سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(14) تیمم کے احکام

  • 23689
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 4203

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تیمم کے احکام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے نماز کی ادائیگی کے لیے چھوٹی موٹی تمام نجاستوں سے"پاک پانی کے ساتھ طہارت"حاصل کرنے کا حکم دیا ہے جوحتی الامکان واجب ہے۔لیکن کبھی ایسے حالات پیش آجاتے ہیں کہ پانی حقیقتاً میسر نہیں ہوتا یا پانی موجود تو ہوتا ہے لیکن شرعی عذر کی وجہ سے اس کے استعمال کی طاقت نہیں ہوتی۔ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے تیمم کو وضو کاقائم مقام قراردیا ہے تاکہ مخلوق پرآسانی رہے اور مشقت ومشکل سے بچ جائے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلو‌ٰةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ وَإِن كُنتُم جُنُبًا فَاطَّهَّروا وَإِن كُنتُم مَرضىٰ أَو عَلىٰ سَفَرٍ أَو جاءَ أَحَدٌ مِنكُم مِنَ الغائِطِ أَو لـٰمَستُمُ النِّساءَ فَلَم تَجِدوا ماءً فَتَيَمَّموا صَعيدًا طَيِّبًا فَامسَحوا بِوُجوهِكُم وَأَيديكُم مِنهُ ما يُريدُ اللَّهُ لِيَجعَلَ عَلَيكُم مِن حَرَجٍ وَلـٰكِن يُريدُ لِيُطَهِّرَكُم وَلِيُتِمَّ نِعمَتَهُ عَلَيكُم لَعَلَّكُم تَشكُرونَ ﴿٦﴾... سورة المائدة

"اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے منھ کو، اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو، اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کرلو، ہاں اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی حاجت ضروری سے فارغ ہو کر آیا ہو، یا تم عورتوں سے ملے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو، اسے اپنے چہروں پر اور ہاتھوں پر مل لو اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا اراده تمہیں پاک کرنے کا اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دینے کا ہے، تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو"[1]

(1)۔تیمم کا لغوی معنی"قصد وارادہ"ہے اور اصطلاحی معنی" چہرے اور ہاتھوں پر پاک مٹی سے مخصوص طریقے کے ساتھ مسح کرنا"ہے۔

(2)تیمم قرآن مجید،سنت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  اوراجماع امت سےثابت ہے۔تیمم امت محمدیہ کی ایک خوبی اور اس کے لیے ایک خصوصی عطیہ الٰہی ہے۔حصول پاکیزگی کا یہ ذریعہ کسی اور اُمت کے حصے میں نہیں آیا۔یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر آسانی اور احسان ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

" أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِي الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، فَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْيُصَلِّ"

"مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملیں۔ایک ماہ کی مسافت پرموجود دشمن پرمیرا رعب طاری کردیا گیا ہے،میرے لیے زمین مسجد اور ذریعہ طہارت بنادی گئی ہےمیری امت کے کسی فرد پر جہاں بھی نماز کا وقت آجائے تو وہ وہیں ادا کرلے۔"[2]

مسند امام احمد کے الفاظ اس طرح ہیں:

"فعنده مسجده وعنده طَهُوره"

"اس کے پاس اس کی مسجد بھی ہے اور وضو بھی ہے۔"[3]

شرعی عذر کے وقت تیمم وضو کا بدل ہے،لہذا تیمم کے ساتھ ہر وہ کام کیاجاسکتا ہے جو وضو کرنے سے ہوتا ہے،مثلاً:نماز،طواف اور تلاوت قرآن وغیرہ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وضو کی طرح تیمم کو بھی طہارت کا ذریعہ اور سبب قرار دیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"وَجُعِلَتْ تُرْبَتُهَا لَنَا طَهُورًا"

"زمین کی مٹی ہمارے لیے ذریعہ طہارت قراردی گئی ہے۔"[4]

(3)۔درج ذیل صورتوں میں تیمم کرنا مشروع ہے:

1۔پانی دستیاب نہ ہونے کی صورت میں کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿فَتَيَمَّموا صَعيدًا طَيِّبًا...﴿٦﴾... سورة المائدة

"اورتمھیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔"[5]

واضح رہے پانی کا سفر یا اقامت میں نہ ہونا یاتلاش کرنے کے باوجود  پانی میسر نہ آنا،دونوں صورتوں کاایک ہی حکم ہے کہ تیمم کرلیا جائے۔

2۔پانی موجود ہو لیکن صرف پینے اور پکانے کے لیے ہو،اگر اسے طہارت کےلیے استعمال کرتا ہے تو اپنی یا ساتھی یا اپنے جانور کی جان لیوا پیاس کا خطرہ ہے،اس صورت میں تیمم مشرو ع ہے۔

3۔جب کسی کو پانی کے استعمال سے بیمار ہوجانے یا بیماری کے بڑھ جانے کااندیشہ ہو۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَإِن كُنتُم جُنُبًا فَاطَّهَّروا وَإِن كُنتُم مَرضىٰ أَو عَلىٰ سَفَرٍ أَو جاءَ أَحَدٌ مِنكُم مِنَ الغائِطِ أَو لـٰمَستُمُ النِّساءَ فَلَم تَجِدوا ماءً فَتَيَمَّموا صَعيدًا طَيِّبًا ... ﴿٦﴾... سورة المائدة

"اور اگر تم بیمار ہو یاسفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے فارغ ہوکر آیا ہویاتم عورتوں سے ملے ہو اور تمھیں پانی نہ ملے توتم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔"[6]

4۔جب کوئی شخص(بڑھاپے یا) بیماری کی وجہ سے  پانی کے استعمال میں اس قدر بے بس اور عاجز ہو کہ حرکت بھی نہ کرسکتا ہو اور اسے وضو کروانے والا بھی کوئی نہ ہو،نیز نماز کا وقت ختم ہونے کاخوف ہوتو وہ تیمم کرکے نماز ادا کرلے۔

5۔جب پانی شدید ٹھنڈا ہو اور گرم کرنے کا کوئی ذریعہ بھی نہ ہو۔نیز گمان غالب بھی یہ ہوکہ اس پانی کے استعمال سے وہ بیمار ہوجائے گا تو وہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَلا تَقتُلوا أَنفُسَكُم إِنَّ اللَّهَ كانَ بِكُم رَحيمًا ﴿٢٩﴾... سورة النساء

"اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو،یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے۔"[7]

(4)۔اگر پانی قلیل مقدار میں میسر ہو جس سے عضو کے تمام اعضاء دھل نہ سکتے ہوں تو جس قدر ممکن ہو اس قلیل پانی سے اعضائے وضو دھولیے جائیں،باقی اعضاء پر تیمم کرلیا جائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم...﴿١٦﴾... سورة التغابن

"جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔"[8]

(5)۔اگر کسی زخم کو دھونے یا اس پر پانی کے ساتھ مسح کرنے سے تکلیف کا اندیشہ ہوتو اس حصے پر تیمم کرے اور باقی حصہ دھولے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿وَلا تَقتُلوا أَنفُسَكُم إِنَّ اللَّهَ كانَ بِكُم رَحيمًا ﴿٢٩﴾... سورة النساء

"اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو،یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے۔"[9]

(6)۔اگر زخم ایسا ہو کہ اس پر مسح کرنے سے نقصان کا اندیشہ نہ ہوتو وہ مرہم لگے زخم پر مسح کرلے،تیمم کی ضرورت نہیں۔

زمین کی سطح پر موجود صاف مٹی ہو یا ریتلی زمین یا شور کلر والی زمین ہو،سب مٹی کے حکم میں ہیں،ہر ایک سےتیمم درست ہے۔اہل علم کا یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد:

﴿فَتَيَمَّموا صَعيدًا طَيِّبًا...﴿٦﴾... سورة المائدة

"پاک مٹی سے تیمم کرو۔"

عام ہے۔علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  (سفر میں) اپنے ساتھ(تیمم کے لیے) مٹی رکھنے کاتکلف اور اہتمام نہ کرتےتھے،بلکہ جس قسم کی زمین پر نماز ادا کرتے ،وہیں مٹی ،ریت وغیرہ پر ہاتھ مارکر تیمم کرلیاکرتے تھے۔

تیمم کاطریقہ

(تیمم کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے نیت کرے اور بسم اللہ کہے)انگلیاں کھول کر دونوں ہاتھ مٹی پر ایک بار مارے،پھر ہتھیلیوں کے ساتھ مکمل چہرے پر مسح کرے اور پشت ہاتھ پر پھیرے۔اگر کسی نے مٹی پر دوضربیں مار کر تیمم کیا،یعنی ایک ضرب سے چہرے پر اور دوسری ضرب سے ہاتھوں کا مسح کیا تو بھی جائز ہے۔[10]

لیکن ایک ضرب والی صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے زیادہ صحیح سند سے منقول ہے۔اور یہی طریقہ زیادہ بہتر ہے۔[11]

(1)۔جن امور سے وضو ٹوٹ جاتا ہے،انھی سے تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔اسی طرح حدث اکبر،یعنی جنابت،حیض اور نفاس آنے سے بھی تیمم قائم نہیں رہتا کیونکہ متبادل شے کا وہی حکم ہوتاہے جو اصل شے کاہوتاہے۔علاوہ ازیں تیمم پانی میسر نہ آنے کی وجہ سے کیا گیاتھا ،جب پانی میسر آگیا تو تیمم باقی نہ رہے گا۔اگر کسی نے بیماری کی وجہ سے تیمم کیا تھا تو عذر کے ختم ہونے سے تمم بھی ختم ہوجائے گا۔

(2)۔اگر کسی شخص کے ہاں نہ پانی ہونہ مٹی،یا کسی بیماری کی وجہ سے اس میں وضو یاتیمم کرنے کی سکت نہ ہوتو وہ وضو یاتیمم کیے بغیر نماز ادا کرلے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی ہمت اور طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا۔اگرادائیگی نماز کے بعد پانی یا مٹی میسر آگئی یا اس شخص میں وضو کرنے کی ہمت پیدا ہوگئی تو وہ اداشدہ نماز نہ دہرائے کیونکہ اس نے حسب طاقت حکم الٰہی تعمیل کردی ہے۔

اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم...﴿١٦﴾... سورة التغابن

"جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔"[12]

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ"

"جب میں تمھیں کسی کام کا حکم دوں تو تم حسب استطاعت اس کو ادا کرو۔"[13]

میرے بھائی! یہ تیمم کے چند اہم مسائل تھے جو ہم نے آپ کے سامنے بیان کردیے ہیں،اگر پھر بھی کسی مسئلہ میں الجھن محسوس ہوتواہل علم سے اس کا حل معلوم کرلینا۔اپنے دینی امور میں سستی کا مظاہرہ نہ کرنا،خصوصاً نماز کا جو دین اسلام کاستون ہے،خیال رکھنا کیونکہ یہ بہت نازک اور اہم معاملہ ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں قول وعمل میں صحیح اور سچ کی توفیق دے اور ہمارا ہر عمل خالص اس کی رضا کے لیے ہو،بے شک وہی دعاؤں کاسننے والا اورقبول کرنے والا ہے۔


[1]۔المائدۃ :5/6۔

[2]۔صحیح البخاری التیمم باب 1 حدیث 335 وصحیح مسلم المساجد باب المساجد ومواضع الصلاۃ حدیث 521۔

[3]۔مسند احمد 5/248۔

[4]۔صحیح مسلم المساجد باب المساجد ومواضع الصلاۃ حدیث 522۔

[5]۔المائدۃ:5/6۔

[6]۔المائدۃ:5/6۔

[7]۔النساء:4/29۔

[8]۔التغابن 64/16 فاضل مصنف نے اس مسئلے کی دلیل ذکر نہیں کی،باقی رہا آیت سے استدلال تو وہ بعید ہے،تاہم حدیث میں ا یک مد پانی سے وضو کرنے کا جو ذکر ہے اس سے کم پانی قلیل ہی شمار ہوگا اور اس حالت میں تیمم ہی کیا جائے گا۔

[9]۔النساء:4/29۔

[10]۔سنن ابی داود حدیث 335۔342۔

[11]۔صحیح البخاری التیمم باب المتیمم ھل ینفخ فیھا؟حدیث 338۔339۔

[12]۔التغابن 64/16 فاضل مصنف نے اس مسئلے کی دلیل ذکر نہیں کی،باقی رہا آیت سے استدلال تو وہ بعید ہے،تاہم حدیث میں ا یک مد پانی سے وضو کرنے کا جو ذکر ہے اس سے کم پانی قلیل ہی شمار ہوگا اور اس حالت میں تیمم ہی کیا جائے گا۔

[13]۔صحیح البخاری الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  حدیث 7288،وصحیح مسلم الحج باب فرض الحج مرۃ فی العمر حدیث 1337 ومسند احمد 2/258۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

جلد 01: صفحہ 62

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ