےزیادہ بیویاں رکھناحرام ہے۔ارشادالٰہی ہے:
"اور عورتوں میں سے جو بھی تمھیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو،دو دو،تین تین،چار چار سے۔"[56]
ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص مسلمان ہوا جس کی چار سے زیادہ بیویاں تھیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ ان میں سے چار بیویاں رکھ لو اور باقی کو چھوڑدو۔
ثانیاً:ایسی عورتیں جن سے کسی عارضی سبب کی بنا پر نکاح کرناحرام ہے جو ایک مدت کے بعد ختم ہوجائےگا،اس کی متعدد صورتیں ہیں۔
(9)۔جو عورت عدت گزار رہی ہے اس سے دوران عدت میں نکاح کرنا حرام ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اور عقد نکاح کا پختہ ارادہ مت کرو یہاں تک کہ عدت ختم ہوجائے۔"[57]
اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر دوران عدت میں اس سے کوئی نکاح کرلے تواندیشہ ہے کہ وہ حاملہ ہوجائے اور یہ خبر نہ ہوکہ حمل پہلے شوہر کا ہے یا دوسرے کا۔اس سے نسب میں اشتباہ کا اندیشہ ہے۔
(10)۔اگر کسی عورت کے بارے میں علم ہوا کہ وہ زانیہ ہے تو اس سے نکاح کرنا حرام ہے الا یہ کہ وہ توبہ کرے اور عدت گزارے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور زنا کار عورت سے بھی سوائے زانی یا مشرک مردکے اورکوئی نکاح نہیں کرتا اورایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا۔"[58]
(11)۔جس آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں اس پر حرام ہے کہ اس عورت سے دوبارہ نکاح کرے الا یہ کہ کوئی دوسرا آدمی اسے شرعی نکاح میں لے اور اس سے وطی کرے اور پھر اسے طلاق دے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں، پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہیں حلال نہیں کہ تم نے انہیں جو دے دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو، اس لئے اگر تمہیں ڈر ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس میں دونوں پر گناه نہیں یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کرجائیں وہ ظالم ہیں (229) پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک وه عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے، پھر اگر وه بھی طلاق دے دے تو ان دونوں کو میل جول کرلینے میں کوئی گناه نہیں بشرطیکہ یہ جان لیں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں جنہیں وه جاننے والوں کے لئے بیان فرما رہا ہے۔"[59]
(12)۔احرام باندھنے والے مرد اور عورت دونوں کے لیے حالت احرام میں نکاح کرنا حرام ہے حتیٰ کہ وہ اپنا احرام کھول دیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"محرم نہ نکاح کرے اور نہ کروائے اور نہ پیغام نکاح دے۔"[60]
(12)۔کوئی غیرمسلم کسی مسلمان عورت سے نکاح نہیں کرسکتا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی(مسلمان) عورتوں کو دو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں۔"[61]
(13)۔مسلمان کسی کافر عورت سے نکاح نہ کرے۔ارشاد الٰہی ہے:
"اور تم مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔"[62]
نیز فرمایا:
"اور کافر عورتوں کی ناموس اپنے قبضے میں نہ رکھو۔"[63]
البتہ آزاد کتابیہ عورت سے نکاح ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیے گئے ہیں ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں۔"[64]
یہ آیت پہلی دو آیتوں کے لیے مخصص ہے جس میں مسلمانوں پرکافر عورتوں سے نکاح حرام قراردیا گیاہے (کیونکہ اس میں اہل کتاب کی عورتوں کو مستثنیٰ قراردیاگیا ہے۔) اور اہل علم کا اس پر اجماع ہے۔
(14)۔آزاد مسلمان شخص پر حرام ہے کہ وہ مسلمان لونڈی سے نکاح کرے کیونکہ اس میں اولاد کو غلامی کی طرف لے جانا لازم آتا ہے الا یہ کہ جب اسے زنا میں پڑنے کا خطرہ ہواور آزاد عورت کاحق مہر ادا نہ کرسکتا ہو یا لونڈی کو آزاد کرنے کی قیمت کامالک نہ ہو۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اور تم میں سے جس کسی کو آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی پوری وسعت وطاقت نہ ہو تو وه مسلمان لونڈیوں سے جن کے تم مالک ہو (اپنا نکاح کر لے) اللہ تمہارے اعمال کو بخوبی جاننے والا ہے، تم سب آپس میں ایک ہی تو ہو، اس لئے ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کر لو، اور قاعده کے مطالق ان کے مہر ان کو دو، وه پاک دامن ہوں نہ کہ علانیہ بدکاری کرنے والیاں، نہ خفیہ آشنائی کرنے والیاں، پس جب یہ لونڈیاں نکاح میں آجائیں پھر اگر وه بے حیائی کا کام کریں تو انہیں آدھی سزا ہے اس سزا سے جو آزاد عورتوں کی ہے۔ کنیزوں سے نکاح کا یہ حکم تم میں سے ان لوگوں کے لئے ہے جنہیں گناه اور تکلیف کا اندیشہ ہو اور تمہارا ضبط کرنا بہت بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور بڑی رحمت والا ہے "[65]
(15)۔غلام پر حرام ہے کہ وہ اپنی مالکہ کے ساتھ نکاح کرے۔اس پر اہل علم کااجماع ہے کیونکہ یہ درست نہیں کہ بیوی اس کی مالک ہو حالانکہ وہ اس کا خاوند ہے کیونکہ ہر ایک کےالگ الگ احکام ہیں۔
(16)۔مالک پر حرام ہے کہ وہ اپنی مملوکہ کو بیوی بنائے کیونکہ عقد ملک ،عقد نکاح سے قوی تر ہے۔عقد قوی عقد ضعیف کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا۔
(17)۔جس عورت سے نکاح کے ذریعے سے جماع حرام ہے،اس سے لونڈی ہونے کی صورت میں بھی جماع حرام ہے ،مثلاً:جو عورت عدت گزاررہی ہو یاحالت احرام میں ہو یا بدکار عورت ہو یا جسے تین طلاقیں دی جاچکی ہوں کیونکہ نکاح تو اس لیے حرام ہے کہ وہ وطی کا ذریعہ بنتاہے تو وطی کرنا بالاولیٰ حرام ہوگا،خواہ وہ لونڈی ہی ہو۔
شرائط نکاح سے مراد وہ شرائط ہیں جو نکاح کے وقت زوجین میں سے کوئی ایک اپنی مصلحت کی خاطر دوسرے پر عائد کرتا ہے یا ان شرائط پرقبل از نکاح دونوں فریق اتفاق کرلیتے ہیں۔یہ شرائط دو قسم کی ہیں بعض صحیح اور بعض فاسد۔
صحیح شرائط درج ذیل ہیں:
1۔نئی بیوی اپنے مفاد کی خاطر اپنی سوکن کو طلاق دینے کی شرط عائد کرے۔اکثر علماء کے نزدیک یہ شرط صحیح ہے جبکہ بعض علماء اس کےفاسد ہونے کے قائل ہیں۔یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ حدیث شریف میں ہے:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی عورت اپنی(یادینی) بہن کو طلاق دینے کی شرط عائدکرے تاکہ اس کابرتن خالی کردے۔"[66]
اور انھی کے بارے میں قاعدہ ہے کہ وہ فساد کا تقاضا کرتی ہے۔
2۔کوئی عورت اپنے خاوند پر یہ شرط عائد کردے کہ اس کے ہوتے ہوئے وہ دوسرا نکاح نہیں کرے گا،نہ لونڈی رکھے گا وگرنہ اسے فسخ نکاح کا اختیار ہوگا۔ایسی شرط درست ہے ۔حدیث میں ہے:
"وہ شرائط پوری کرنے کے زیادہ لائق ہیں جن کی بنیاد پر تم نے اپنے لیے شرم گاہوں کو حلال کرایا ہے۔"[67]
3۔اگر عورت نے یہ شرط لگائی کہ اس کا خاوند اسے اس کے گھر یا شہر سے باہر نہیں نکالے گا تودرست ہے ،البتہ اس کی اجازت سے نکالنا صحیح ہے۔
4۔اگر عورت نے خاوند پر یہ شرط عائد کی کہ وہ اس کے اور اس کی اولاد یا اس کے والدین کے درمیان جدائی پیدا نہیں کرےگا تو یہ شرط درست ہے۔اگرخاوند اس کی مخالفت کرےگا تو عورت کو فسخ نکاح کا اختیار ہوگا۔
5۔اگر کسی عورت نے بطور مہر زیادہ رقم لینے کی شرط عائد کی یا کسی خاص کرنسی کی صورت میں حق مہر کا مطالبہ کیا تو یہ شرط صحیح ہے جس کا پورا کرنا شوہر پر لازم ہے ۔اسے پورا نہ کرنے کی صورت میں عورت کو فسخ نکاح کا اختیار ہے،وہ جب چاہے نکاح فسخ کرسکتی ہے،البتہ اگر خاوند نے بیوی کو راضی کرلیا تو اس کا فسخ نکاح کا اختیار ساقط ہوجائے گا۔
ایک مرتبہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فیصلہ دیا کہ"عورت نے بوقت نکاح جو شرائط مقرر کی تھیں خاوند انھیں پورا کرے۔"تو آدمی نے کہا:تب عورتیں ہمیں چھوڑ دیں گی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" شرائط عائد ہونے سے حقوق ختم ہوجاتے ہیں۔"[68]نیز فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"مسلمان باہمی شرائط کے پابند رہیں۔"[69]
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" نکاح میں عائد کردہ صحیح اور جائز شرائط کو پورا کرنا واجب ہے۔یہ شریعت،عقل اور قیاس صحیح کا تقاضا ہے ،نیز عورت اپنی عصمت خاوند کے حوالے کرنے کے لیے جن شرائط کے بغیر راضی نہیں ہوتی انھیں پورا کیا جائے۔اگرانھیں پورا نہ کیا جائے گا تو عقد نکاح عورت کی مرضی کے مطابق نہ ہوا بلکہ اس پر وہ کچھ لازم کیا گیا جو اس نے نہ خود لازم کیا اور نہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر لازم کیا تھا۔"[70]
نکاح میں فاسد شرائط کی دو انواع ہیں،پہلی نوع :وہ فاسد شرائط جن سے عقد نکاح باطل ہوجاتا ہے۔اس کی تین صورتیں ہیں:
یعنی کوئی شخص اپنی بہن یا بیٹی کا اس شرط پر کسی سے نکاح کردے کہ دوسرا شخص بھی اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح اس سے کردے،نیز دونوں میں مہر نہ ہو۔واضح رہے شغار شغور سے ہے جس کے معنی"معاوضے سے خالی ہونے"کے ہیں۔بعض نے کہا ہے کہ شغار شغر الکلب سے اور یہ لفظ اس وقت بولتے ہیں جب کتا پیشاب کرنے کی خاطر ٹانگ اٹھاتا ہے۔اس قسم کے نکاح کی قباحت کتے کے اس قبیح فعل کی طرح ہے۔نکاح کی اس قسم میں عورت کےبدلے عورت ہوتی ہے جس کے حرام ہونے پر اہل اعلم کا ا تفاق ہے اور ایسا نکاح باطل ہے۔اس قسم کے نکاح میں جدائی ڈالنا واجب ہے،مہر کی نفی کی صراحت ہو یااس کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہو دونوں صورتیں برابر ہیں۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع کیا ہے۔"(راوی کہتے ہیں کہ) نکاح شغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی کو کس کے نکاح میں اس شرط پر دے کہ وہ بھی اپنی بیٹی اسے نکاح میں دے گا اور دونوں عورتوں کا حق مہر بھی نہ ہو۔"[71]
شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اللہ تعالیٰ نے(بزبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) نکاح شغار کو حرام قراردیا ہے کیونکہ عورت کے ولی پر لازم ہے کہ وہ اس کی شادی اس وقت کردے جب کسی"کفو" مرد کی جانب سے پیغام نکاح آجائے،نیز اس میں عورت کی مصلحت کو پیش نظر رکھے نہ کہ اپنی خواہش کو۔اور یاد رکھے کہ مہر عورت کا حق ہے ولی کا نہیں،لہذا باپ یا ولی کو چاہیے کہ عورت کے نکاح میں اپنی غرض کے بجائے عورت کے مفاد کو سامنے ر کھے ورنہ اس کا حق ولایت ساقط ہوجائے گا۔جب ولی کی غرض فرج کا فرج کے ساتھ تبادلہ کرنا ہوتو وہ جس عورت کا ولی بن کر نکاح کررہاہے اس کے مفاد کے بجائے اپنی مصلحت کو مقدم رکھے گا۔اور وہ اس آدمی کی طرح ہوگا جس نے صرف اپنے لیے مال دیکھ کر نکاح کیا نہ کہ عورت کی مصلحت ومنفعت کا خیال کیا۔اور یہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں۔اسی طرح اگر کسی نے نکاح شغار میں حق مہر محض حیلے کے طور پر مقرر کیا تو پھر بھی نکاح جائز نہ ہوگا امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے کیونکہ مقصود وٹہ سٹہ ہوتا ہے۔"
اگر ہر ایک عورت کا حق مہر الگ الگ مقرر ہواور کوئی حیلہ بھی نہ ہو،نیز دونوں عورتیں اپنے اپنے نکاح پر رضا مند ہوں تو نکاح درست ہے کیونکہ اب نقصان وضرر کا پہلو نہیں رہا۔
2۔نکاح حلالہ،کوئی شخص کسی عورت سے اس شرط پر نکاح کرے کہ جب وہ اسے(صحبت کے بعد) پہلے شوہر کے لیے حلال کردےگا تو اسے طلاق دے دےگا تاکہ پہلے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح دوبارہ کردیا جائے یابوقت نکاح یا نکاح سے پہلے شرط عائد نہ کرے لیکن ایسی نیت ضروررکھے،بہرحال یہ نکاح باطل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"کیا میں تمھیں مانگ کرلیے ہوئے سانڈ کی خبر نہ دوں؟صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی:ضرور بتائیے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ حلالہ کرنے والا مرد ہے۔اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لیے حلالہ کیا جارہا ہے دونوں پر لعنت کی ہے۔"[72]
3۔عقد نکاح کو مستقبل کی شرط کے ساتھ مشروط کرنا،مثلاً: کوئی کہے:"میں تجھ سے اس عورت کانکاح اس وقت کروں گا جب مہینہ شروع ہوگا۔"یا"اس(عورت) کی ماں رضا مند ہوگی۔"اس طرح کا نکاح منعقد نہ ہوگا کیونکہ نکاح عقد معاوضہ ہے جسے کسی شرط سے مشروط قراردینا صحیح نہیں۔
اسی طرح ایک مدت مقرر تک کسی کو بیوی بنانا جائز نہیں،مثلاً: کوئی کہے:میں نے ایک رات کے لیے فلاں عورت کو تیری بیوی بنادیا،چنانچہ اگلے دن اسے طلاق دے دینا یا کوئی شخص کسی عورت کا ایک مہینے یا ایک سال تک کے لیے نکاح کرے تو یہ مقرر وقت تک کا نکاح باطل ہے کیونکہ یہی"نکاح متعہ" ہے۔
شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" مشہور اور متواتر روایات متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے متعہ کو حلال کرنے کے بعد مستقل طور پر حرام قراردے دیا ہے۔"[73]
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"تمام روایات اس امر پر متفق ہیں کہ متعے کی اباحت کادور لمبا دور نہ تھا،پھر اسے حرام قرار دے دیا گیا۔اس کی حرمت پر سلف وخلف علماء کااتفاق ہے ،ماسوا روافض کے جو کسی گنتی وشمار میں نہیں آتے۔"[74]
دوسری نوع ان فاسد شرائط کی ہے جن سے نکاح باطل نہیں ہوتا اور وہ حسب ذیل ہیں:
1۔اگرکسی نے عقد نکاح میں عورت کے حقوق میں سے کسی حق کو ختم کرنے کی شرط عائد کی،مثلاً:مرد نے شرط عائد کی کہ عورت کے لیے مہر نہ ہوگا یا وہ اسے نان ونفقہ نہیں دے گا یا اسے اس کی سوکن سے کم حقوق ملیں گے تو ان تمام احوال میں شرط فاسد ہوگی،البتہ نکاح صحیح ہوگا کیونکہ اس شرط کا تعلق ایک زائد چیز سے ہے جس کا ذکر لازم ہے نہ اس سے عدم واقفیت باعث ضرر ہے(اس شرط کا عقد نکاح سے کوئی تعلق نہیں۔)
2۔اگر کسی نے بیوی کے مسلمان ہونے کی شرط عائد کی لیکن معلوم ہواکہ وہ"کتابیہ" ہے تو نکاح صحیح ہے،البتہ اسے فسخ نکاح کا اختیار ہے۔
3۔اسی طرح شوہر نے بیوی کے کنواری ہونے یا خوبصورت ہونے یا اونچے خاندان کی شرط عائد کی لیکن صورت حال اس کے برعکس ظاہر ہوئی توشوہر کو فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے کیونکہ عائد کردہ شرط مفقود ہے۔
4۔کسی نے ایک عورت کو آزاد سمجھ کر شادی کی لیکن بعد میں اس کا لونڈی ہونا ثابت ہواتو اگر اس کے لیے لونڈی سے نکاح کرنا جائز نہیں تو دونوں میں تفریق ڈال دی جائےگی اور اگر اس کے لیے نکاح کرنا جائز ہواتو اسے فسخ نکاح کا اختیار ہے۔
5۔اسی طرح اگر کسی عورت نے کسی مرد کو آزاد سمجھ کر شادی کی اور بعد میں وہ غلام ثابت ہواتو عورت کو فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے۔
اگر غلام کی بیوی کو آزادی مل گئی تو اسےغلام خاوند کے نکاح میں رہنے یانہ رہنے کا اختیار ہے کیونکہ بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو غلام کی بیوی تھی۔جب اسے خاوند سے پہلے آزادی مل گئی تو اس نے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے مفارقت اختیار کی جیسا کہ صحیح بخاری وغیرہ میں مروی ہے۔
نکاح کے سلسلے میں کچھ ایسے عیوب ہیں جن کی وجہ سے فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ان میں سے بعض یہ ہیں:
1۔جس عورت کا خاوند نامرد ہونے یا مقطوع الذکر ہونے کی وجہ سے وطی کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو اس عورت کو فسخ نکاح کا اختیار ہے۔اگر عورت نے خاوند کے نامرد ہونے کا دعویٰ کیا جس کا خاوند نے اقرار کرلیا تو اسے(علاج معالجے کے لیے) ایک سال کی مہلت دی جائے گی،اگر وہ مقرر مدت کے دوران وطی کرنے کے قابل ہوگیاتو ٹھیک ورنہ عورت کو فسخ نکاح کا اختیار ہوگا۔
2۔اگرمرد نے اپنی بیوی میں ایسا عیب پایا جو وطی میں رکاوٹ کا باعث ہے،مثلاً:اس کی شرمگاہ کے سوراخ کا نہ کھلنا جس کاازالہ بھی ناممکن ہوتو مرد کو فسخ نکاح کااختیار ہوگا۔
3۔اگر زوجین میں سے کسی ایک نے دوسرے میں ایسا عیب پایا جس کا دونوں میں ہونا ممکن ہے،مثلاً:بواسیر،جنون،پھلبہری،کوڑھ ،گنجاپن اور منہ میں بدبو کا آنا وغیرہ تواس میں ہر ایک فسخ نکاح کااختیار ہوگا کیونکہ یہ عیوب نفرت کاباعث ہیں۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ہر وہ عیب جو زوجین میں سے کسی ایک کے لیے نفرت کا باعث ہو،نیز اس سے مقصود نکاح حاصل نہ ہورہا ہوتو اس سے نکاح قائم رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار لازماً حاصل ہوجاتا ہے۔یہ اختیار بیع کو قائم رکھنے یانہ رکھنے کے اختیار سے زیادہ پختہ ہے۔"[75]
4۔اگر زوجین میں سے کسی ایک میں نکاح کے بعد عیب پیدا ہوگیا تو دوسرے کو فسخ نکاح کا اختیار ہوگا۔
زوجین میں سے ہر ایک فسخ نکاح کا اختیار تب ہوتاہے جب دوسرا فریق اس عیب کو پسند نہ کرے اگرچہ خود اس میں ویسا ہی یاکوئی دوسرا عیب موجود ہو کیونکہ انسان اپنے عیب سے نفرت نہیں کرتا۔اگر کسی کے عیب پر مطلع ہونے کے باوجود دوسرا فریق رضا مندی کا اظہار کردے یا کسی اور ذریعے سے اس کی رضا مندی معلوم ہوجائے تو اسے فسخ نکاح کااختیار نہ ہوگا۔
(1)۔جب کسی فریق کو فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہوگا تو اس کی تکمیل قاضی کے ہاں جاکر ہوگی کیونکہ اس میں غوروفکراور اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے،لہذا صاحب اختیار کے مطالبہ کرنے پر قاضی نکاح کو فسخ قراردے گا یا اسے اجازت دے گا کہ وہ نکاح کو فسخ کردے۔
(2)۔اگر مجامعت سے پہلے ہی نکاح فسخ ہوگیا تو عورت کو مہر میں سے کچھ نہ ملے گا کیونکہ اگر فسخ اس(عورت) کی طرف سے ہوا ہے تو یہ جدائی بھی اسی کی طرف سے آئی ہے اور اگر مرد نے نکاح فسخ کیا ہے تو عورت اپنا عیب چھپانے کے باعث خود اس فسخ کا سبب بنی ہے۔
(3)۔اگر فسخ مجامعت کے بعد ہواتو عورت کو مقرر مہر ملے گا کیونکہ وہ عقد نکاح سے واجب ہوچکا تھا تو مجامعت سے برقراررہے گا ساقط نہ ہوگا۔
(4)۔نابالغ لڑکی،دیوانی عورت یالونڈی کا نکاح اس شخص سے کرناجائز نہیں جس میں اس قسم کا عیب موجود ہو جس کی بنا پر نکاح فسخ کیا جاسکتا ہو کیونکہ ان مذکورہ عورتوں کےسرپرستوں کو چاہیے تھاکہ ہر صورت ان کی مصلحت اور منفعت کو ملحوظ رکھیں۔اگرانھیں عیب کاعلم نہ ہو تو جب علم ہو ان کانکاح فسخ کردیں تاکہ عورتوں کو ان سے ضرر نہ پہنچے۔
(5)۔اگر کوئی عمر رسیدہ عقل مند عورت کسی نامرد شخص کو بطور شوہر پسند کرلے تو اس کا ولی رکاوٹ پیدا نہ کرے کیونکہ وطی عورت کاحق ہے کسی دوسرے شخص کا نہیں۔
(6)۔اگرعورت کسی مجنون،کوڑھ یاپھلبہری والے سے شادی کرنے پر رضا مند ہوتو ولی اسے روک دے کیونکہ آگےچل کر اولاد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور اس سے عورت کے خاندان کو اذیت پہنچے گی۔
کفار سے مراد اہل کتاب ،مجوس،بت پرست وغیرہ لوگ ہیں۔اس باب میں اس نکاح پر بات کرنا مقصود ہے جس کو ان کے مسلمان ہوجانے کی صورت میں صحیح تسلیم کیا جائے گا یا اگر وہ کفر کی حالت میں مسلمان قاضی سے رجوع کریں تو ان کانکاح قائم رکھا جائے گا۔
کفار کے نکاح کا حکم صحت ودرستی ،وقوع طلاق ،ظہار،ایلاء وجوب نفقہ اور باری کی تقسیم کے اعتبار سے مسلمانوں کے نکاح ہی کی طرح ہے۔
(7)۔جن عورتوں سے نکاح کرنا مسلمانوں کے لیے حرام ہے ۔انھی سے نکاح کرنا کفار کے لیے بھی حرام ہے۔کافر خاوند اور بیوی کے نکاح کے درست ہونے کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں عورت کی نسبت اس کے کافر شوہر کی طرف کی گئی ہے۔ارشاد الٰہی ہے:
"اور اس کی بیوی بھی(آگ میں جائے گی) جو لکڑیاں ڈھونے والی ہے۔"[76]
نیز ارشاد ہے:
"فرعون کی بیوی"[77]
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عورت کی نسبت اس کے کافر خاوند کی طرف کی ہے اور یہ نسبت زوجیت کے درست ہونے کے متقاضی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" درست بات یہی ہے کہ کفار کے وہ نکاح جو اسلام میں حرام ہیں وہ مطلقاً حرام ہیں۔ایسا کرنے والے لوگ اگر اسلام قبول نہیں کریں گے تو آخرت میں انھیں اس جرم کی بھی سزا ملے گی اور اگر وہ مسلمان ہوجائیں تو ان کا یہ گناہ معاف ہوجائے گا کیونکہ ان کا عقیدہ نہ تھا کہ ان عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے۔باقی رہا نکاح کا صحیح یافاسد ہونا تو درست بات یہی ہے کہ وہ ایک اعتبار سے صحیح ہے اور ایک اعتبار سے فاسد۔اگر نکاح کے صحیح ہونے سے مراد تصرف کا جائز ہونا ہے تو بشرط اسلام جائز ہوگا۔اوراگر یہ مقصد ہے کہ اسے نافذ مانا جائے اور زوجیت کے احکام مرتب ہوں،مثلاً:اس کی وجہ سےتین طلاق دینے والے کے لیے دوبارہ نکاح کرنا جائز ہونا یا اس کے نکاح کے بعد طلاق ہونا یا اسکی وجہ سے اسے شادی شدہ شمار کرناتو اس معنی میں یہ نکاح صحیح ہے۔"[78]
(8)۔کفار کے نکاح کے احکام میں سے یہ ہے کہ وہ فاسد صورتوں میں بھی دو شرطوں کے ساتھ قائم رہیں گے۔
1۔کفاراپنی شریعت کے مطابق اسے جائز سمجھیں۔اگر وہ اپنے عقیدے کے مطابق جائز نہ سمجھیں توانھیں اس نکاح پر قائم نہیں رہنے دیا جائےگا کیوکہ یہ ان کے دین میں شامل نہیں۔
2۔کفار ان فاسد نکاح کے مقدمات کوہماری عدالتوں میں پیش نہ کریں۔اگر وہ پیش کریں گے تو ہم انھیں ان فاسد نکاح پر قائم نہیں رہنے دیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
"آپ ان کے معاملات میں اللہ کی نازل کردہ وحی کے مطابق ہی فیصلہ کیاکیجئے۔"[79]
(9)۔اگر کفار اس نکاح کو درست سمجھنے کا عقیدہ رکھیں اور ہماری عدالتوں میں ایسا مقدمہ نہ لائیں تو ہم ان سے تعرض نہیں کریں گے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے"ہجر" کے مجوسیوں سے جزیہ لیا لیکن ان کے نکاح کے معاملات میں دخل اندازی نہ کی،حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ مجوس محرمات سے نکاح کرنا جائز سمجھتے ہیں۔واضح رہے کہ بہت سے لوگوں نے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اسلام قبول کرلیاتھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو سابقہ نکاح پر قائم رکھا اور ان نکاحوں کی کیفیت نہ پوچھی۔
(10)۔اگر کفار عقد نکاح سے قبل ہمارے پاس آجائیں گے تو ہم دین اسلام کے مطابق ان کے نکاح کردیں گے،یعنی ایجاب وقبول کرنا،ولی کا ہونا اور دو مسلمان گواہوں کی موجودگی وغیرہ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور اگر آپ فیصلہ کریں تو ان میں عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔"[80]
(11)۔اگر وہ انعقاد نکاح کے بعد ہمارے ہاں آئیں گے تو ہم ان سےکیفیت نکاح کے بارے میں تعرض نہ کریں گے۔
(12)۔اسی طرح اگرخاوند اور بیوی دونوں حالت کفر کے نکاح کے بعد مسلمان ہوجائیں تو ہم ان کے نکاح کی کیفیت وشرائط کے بارے میں تعرض نہ کریں گے،البتہ ہم ان کے ہمارے ہاں مقدمہ لانے یا اسلام قبول کرنے کے وقت کا لحاظ ضرور کریں گے۔
اگر مذکورہ وقت میں بغیر کسی شرعی مانع کے اس کی بننے والی بیوی سے نکاح جائز تھا تو ان کا نکاح قائم رہے گا کیونکہ ابتدائے نکاح میں کوئی شرعی مانع موجود نہیں،لہذا نکاح کوہمیشہ قائم رکھنے میں اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔اور اگر ہمارے ہاں مقدمہ لانے یا قبول اسلام کے وقت اس کی بننے والی بیوی سے نکاح حرام تھا تو ان میں تفریق کردی جائےگی کیونکہ جب عقد نکاح کی ابتداء ہی فاسد ہے تو نکاح کوقائم رکھنا بھی فاسد اور حرام ہے۔اگر حالت کفر میں عورت کے لیے مہر کی مقرر شے جائز اور درست ہے تو بیوی اسے وصول کرے گی کیونکہ اس کی وصولی میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے اوراگر حرام شے ہے،مثلاً:شراب یاخنزیر تو اگر عورت نے اسے وصول کرلیا تو اس کانکاح قائم رہے گا۔اور بیوی نے جو کچھ وصول کرلیا اس کے سوا اسے اور کچھ نہ ملے گا کیونکہ اس نےاسے مشرکانہ حالت میں لیاتھا،لہذا خاوند بری الذمہ ہوگیا۔علاوہ ازیں اگر مہر کوازسر نو چھیڑا جائے تو اس میں خاوند کے لیے مشکل ہوگی جو اسلام سے نفرت کاباعث ہوسکتی ہے،لہذا دیگر کفریہ اعمال کی طرح اسے بھی نظر انداز کردیا جائے گا۔
اگرعورت نے مہر فاسد قبضے میں نہیں لیا تو اس کا مہر"مہر مثل" ہوگا۔اگراس نے مہر فاسد کا کچھ حصہ وصول کرلیا اورکچھ حصہ ابھی وصول کرنا ہے تو جس قدر حصہ وصول کرنا ہو اس کے برابر وہ مہر مثل کی قسط وصول کرلے گی۔اور اگر اس کے مہر کا سرے سے نام نہیں لیاگیا تو اسے مہر مثل ملے گا کیونکہ یہ نکاح مہر کانام لیے(مہر مقرر کیے) بغیر ہوا ہے۔
(13)۔اگرخاوند اور بیوی دونوں نے ایک ہی وقت میں اسلام قبول کرلیا تو دونوں اپنے سابقہ نکاح پر قائم رہیں گے کیونکہ ان پر اختلاف دین کے لمحات نہیں گزرے۔
(14)۔اگر اہل کتاب کا کوئی آدمی مسلمان ہوگیا لیکن اس کی بیوی(جو اہل کتاب میں سے ہے) مسلمان نہ ہوئی تو دونوں اپنے اسی نکاح پر قائم رہیں گے کیونکہ مسلمان مرد جب کتابیہ عورت سے نکاح کرسکتاہے تو اس کے اسی نکاح کوقائم رکھنا بالاولیٰ جائز ہے۔
(15)۔اگر کسی کافر شخص کی کافر بیوی دخول سے پہلے پہلے مسلمان ہوگئی تو ان کا نکاح باطل ہوجائے گا کیونکہ ارشاد الٰہی ہے:
"تو اب تم انھیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو،یہ ان کے لیے حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لیے حلال ہیں۔"[81]
واضح رہے کہ بیوی کو مہر میں سے کچھ نہ ملے گا کیونکہ تفریق کی وجہ خود بیوی کاعمل ہے۔
(16)۔اسی طرح اگر دخول سے قبل غیر کتابی عورت کاشوہر مسلمان ہوگیا تونکاح باطل ہوجائےگا کیونکہ ارشاد الٰہی ہے:
"اور کافر عورتوں کی ناموس اپنے قبضے میں نہ رکھو۔"[82]
اس صورت میں مرد کو نصف مہر دینا ہوگا کیونکہ تفریق کا سبب وہ خود بنا ہے۔
(17)۔اگر(اہل کتاب کے علاوہ) زوجین میں سے کوئی ایک مسلمان ہوگیا یہ کافر مرد کی کافر بیوی نے بعد از دخول اسلام قبول کرلیا تو عدت مکمل ہونے تک اس کامعاملہ موقوف رہے گا۔اگر عدت تک دوسرا فرد مسلمان نہ ہواتو سمجھا جائے گا کہ پہلے شخص کے قبول اسلام ہی سے نکاح فسخ ہوگیا تھا۔
(18)۔اگر کسی شخص نے اسلام قبول کیا اور اس کی چار زائد بیویاں ہیں اور ان سب نے بھی اسلام قبول کرلیا یا وہ اہل کتاب سے تعلق رکھتی ہوں تو مرد کو چاہیے کہ ان میں سے صرف چار کا انتخاب کرے اور باقی کواطلاع دے کر فارغ کردے کیونکہ قیس بن حارث نے جب اسلام قبول کیاتھا تو اس وقت ان کی آٹھ بیویاں تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:
"ان میں سے چار بیویوں کا انتخاب کرلو"[83]
یہی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بھی فرمائی تھی۔واللہ اعلم۔
مہر خاوند کی طرف سے بیوی کو معاوضہ دینے کا نام ہے جو نکاح کے وقت یا اس کے بعد مقرر کیاجاتا ہے۔مہر کا حکم"وجوب" کا ہے۔اس کی دلیل کتاب اللہ،سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اوراجماع ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اور عوتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو، ہاں اگر وه خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھا لو"[84]
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے نکاح کیے،ان میں سے کوئی نکاح بھی مہر سے خالی نہ تھا،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کوفرمایا:
"مہر کے لیے کچھ تلاش کرواگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔"[85]
علاوہ ازیں اہل علم نے مہر کی مشروعیت پراتفاق کیا ہے۔
(1)۔شریعت میں مہر کی مقدار کی کوئی حد مقرر نہیں۔نہ کم از کم کی اور نہ زیادہ سے زیادہ کی۔جو شےقیمت یااجرت کے طور پر دینے کے قابل ہو،اسے مہر میں دینا درست ہے اگرچہ وہ کم ہو یا زیادہ ،البتہ اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا اور پیروی کرنا زیادہ مناسب ہے۔اور وہ یہ کہ مہر کی رقم چار سو درہم کے قریب قریب ہو۔[86]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کا مہر بھی اسی قدر تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" اگر کوئی شخص مہر کی رقم زیادہ مقدار میں دینے کی طاقت رکھتا ہو تو مہر زیادہ دینامکروہ نہیں الا یہ کہ کوئی شخص فخرومباہات کے سبب ایسا کرے۔اور اگر وہ عاجز اور تنگ دست ہے تو مہر کی رقم زیادہ مقرر کرنا نہ صرف مکروہ ہے بلکہ حرام ہے۔اسی طرح اگر مرد مجبور ہوجائے کہ مہر ادا کرنے کے لیے حرام صورتیں اختیار کرے یالوگوں کےآگے دست سوال پھیلائے تو اس صورت میں بھی زیادہ حق مہر مقررکرنا حرام ہے۔اور اگر اس نے زیادہ مہر مقرر کرکے ادائیگی مؤخر کردی تو یہ بھی مکروہ ہے کیونکہ اس میں بھی خود کومشکل میں ڈالنا ہے۔"[87]
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مہر کی رقم کا زیادہ ہونا مکروہ نہیں الا یہ کہ اس میں فخرومباہات پایا جائے یا اسراف کا پہلو ہو یا اس کا بوجھ مرد کے لیے قابل برداشت نہ ہو اور وہ اس بوجھ کو اتارنے کے لیے لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرتا رہے اور وہ قرض کے بوجھ تلے دبا رہے۔یہ بہت قیمتی اصول ہیں جن پر عمل کرنے سے فوائد حاصل ہوتے ہیں اور انھیں نظر انداز کرنے سے نقصانات ہوتے ہیں۔
(2)۔گزشتہ کلام سے واضح ہوا کہ جو لوگ شادی کرنے والے شخص کی غربت وتنگ دستی کالحاظ کیے بغیر خود ہی مہر کی کثیررقم مقرر کردیتے ہیں وہ لوگ اس شخص کے لیے مشکلیں اور مصیبتیں کھڑی کردیتے ہیں۔یہ رواج نکاح کے راستے میں رکاوٹ بن چکا ہے۔مہر کے علاوہ بیوی اور اس کےرشتے داروں کی طرف سے مزید مختلف بوجھ ڈالے جاتے ہیں،مثلاً:قیمتی کپڑوں اور بھاری زیورات کامہیا کرنا ،اچھے اور قیمتی کھانوں اور گوشت کا ضائع ہونا وغیرہ۔یہ سب کچھ بھاری بوجھ اور گلے کے طوق ہیں،اغیار کی بُری اور اندھی تقلید ہے جن کامقابلہ کرنا اور ان سے زوجین کے راستوں کو صاف کرنا از حد ضروری ہے تاکہ یہ دینی تعریف آسان سے آسان طریقے سے انجام پاسکے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
" وہ عورتیں عظیم برکت کا باعث ہیں جن کے نکاح اور نان ونفقہ کاخرچ کم ہو۔"[88]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"خبردار! عورتوں کے مہر میں غلو نہ کرو،اگر یہ کام دنیا میں عزت اور اللہ عزوجل کے ہاں تقوے کا باعث ہوتاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری نسبت اس کے زیادہ لائق تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی بیویوں یا اپنی بیٹیوں میں سے کسی کا مہربارہ اوقیے(تقریباً پانچ صد درہم) سے زیادہ مقرر نہیں فرمایا۔ایک آدمی اپنی بیوی کا مہر گراں قبول کرلیتاہے یہاں تک کہ اس کے دل میں عداوت اور دشمنی سما جاتی ہے اور کہہ اٹھتا ہے کہ میں نے تجھ کو نکاح میں لانے کے لیے ہر ایک مشکل کو برداشت کیا ہے یہاں تک کہ مشکیزے کی رسی بھی اٹھانی پڑی تو اٹھائی ہے(محنت مزدوری کرکے تیرا مہر پورا کیا ہے۔۔۔)"[89]
اس روایت سے معلوم ہواکہ بسا اوقات مہر کے زیادہ ہونے سے خاوند کے دل میں بیوی کےخلاف بغض وعداوت پیدا ہوجاتی ہے۔اسی لیے کہاگیا ہے کہ"جو عورتیں مہر کے بارے میں آسانی پیدا کرتی ہیں برکت کا باعث ہیں"
جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت میں ذکر ہوچکا ہے۔الغرض مہر میں آسانی پیدا کرنے سے خاوند کے دل میں بیوی کی محبت پیدا ہوتی ہے۔
(3)۔مہر کی مشروعیت میں یہ حکمت ہے کہ یہ عورت سے استمتاع کا معاوضہ،بیوی کی عزت وتکریم اور اس کے مقام ومرتبے کا لحاظ ہے۔
(4)۔نکاح کے وقت مہر کی رقم کانان لینا،اس کی تحدید وتعین کرنا مستحب ہے تاکہ بعد میں کسی قسم کاکوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔
(5)۔انعقعاد نکاح کے بعد بھی مہر مقرر کیا جاسکتاہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کیے طلاق دے دوتو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں۔"[90]
آیت کریمہ سے وضاحت ہوتی ہے کہ مہر عقد نکاح کے وقت سے مؤخر ہوسکتا ہے۔
(6)۔نوعیت مہر کے بارے میں یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو شے بیع میں قیمت بن سکے یااجارے میں اجرت کے طور پر ادا ہوسکے،اسے مہر کے طور پر مقرر کرناجائز ہے۔وہ کوئی معین شے ہو یا کوئی ایسی چیز جس کی ادائیگی کا وعدہ کیا گیا وہ یا کوئی معین کام حق مہر مقرر کرلیا جائے۔اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مطلوب ومقصود مہر میں آسانی پیدا کرنا ہے جو احوال وواقعات کی مناسبت سے ہو،نکاح کو آسان بنانا مطلوب ہے جس سے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی عظیم مصلحتیں وابستہ ہیں۔
مہر سے متعلق چند اہم مسائل حسب ذیل ہیں:
1۔مہر کی مالک عورت ہے نہ کہ اس کا ولی ،الایہ کہ عورت خود اپنی رضا مندی سے کسی کو مہر کا کچھ (یا سارا) حصہ دے دے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دو۔"[91]
البتہ عورت کا باپ خصوصی طور پر مہر کی رقم لےسکتا ہے اگرچہ عورت کی اجازت نہ بھی ہوبشرط یہ کہ اس میں عورت کے لیے کوئی مشکل وتکلیف نہ ہو اور عورت کو اس کی ضرورت نہ ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"اور تم اور تمہارا مال(سب کچھ) تمہارے باپ کا ہے۔"[92]
2۔مہر کی رقم عقد نکاح کے وقت ہی سے عورت کی ملکیت میں آنا شروع ہوجاتی ہے جیسا کہ بیع میں ہوتاہے،البتہ وطی یا خلوت یاکسی ایک کی موت کی صورت میں مکمل طور پر اس کا تقرر وثبوت ہوجاتا ہے۔
3۔اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو دخول وخلوت سے پہلے ہی اطلاق دے دی اور مہر کی رقم مقرر ہوچکی تھی تو خاوند آدھا مہر ادا کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"اور اگر تم عو رتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انھیں ہاتھ لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کر دیا ہوتو مقررہ مہر کا آدھا مہر دے دو۔"[93]
آیت کے سیاق کا تقاضا ہے کہ صرف طلاق دینے سے نصف مہر خاوند کا ہو اور نصف عورت کا اور جس نے بھی اپنا حصہ چھوڑدیا،جبکہ جائز التصرف ہوتو اس کا یہ معاف کرنا اور چھوڑنا صحیح ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کردیں یا وہ شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ(معاملہ) ہے۔"[94]
اللہ تعالیٰ نے معاف کرنے کی ر غبت دلاتے ہوئے فرمایا:
"تمہارا معاف کردینا تقوے کے بہت نزدیک ہے،اور تم آپس میں بھلائی اور احسان کرنا مت بھولو۔"[95]
واضح رہے عورت کی جانب سے معافی یہ ہے کہ وہ آدھا مہر بھی نہ لے اور مرد کی طرف سے معافی کی صورت یہ ہے کہ وہ آدھا مہر دینے کے بجائے پورا مہر ادا کردے۔اس میں مرد اور عورت دونوں کو اس بات کی ترغیب ہے کہ وہ ایک دوسرے سے تنگ ظرفی کامعاملہ نہ کریں اور باہم قائم ہونے والے تعلق کا لحاظ رکھیں۔
4۔جو کچھ بھی نکاح کی وجہ سے وصول کیا جائے وہ حق مہر میں شامل ہے،مثلاً:اس کے باپ یا بھائی کے لیے لباس کا جوڑا وغیرہ۔
5۔اگر کسی عورت کو بطورمہر ایسا مال دیا گیا جو کسی سے چھینا گیا تھا یا حرام شے تھی تو نکاح صحیح ہوگا،البتہ مرد پر لازم ہے کہ حرام مہر کے عوض عورت کو مہر مثل ادا کرے۔
6۔اگرانعقاد نکاح کے وقت عورت کا مہر مقرر نہ کیا گیا ہوتو نکاح صحیح ہوگا۔اس کو تفویض(بلا مہرشادی) کہتے ہیں اور اس میں مہر مثل مقرر کیا جائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے ہوئے اور بغیر مہر مقرر کیے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں۔"[96]
جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ"ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک عورت سے نکاح کیا اور اس کا مہر مقرر نہ کیا اوروطی کرنے سے قبل ہی فوت ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا:اس عورت کو مہر مثل ملے گا،یعنی وہ مہر جو اس عورت کے قبیلے کی عورتوں میں معروف ہے۔اس میں کمی بیشی نہ ہوگی،اس عورت پر عدت بھی ہوگی اور اسے خاوند کی میراث بھی ملے گی،چنانچہ معقل بن سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کھڑے ہوکر فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قبیلے کی عورت بروع بنت واشق رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں ایسا ہی فیصلہ صادر فرمایا تھا۔"[97]
تفویض کی ایک صورت یہ ہے کہ مہر کی مقدار کو مفوض کیاجائے۔اس کی شکل یہ ہے کہ ہونے والے خاوند اور بیوی آپس میں طے کرلیں کہ تو جتنا چاہے مہر مقرر کرلینا یاتیسرا(اجنبی) آدمی جتنا کہے وہ مقرر ہوجائے۔اس طریقے سے کیا ہوا نکاح صحیح ہوگا اور اس میں مہر مثل مقرر کیا جائےگا اور مہر مثل سے متعلق فیصلہ قاضی کرے گا اور یہ اس عورت کی رشتے دار خواتین کے مہر کو دیکھ کرمقرر کیا جائے گا،جیسے اس کی ماں،خالہ یا پھوپھی وغیرہ ہے۔فیصلے میں قاضی ان عورتوں کااعتبار کرے گا جو اس عورت کے مال،حسن وجمال ،عقل وفہم،ہنر وادب ،عمر اور باکرہ یابیوہ وغیرہ ہونے میں ہم پلہ ہوں گی۔اگر اس عورت کی قریبی رشتے دار خواتین نہ ہوں تو اس کے شہر کی دوسری عورتیں جو اس کے مشابہ ہوں گی،ان کو ملحوظ رکھا جائے گا۔
اگر شوہر نے بیوی کو قبل ازدخول طلاق کے ذریعے سے الگ کردیا تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق بیوی کو مال ومتاع سے فائدہ پہنچائے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کئے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناه نہیں، ہاں انہیں کچھ نہ کچھ فائده دو۔ خوشحال اپنے انداز سے اور تنگدست اپنی طاقت کے مطابق دستور کے مطابق اچھا فائده دے۔ بھلائی کرنے والوں پر یہ لازم ہے"[98]
آیت میں صیغہ امر وجوب کے معنی دیتا ہے اور واجب کی ادائیگی احسان ہے۔
اگر قبل از وطی کسی ایک کے مرنے کے سبب مفارقت ہوگئی توعورت کے لیے مہرمثل ہوگااور ہر ایک دوسرے کا وارث بھی ہوگا کیونکہ انعقاد نکاح کےوقت مہر کے عدم ذکر سے صحت نکاح میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ بالا روایت اس کی مؤید ہے۔
اگر دخول یا خلوت حاصل ہوگئی تو عورت کے لیے مہر مثل کامل ہے جیسا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کا فیصلہ ان الفاظ میں بیان کیاہے:
"جس نے دروازہ بند کرلیا اور پردہ لٹکالیا اس پر مہر واجب ہوگیا۔"[99]
اگر قبل از وطی عورت کی جانب سے تفریق پیدا ہوئی تو اسے مہر میں سے کچھ نہ ملے گا،مثلاً:وہ مرتد ہوگئی یا اس نے خاوند میں کوئی عیب نکال کرنکاح فسخ کردیا وغیرہ۔
7۔عورت کو حق حاصل ہے کہ مہر معجل(جسے خلوت سے پہلے ادا کرنا طے پایا ہو) کی ادائیگی سے پہلے خاوند کو قریب نہ آنے دے کیونکہ ایک بار یہ موقع دینے کے بعد وصولی مشکل ہوگی۔اگر سارامہر مؤجل(جسے تاخیر سے ادا کرنا طے پایا ہو)ہے تو عورت کو خلوت سے انکار کاحق حاصل نہیں کیونکہ وہ مہر کی تاخیر پر رضا مندی کا اظہار کرچکی ہے۔اسی طرح اس نے اگر ایک بار خلوت کاموقع دے دیا تو اس کے بعد اس نےچاہا کہ مہر وصول ہونے تک خاوند سے الگ رہے تو اسے یہ حق حاصل نہیں ہوگا۔
ولیمے کے لغوی معنی ہیں:"کسی شے کا مکمل ہونا اور اس کا جمع ہونا۔"شادی کے موقع پر"کھانا کھلانے" کو ولیمہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ شادی کے سبب مرد اورعورت اکٹھے ہوتے ہیں۔
لغت عرب اور فقہاء کی اصطلاح میں مرد کی طرف سے شادی کے موقع پر "کھانا کھلانے"کو ولیمہ اس لیے کہا جاتاہے کہ شادی کے سبب مرد اورعورت اکھٹے ہوتے ہیں۔
لغت عرب اور فقہاء کی اصطلاح میں مرد کی طرف سے شادی کے موقع پر کھانا کھلانے ہی کوولیمہ کہاجاتا ہے کسی اور کھانے کو نہیں۔موقع ومحل کی مناسبت سے دوسرے کھانوں کے اور نام ہیں۔
اہل علم کا اتفاق ہے کہ ولیمہ کرنا"سنت" ہے۔بعض علماء کے نزدیک ولیمہ کرنا"واجب" ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے اور دعوت ولیمہ کو قبول کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب نکاح کی خبر سنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
"ولیمہ کروچاہے ایک بکری کا ہو۔"[100]
اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب امہات المومنین حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادیاں کیں تو ولیمہ کیا۔
(1)۔دعوت ولیمہ کے انعقاد کےوقت میں وسعت ہے جس کی ابتداء عقد نکاح سے ہوجاتی ہے اور شادی کے اختتام تک ہے۔
(2)۔مقدارولیمہ کے بارے میں بعض فقہاء کی یہ رائے ہے کہ ایک بکری سے کم نہ ہو،زیادہ ہوتو بہترہے۔سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حکم دیا تھا اس کایہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے لیکن ایسا تب ہے جب آسانی ہوورنہ دعوت ولیمہ کا اہتمام حسب طاقت ہونا چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کی تو حیس بنا کر ولیمہ کیا جو کہ آٹا،گھی اور پنیر وغیرہ ملاکر تیار کیا جاتا ہے،اسے ایک چٹائی(دسترخوان) بچھا کر اس پر رکھ دیا گیا،(پھر سب نے کھایا۔)[101]
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ گوشت کے بغیر بھی ولیمہ جائز ہے۔
(3)۔ولیمے میں فضول خرچی ناجائز ہے جیسا کہ آج کل کیا جاتا ہے کہ بہت سی بکریاں اور اونٹ ذبح کردیے جاتے ہیں اور بہت سے کھانے پکائے جاتے ہیں جو اکثر بچ جاتے ہیں۔بعد میں وہ نہ صرف کھائے نہیں جاتے بلکہ کوڑا کرکٹ کےڈھیر پر پھینک دیے جاتے ہیں۔یہ وہ چیز ہے جس میں ہمیں ہماری شریعت منع کرتی ہےاور عقل سلیم اسے جائز نہیں قرار دیتی۔ممکن ہے اس قبیح حرکت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے زوال نعمت کی کوئی سزا مل جائے،لہذا اس سے بچنا چاہیے،نیز ان ولیمے کی دعوتوں میں فخرومباہات کا اظہار ہوتا ہے،دولت کی نمائش ہوتی ہے ،منکرات اور خلاف شرع امور سرعام کیے جاتے ہیں۔کبھی دعوت ولیمہ کا اہتمام بڑے بڑےہوٹلوں میں کیا جاتا ہے جہاں مردووزن کااختلاط ہوتا ہے،بے پردگی کے مظاہر دیکھنے میں آتے ہیں۔گانے باجے بجائے جاتے ہیں۔
فوٹوگرافر اور مووی میکر ماہرین کی ٹیموں کو خصوصی دعوت دے کر بلایاجاتاہے جو بنی سنوری عورتوں کی تصاویر کھینچتے اوران کے مختلف پوز محفوظ کرتے ہیں،خصوصاً دلہا اور دلہن کی مختلف انداز میں تصاویر کھینچی جاتی ہیں حتیٰ کہ ان اجتماعات میں پانی کی طرح بے جا سرمایہ بہایا جاتاہے جس کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا بلکہ فتنہ وفساد اور بہت سی معاشرتی اور دینی خرابیوں کاسبب بنتاہے۔جو لوگ یہ کام کرتے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں اس کی پکڑ نہ آجائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور ہم نے بہت سی وہ بستیاں تباہ کردیں جو اپنی عیش وعشرت میں اترانے لگی تھیں۔"[102]
نیز فرمایا:
"اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سےمت نکلو۔بے شک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"[103]
اور فرمایا:
"(اور ہم نے کہہ دیا کہ) اللہ کا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔"[104]
اس عنوان پر اور بھی بہت سی قرآنی آیات ہیں جو کہ معلوم ہیں۔
(4)۔ جس شخص کو دعوت ولیمہ دی جائے وہ ضرور قبول کرے بشرط یہ کہ اس دعوت میں درج ذیل شرائط موجود ہوں:
1۔وہ پہلے دن کا ولیمہ ہو۔صرف پہلے ولیمہ میں شرکت کرنا واجب ہے،باقی دنوں کے ولیمے میں شرکت کرنا واجب نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"پہلے دن کاولیمہ ضروری ہے ،دوسرے دن کا نیکی ہے اور تیسرے دن کاشہرت اور ریاکاری ہے۔"[105]
شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" دوسرے ایام میں مناسب حد سے زیادہ جانور ذبح کرنا،کھانا اورکھلانا منع ہے اگرچہ اس کی عادت ہو یا اپنے اہل کوخوش کرنا مقصود ہو۔اگر کوئی دوبارہ یہ حرکت کرے تو اسے سزا دی جائے۔"
2۔دعوت دینےوالا مسلمان ہو۔
3۔دعوت دینے والا اللہ تعالیٰ کاباغی اورظاہری نافرمان اور ان کبیرہ گناہوں کاارتکاب نہ کرتا ہو جن کی وجہ سے اس سے کنارہ کش ہونا ضروری ہو۔
4۔دعوت دینے والے نے اگر کسی کو خصوصی طور پر دعوت دی ہوتو اس میں شرکت کرنا واجب ہے اور اگر دعوت ولیمہ کا اعلان عام ہوتو شرکت واجب نہیں۔
5۔تقریب ولیمہ میں کوئی خلاف شرع کام نہ ہو،مثلاً:شراب پینا،فحش گانے گانا، ڈھول باجے بجانا وغیرہ جیسا کہ آج کے دور میں ولیموں کی بعض تقاریب میں خصوصی اہتمام کیاجاتاہے۔
جب درج بالا شرائط موجود ہوں تو دعوت ولیمہ کو قبول کرنا ہرمسلمان پر واجب ہے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"بدترین کھانا اس ولیمے کاکھانا ہے جس میں آنے والے کو روکا جائے اور جوانکاری ہیں ان کو بلایا جائے۔جس نے دعوت ولیمہ قبول نہ کی اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔"[106]
(5)۔نکاح کا اعلان واظہار کرنا مسنون ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"اس نکاح کا اعلان کرو۔"[107]
(4)۔تقریب نکاح کے موقع پر دف بجانا جائز ہے کیونکہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"حلال اورحرام نکاح میں امتیاز دف بجانے اور آواز سے ہوتا ہے۔"[108]
عورتوں سے برتاؤ سے مراد محبت والفت اور میل جول کے وہ تعلقات ہیں جو زوجین میں ازحد ضروری ہیں۔ہر ایک کادوسرے کے ساتھ ایسے انداز سے زندگی گزارنا لازم ہے جس میں کوئی کسی کے حق میں کوتاہی نہ کرے بلکہ خوش دلی سے تمام حقوق اداکرے اور اسے تکلیف دے نہ احسان جتلائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو۔"[109]
اور فرمان الٰہی ہے:
"اور ان عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں۔"[110]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل واعیال کے حق میں بہتر ہو۔"[111]
نیز فرمایا:
"اگر میں نے کسی کو حکم دینا ہوتا کہ وہ کسی انسان کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔[112]کیونکہ اس کا عورت پر بہت بڑا حق ہے۔"[113]
ایک اور روایت میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یوں ہے:
"اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے بستر سے دور رہ کر(حالت ناراضی میں) رات بسر کرتی ہے تو فرشتے اس پر صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔"[114]
(1)۔زوجین میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرے،اس سے نرمی برتے،اس کی طرف سے کوئی تکلیف یا پریشانی آئے تو اسے برداشت کرے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو اوررشتے داروں،یتیموں،قرابت دارہمسائے،اجنبی ہمسائے اور پہلو کے ساتھی سے(بھی نیکی کرو۔)"[115]
کہا گیا ہے کہ یہاں(وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ) سے مراد زوجین میں سے ہر ایک ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"میں تمھیں عورتوں سے حسن سلوک کی نصیحت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارے ماتحت ہیں۔[116]
(2)۔شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو(ناپسند کرنے کے باوجود) اپنے ہاں بسانے کی کوشش کرے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور تم ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو،گوتم انھیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو براجانو اور اللہ اس میں بہت ہی بھلائی کردے۔"[117]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں کہ"شاید اللہ تعالیٰ اس عورت کے ذریعے سے ایسی اولاد عطافرمائے جو خیر کثیر اورسکون کا باعث ہو۔"[118]ایک صحیح حدیث میں ہے:
"مومن شوہر مومنہ بیوی سے نفرت نہ کرے،اگر کسی ایک خصلت کے سبب وہ ناراض ہے تو ممکن ہے کسی دوسری خصلت کے باعث اس سے راضی ہوجائے۔"[119]
(3)۔زوجین میں سے ہر ایک پر حرام ہے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرے یا حقوق کی ادائیگی میں کراہت کا اظہار کرے۔
(4)۔جب عقد نکاح ہوجائے اور مرد اپنے گھر میں اسے بلائے تو اسے سپرد کرنا لازم ہے بشرط یہ کہ اس کی عمر اتنی ہوکہ اس سے وطی کی جاسکتی ہوالا یہ کہ عورت نے عقد نکاح کے وقت اپنے گھر یااپنے شوہر میں رہنے کی شرط لگائی ہو۔
(5)۔شوہر کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی کو سفر میں لے کر جائے بشرط یہ کہ اس میں کوئی معصیت شامل نہ ہویا اس کےدین کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اپنی بیویوں کو سفر میں اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔
آج کے دور میں غیر اسلامی ممالک اور دیگر اباحات وفساد کے ممالک کی طرف سفر کرنے میں بہت سی اخلاقی قباحتیں اور دین کے لیے خطرات ہیں،اس لیے ان ممالک میں سیروتفریح یاکھیل تماشہ دیکھنے کی خاطر بیوی کو لے کر وہاں جانا درست نہیں،لہذا بیوی کو چاہیے کہ وہ دیار اغیار میں جانے سے انکار کردے اور اس کے ولی کو چاہیے کہ وہ عورت کو شوہر کے ساتھ ان ممالک کاسفر کرنے سے انکار کردے۔
(6)۔آج کے دور میں دولت مند لوگ شادی کرنے کے بعد"ہنی مون" منانے کے لیے کافر ممالک کا رخ کرتے ہیں،حقیقت میں ان کے لیے یہ لمحات زہر قاتل ہیں کیونکہ عام انسان وہاں کے ماحول کی خرابیوں کا شکار ہوجاتا ہے،مثلاً:عورت کے پردے کا ختم ہونا،کفار کا لباس پہن کر خود کو اچھا بلکہ برتر سمجھنا،کافروں کے اطوار وعادات کو دیکھنا اور پھر انھیں اپنانا،خلاف شرع امور میں ان کی تقلید کرنا،لہوولعب کے مقامات کو دیکھنا وغیرہ۔خاص طور پر صنف نازک ان کے رزیل کاموں کو دیکھ کر متاثر4 ہوجاتی ہے حتیٰ کہ وہ اسلامی معاشرے کے آداب واخلاق کو ناپسند کرنے لگتی ہے ،لہذا ایسا سفر حرام ہے۔بہرصورت خود کو اور اپنے اہل وعیال کو بچانا ازحد ضروری ہے۔جو دوست یا بھائی ایسے سفر کا ارادہ رکھتے ہوں انھیں روکنا چاہیے یا عورت کے ولی کو چاہیے کہ وہ عورت کو ان ممالک میں ہرگز نہ جانے دے۔اگر کوئی بے غیرت مرد ایسا کرے تو ورثاء کو چاہیے کہ اپنی بہن یا بیٹی کو روک لیں،چاہےطلاق تک ہی نوبت پہنچ جائے کیونکہ عورت اپنے سرپرستوں کے پاس اللہ کی امانت ہے جس کی حفاظت ان کا فرض ہے۔اگر عورت وہاں جانے پر رضا مند ہوتو بھی اسے نہ جانے دیا جائے کیونکہ عورت فطرتاً کمزور ہے،وہ اپنی دیکھ بھال اورنگرانی کرنے سے قاصر ہے۔عورت پر ولی مقرر کرنے کایہی مقصد ہوتا ہے کہ اسے بُرے کاموں سے بچایا جائے۔
(7)۔شوہر پر حرام ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اس وقت وطی کرے جب وہ حالت حیض میں ہو۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیئے کہ وه گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وه پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وه پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے، اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے"[120]
(8)۔اگرعورت نظافت وصفائی کاخیال نہیں رکھتی تو خاوند اس پر سختی کرسکتا ہے کہ وہ اپنے جسم کو میل کچیل سے صاف رکھے۔اپنے ان بالوں کاازالہ کرے جس کا ازالہ درست ہے ناخنوں کا کاٹے اور صاف رکھے،نیز ایسے ایسی کوئی شے کھانے سے روک سکتا ہے جو بدبودار ہو کیونکہ یہ چیزیں نفرت کا باعث بن جاتی ہیں۔
(9)۔شوہر اپنی بیوی کو نجاست کے د ھونے ،فرائض کی ادائیگی ،مثلاً:فرض نمازوں کی ادائیگی پر مجبور کرے گا بلکہ کوتاہی کی صورت میں شوہر اس کا اہتمام کروائے اور اسے مناسب سرزنش کرے۔اگر وہ نہ مانے تو اسے اپنے ہاں رکھنا حرام ہے۔علاوہ ازیں شوہر اسے حرام کاری کے ارتکاب سے بھی سختی کے ساتھ روکے گا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔"[121]
نیز فرمان باری تعالیٰ ہے:
"اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں"[122]
نیز فرمان الٰہی ہے:
"اپنے گھرانے کے لوگوں کو نمازکا حکم دیجئے اور(خود بھی) اس پر قائم رہیے۔"[123]
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اسماعیل علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
"اس کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا واقعہ بھی بیان کر، وه بڑا ہی وعدے کا سچا تھا اور تھا بھی رسول اور نبی (54) وه اپنے گھر والوں کو برابر نماز اور زکوٰة کاحکم دیتا تھا، اور تھا بھی اپنے پروردگار کی بارگاه میں پسندیده اور مقبول "[124]
(10)۔ بیوی کے بارے میں خاوند پر مسئولیت عائد ہوتی ہے ،وہ اس پر نگران(حاکم) ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔اسی طرح وہ دینی اُمور کے بارے میں بھی ذمے دار اور نگران ہے بالخصوص اس لیے بھی کہ عورت نے اس کی اولاد کی تربیت بھی کرنی ہوتی ہے اور وہ خاوند کے بعد گھر کی ذمے دار ہوتی ہے،اس لیے اس کا تربیت یافتہ ہونانہایت ضروری ہے ورنہ اس کے دین واخلاق کی خرابی سے مرد کی اولاد اور اس کے اہل بیت میں فساد خرابی لازمی آئے گی۔
تمام مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں،ان کے روزمرہ کاموں پر نظر رکھیں،نیز ان کے حقوق وتصرفات کا خیال رکھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"میں تمھیں عورتوں سے حسن سلوک کی نصیحت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارے ماتحت ہیں۔[125]
(11)۔شوہر کو چاہیے کہ بیوی اگرآزاد ہے تو اس کے پاس چار راتوں میں سے ایک رات ضرور ہےبشرط یہ کہ بیوی کی طلب ہو کیونکہ وہ اس کے ساتھ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ تین عورتیں اوررکھ سکتا ہے،(چنانچہ ہر بیوی کی باری چوتھے دن بنتی ہے۔) امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں سیدناکعب بن سوار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی فیصلہ دیا تھا۔بعض فقہاء کی بھی یہی رائے ہے،البتہ شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں یہ فیصلہ محل نظر ہے وہ فرماتے ہیں کہ چار عورتوں سے نکاح جائز ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ایک ہی بیوی ہوتو بھی اس کا حق اتنا ہی ہوگا جتنا چار عورتوں کی موجودگی میں ہوتا ہے۔[126]
(12)۔شوہر پر لازم ہے کہ طاقت وقدرت کے ہوتے ہوئے چار ماہ میں کم از کم ایک مرتبہ بیوی سے مجامعت ضرور کرے بشرط یہ کہ بیوی کا میلان اور رغبت ہو۔اس مدت کی تعین کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایلاء کرنے والے کے حق میں چار ماہ کی مدت مقرر کی ہے،لہذا دوسرے شخص کے حق میں بھی یہی حکم سمجھا جائے گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" خاوند پر اس قدر عمل زوجیت کی ادائیگی واجب ہے جس سے عورت کی خواہش جائز حد تک پوری ہوتی رہے،یعنی خاوند کو نقصان نہ پہنچے یا روزی کمانے کا عمل متاثر نہ ہو۔اس سلسلے میں کسی خاص مدت کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔"
(13)۔اگر خاوند نصف سال سے زائد عرصے کے لیے سفر پر رہا،پھر بیوی نے اسے واپس آنے کو کہا تو اسے لازماً واپس پلٹ آنا چاہیے الا یہ کہ وہ سفر حج یا فرض جہاد وقتال کا ہویا وہ واپس آنے پر قادر نہ ہو۔اگر اس نے بلاعذر شرعی واپس آنے سے انکار کردیا اور بیوی نے اس انکار کی بنیاد پر خلع کامطالبہ کیا تو حاکم اس کے شوہر سے مراسلت کرے۔اگر شوہر قصور وار ہوتو حاکم دونوں میں تفریق کردے کیونکہ شوہرایسے حق کا تارک ثابت ہواہے جو بیوی کے لیے نقصان دہ ہے۔
شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ترک وطی سے بیوی کانقصان اس امر کا متقاضی ہے کہ نکاح کو ہرحال میں فسخ قراردیا جائے۔اس میں خاوند کا قصد وارادہ شامل ہو یا نہ ہو خاوند کو مجامعت پر قدرت ہویا نہ ہو جیسا کہ بیوی کے نان ونفقہ کے بارے میں حکم ہے۔"[127]
(14)۔زوجین پر حرام ہے کہ کسی کے ہاں ان اقوال وافعال کا تذکرہ کریں جو مجامعت کے دوران ہوں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"روز قیامت اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بُرا مرتبہ اس شخص کاہوگا جو اپنی بیوی سے مجامعت کرتا ہے اور بیوی اس سے لطف واندوز ہوتی ہے،پھر مرد اپنی بیوی کے راز(دوسروں کے آگے) کھولتا ہے۔"[128]
اس روایت سے ثابت ہواکہ خاوند اور بیوی پرحرام ہے کہ وہ کسی اور کے سامنے دوران مجامعت ہونے والے امور،واقعات اور کیفیات کے بارے میں باتیں کریں۔
(15)۔خاوند کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو بلاوجہ بغیر ضرورت کے گھر سے نکلنے کی صورت میں روک دے۔اسے آزاد نہ چھوڑے کہ وہ جہاں چاہے چلی جائے۔عورت پر بھی حرام ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر بغیر ضرورت کے گھر سے نکلے،البتہ خاوند کو چاہیے کہ کسی ضروری اور جائز کام کے لیے اگر اس کی بیوی اجازت طلب کرے تو اسے اجازت دےدے،مثلاً:اس کا کوئی محرم جیسے بھائی ،چچا وغیرہ بیمار ہو اور اس کی تیمارداری کرنا مقصود ہو کیونکہ اس میں صلہ رحمی ہے۔
(16)۔ شوہر کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کے والدین کو اس سے ملاقات کے لیے آنے سے روکے،البتہ اگر اس میں کوئی نقصان یا خرابی کا اندیشہ ہوتو وہ انھیں اس سے ملنے سے منع کرسکتا ہے۔
(17)۔شوہر کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو کسی کے ہاں محنت ومزدوری کرنے یا ملازمت کرنے سے روک دے کیونکہ وہ اسے خود نان ونفقہ مہیا کرتا ہے۔اس میں شوہر کے حقوق پامال ہونے کاخطرہ ہے اور اولاد کی تربیت میں تعطل پیدا ہوسکتا ہے بلکہ اس میں اس کے اخلاق وکردار کے لیے خطرات موجود ہیں۔خاص طور پر موجودہ دور نہایت پر فتن دور ہے کہ جس میں شرم وحیا نہایت کم ہوچکی ہے،بے حیائی اور جرائم کی دعوت دینے والوں کی کثرت ہے۔دفاتر اور کام کاج کرنے کے ہر میدان میں عورتوں مردوں سے مل جل کر کام کرتی ہیں جن میں اکثر طور پر دونوں کے لیے خلوت محرمہ کے مواقع میسر آجاتے ہیں،جن کی وجہ سے خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں،لہذا خود کو اور اپنی عورتوں کو ان خطرناک مواقع سے محفوظ اور دوررکھنا واجب ہے۔
(18)۔شوہر اپنی بیوی کو پہلے خاوند کے بچے کو دودھ پلانے سے روک سکتا ہے الایہ کہ کوئی شدید ضرورت اورعذر پیدا ہوجائے۔
(19)۔اگر کسی عورت کو اس کے والدین مجبور کریں کہ وہ اپنے خاوند سے علیحدہ ہوجائے تو عورت اپنے والدین کی اطاعت نہ کرے۔اسی طرح اگر والدین اپنی بیٹی کو اپنی زیارت کے لیے آنے کو کہیں لیکن اس کا شوہر رضا مند نہ ہوتو عورت والدین کا کہا نہ مانے کیونکہ شوہر کی اطاعت کا حق والدین کی اطاعت سے بڑھ کر ہے،چنانچہ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ سیدنا حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پھوپھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی کام کے لیے حاضر ہوئی جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا:
"کیا تم شوہر والی ہو؟" اس نے کہا:جی ہاں! آپ نے پوچھا:" کیا تو اس کی خدمت کرتی ہے؟"وہ کہنے لگی: میں مقدور بھر اس کی خدمت بجالاتی ہوں،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تم غور کرنا اس(شوہر) کامقام ومرتبہ تیرے مقابلے میں کس قدر بلند ہے کہ وہ تیری جنت ہے یا جہنم ہے۔"[129]
(20)۔اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو خاوند پر فرض ہے کہ ان میں وقت کی تقسیم ،حقوق کی ادائیگی اور رات گزارنے میں مساوات رکھے ورنہ ظلم وزیادتی ہوگی۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: