سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(36) نماز استسقا کے احکام

  • 23711
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 2732

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز استسقا کے احکام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہاں استسقا سے مراد اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا کرنا ہے ۔ کسی فریاد رس سے فریاد کرنا نفوس انسانیہ کی فطرت اور جبلت ہے۔ اور حقیقی فریاد رس اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ نماز استسقا سابقہ امتوں میں بھی معروف تھی لہٰذا یہ انبیائے کرام علیہ السلام  کی سنن میں سے ایک سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَإِذِ استَسقىٰ موسىٰ لِقَومِهِ...﴿٦٠﴾... سورة البقرة

"اور جب موسی(علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا۔"[1]

خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے متعدد مرتبہ بارش کی دعا کی جس کی کئی ایک صورتیں ہیں۔اس نماز کی مشروعیت پر اہل علم کا اجماع ہے۔

جب عرصہ دراز تک بارش نہ ہونے کی وجہ سے زمین بنجر اور خشک ہو رہی ہو اور اس کی وجہ سے لوگوں کا نقصان ہو رہا ہو۔ تب ان کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے رب کے حضور گڑ گڑا کرفریاد کریں۔ اور بارش کی درخواست کریں کبھی تو باجماعت نماز استسقا پڑھی جائے یا اکیلے اکیلے بارش کی دعا کی جائے اور کبھی خطبہ جمعہ میں صرف دعا کی جائے۔ اس کے لیے خطبہ جمعہ میں بھی دعا کرنا درست ہے کہ امام دعا کرے اور سامعین اس کی دعا پر آمین کہیں۔ فرض نماز کے بعد طلب بارش کی دعا کرنا بھی صحیح ہے۔ اسی طرح تنہائی میں (خطبہ اور نماز کے بغیر ) بھی دعا کرنا درست ہے۔

نماز استسقا سنت مؤکدہ ہے چنانچہ عبد اللہ بن زید  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں:

"خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَسْقِي، فَتَوَجَّهَ إِلَى القِبْلَةِ يَدْعُو وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ جَهَرَ فِيهِمَا بِالقِرَاءَةِ" 

"ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  طلب باراں کے لیے نکلے قبلہ رو ہوئے دعا کی اور اپنی چادر کو پلٹا یا پھر دورکعتیں اونچی قرآءت سے پڑھائیں۔[2]

نماز استسقا مقام اور احکام کے لحاظ سے نماز عید کی طرح ہے یعنی نماز عید کی طرح اسے کھلے میدان میں ادا کرنا مستحب ہے۔ احکام میں یکسانیت یوں ہے کہ نماز عید کی طرح نماز استسقاکی بھی دورکعتیں ہیں بلند آواز سے قرآءت ہوتی ہے۔ خطبہ سے پہلے نماز استسقا پڑھی جاتی ہے۔ قرآءت شروع کرنے سے پہلے بارہ تکبیریں بھی دونوں رکعتوں میں کہی جاتی ہیں۔[3]سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے۔

"وَصَلَّى رَكْعَتَينِ كَمَا كَانَ يُصَلِّي فِي العِيدِ"

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز عید کی طرح نماز استسقا کی دو رکعتیں پڑھائیں ۔"[4]

امام نماز استسقا کی پہلی رکعت کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ کی قرآءت کرے۔

اہل شہر نماز استسقا کھلے میدان میں ادا کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ نماز کھلے میدان ہی میں ادا کی تھی۔ علاوہ ازیں اس میں اللہ کے حضور عاجزی اور احتیاج کا خوب اظہار ہوتا ہے۔

جب نماز استسقا کے لیے باہر نکلنے کا ارادہ ہو تو امام کو چاہیے کہ پہلے عام لوگوں کو وعظ و نصیحت کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی جزاوسزاسن کر ان کے دل نرم ہو جائیں معاصی سے توبہ کرنے اور غصب شدہ حقوق حق داروں کو ادا کرنے کی تلقین کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی بارش کے رک جانے اور برکات کے منقطع ہو جانے کا اکثر سبب بن جاتی ہے جبکہ تو بہ و نماز استسقا دعا کی قبولیت کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَلَو أَنَّ أَهلَ القُرىٰ ءامَنوا وَاتَّقَوا لَفَتَحنا عَلَيهِم بَرَكـٰتٍ مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ وَلـٰكِن كَذَّبوا فَأَخَذنـٰهُم بِما كانوا يَكسِبونَ ﴿٩٦﴾... سورة الاعراف

"اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیز گاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انھوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔"[5]

نیز امام لوگوں کو فقراء ومساکین پر صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دے کیونکہ یہ چیز بھی نزول رحمت کا سبب ہوتی ہے پھر نماز استسقا کے لیے کوئی دن مقرر کر کے اعلان کرے تاکہ اس موقع کی مناسبت سے لوگ مسنون طریقے سے تیاری کر کے گھر سے نکلیں ۔ پھر لوگ نہایت عاجزی اور تذلل کے ساتھ اور فقیرانہ حالت میں مقررہ دن کھلے میدان میں جائیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا بیان ہے:

"إن رسول الله صلى الله عليه و سلم خَرج مُتَبَذِّلاً مُتَوَاضِعًا مُتَضَرِّعًا"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز استسقا کے لیے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حالت و کیفیت نہایت تذلل تواضع ،خشوع اور عجز و مسکینی والی تھی۔"[6]

جو شخص بھی وہاں جانے کی طاقت رکھتا ہوا سے جانا چاہیے کسی کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے حتیٰ کہ بچوں کو اور عورتوں کو (جن سے کسی فتنے کا خوف نہیں )بھی شریک ہونا چاہیے۔

امام انھیں دو رکعتیں پڑھائے پھر ایک خطبہ دے۔ بعض علماء دو خطبوں کے قائل ہیں۔ بہرحال اس امر میں وسعت ہے البتہ ایک خطبہ پر اکتفا کرنا دلائل کے اعتبار سے راجح ہے۔ اسی طرح نماز استسقاء کے بعد خطبہ دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا عام معمول تھا۔ اہل علم کے ہاں یہی معمول بہ اور راجح ہے۔ بعض روایات میں آپ کا نماز سے پہلے خطبہ دینے کا ذکر ہے اور علماء اس کے قائل بھی ہیں جبکہ درست بات پہلے والی ہے۔

امام کو چاہیے کہ خطبہ استسقاء میں کثرت سے استغفار کرے اور اس مضمون سے متعلقہ آیات کی قراءت کرے کیونکہ توبہ واستغفار بھی بارش کے نزول کا سبب ہے۔ دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے نزول بارش کی زیادہ سے زیادہ دعا کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بارش کے لیے اس قدر ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھے کیونکہ یہ بھی قبولیت دعا کے اسباب میں سے ہے۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کرتے ہوئے امام کو وہ دعائیہ کلمات کہنے چاہئیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے منقول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَرجُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ ...﴿٢١﴾... سورة الاحزاب

"یقیناً تمھارے لیے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے۔"[7]

مسنون یہ ہے کہ دعا کے وقت امام قبلہ رو ہواور اپنی چادر کو پلٹائے جس کی صورت یہ ہے کہ چادر کندھوں پر ڈالے پھر چادر کا جو کنارہ دائیں کندھے پر ہواسے بائیں اور جوبائیں  کندھے پر ہواسے دائیں کندھے پر کرے صحیحین کی روایت ہے:

"فَحَوَّلَ إِلَى النَّاسِ ظَهْرَهُ، وَاسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ يَدْعُو، ثُمَّ حَوَّلَ رِدَاءَهُ"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی پشت لوگوں کی طرف کی اور قبلہ روہو کر دعا کی پھر چادر کو پلٹایا۔"[8]

اس میں شاید حکمت یہ ہے کہ یہ اس خواہش کا اظہار ہے کہ چادر کی طرح ہماری بدحالی کی حالت خوشحالی میں بدل جائے۔ سامعین وحاضرین بھی اپنی اپنی چادریں پلٹائیں چنانچہ مسند احمد میں روایت ہے کہ" لوگوں نے بھی اپنی چادریں پلٹائیں تھیں۔"[9]

نیز جو حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حق میں ثابت ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی امت کے حق میں بھی ثابت ہے الایہ کہ کسی دلیل سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا خاصہ ثابت ہو جائے۔پھر اگر بارش ہو جائے تو ٹھیک ورنہ دوسری یا تیسری بار بھی نماز استسقاء پڑھی جائے کیونکہ حاجت و ضرورت اس کی متقاضی ہے۔

جب بارش ہو تو ابتدا میں اس کے نیچے کھڑا ہونا چاہیے تاکہ اسے باران رحمت لگے اور زبان سے یہ کہے "اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا""اے اللہ !اسے مفید بارش بنا۔[10]

اور یہ بھی کہے:""مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ""ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے سبب بارش ملی ہے۔"[11]

اگر بارش کا پانی حد سے بڑھتا ہوا نظر آئے اور نقصان کا اندیشہ ہو تو کہے:

"اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اللَّهُمَّ عَلَى الْآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ "

"اے اللہ!ہمارے ارد گرد (بارش برسا) ہم پر نہ برسا،اے اللہ !ان بادلوں کو بڑے ٹیلوں ، پہاڑوں ، چھوٹے ٹیلوں ، وادیوں اور جنگلوں پر برسا۔"[12]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یہی کلمات کہا کرتے تھے۔


[1] ۔البقرۃ:602۔

[2]۔صحیح البخاری الاستسقا باب الجہر بالقراء گی الا ستسقاء حدیث 1024۔1025۔وصحیح مسلم کتاب وباب صلاۃ الاستسقاء حدیث 894۔

[3]۔ نماز استسقا میں بارہ تکبیریں کہنے کی کوئی صحیح روایت نہیں مل سکی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی مذکورہ روایت میں نماز استسقا کی نماز عید سے مشابہت و مماثلت صرف تعداد رکعات کے اعتبار سے واضح ہوتی ہے۔(فاروق صارم)

[4]۔جامع الترمذی الجمعہ باب ماجاء فی صلاۃ استسقاء حدیث558۔ 559۔والمستدرک للحاکم الاستسقاء 1/326۔327۔حدیث 1218۔1219۔

[5]۔الاعراف 7/96۔

[6]۔جامع الترمذی الجمعہ باب ماجاء فی صلاۃ استسقاء حدیث558۔

[7]۔الاحزاب 21۔ 33۔

[8]۔صحیح البخاری الاستسقاءباب کیف حول النبی صلی اللہ علیہ وسلم  ظہر الی الناس حدیث 1025۔وصحیح مسلم کتاب و باب صلاۃ الاستسقاء حدیث 894۔

[9]۔مسند احمد:4/41۔

[10]۔ صحیح البخاری الاستسقاء باب ما یقال اذا مطرت حدیث1032۔

[11]۔ صحیح البخاری الاستسقاء باب قول اللہ تعالیٰ"وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ"حدیث 1038۔

[12]۔صحیح البخاری الاستسقاء باب الاستسقاء فی المسجد الجامع حدیث 1013وصحیح مسلم الاستسقاء باب الدعاء الاستسقاء حدیث 897۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

نماز کے احکام ومسائل:جلد 01: صفحہ 245

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ