سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(12) نواقص وضو

  • 23687
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 2733

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نواقص وضو


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گزشتہ صفحات پر آپ احادیث صحیحہ کی روشنی میں وضو کی شرائط فرائض سنن اور اس کا مفصل طریقہ پڑھ چکے ہیں۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ کو وہ اشیاء اور حالتیں بھی معلوم ہوں جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ وضو ٹوٹ جانے کے باوجو آپ لاعلمی میں وضو قائم سمجھ کر عبادت کی ادائیگی میں مصروف رہیں جو صحیح اور مقبول نہ ہو۔

میرے مسلمان بھائی! کچھ چیزیں اور صورتیں ایسی ہیں جو وضو کے ٹوٹ جانے کا سبب بن جاتی ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک چیز یا صورت بھی پیش آجانے سے وضو قائم نہیں رہتا بلکہ جس کام کے لیے وضو کیا گیاتھا اس کی ادائیگی کے لیے نئے سرے سے وضو کرنا پڑتا ہے ان مفاسد کو"نواقص وضو"یا"وضو توڑنے والی چیزیں "کہا جاتا ہے۔

شارع  علیہ السلام  نے ان چیزوں اور صورتوں کو متعین فرمادیا ہے۔ ان میں بعض ایسی ہیں جو وضو کو خود توڑ دیتی ہیں اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہتا مثلاً: پیشاب پاخانہ کا آنا یا کسی مرد یا عورت کی دبر قبل سے کسی چیز کا خارج ہونا۔ اور بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں پیش آجانے سے"نقص وضو"کا غالب گمان ہوتا ہے مثلاً:زوال عقل نیند کا غلبہ بے ہوشی اور دیوانگی وغیرہ عقل کے زائل ہوجانے سے انسان کو اپنے آپ کی ہوش نہیں رہتی لہٰذا اس صورت حال کو نقض وضو کی علامت  قرار دیا گیا ہے۔ اب تفصیل ملاحظہ فرمائیے۔

دبر قبل سے کسی چیز کا نکلنا:مرد یا عورت کی دبر یا قبل سے جو اشیاء خارج ہوتی ہیں ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے مثلاً: پیشاب ،پاخانہ ، منی، مذی، حیض، استحاضہ،یا ہوا کا نکلنا وغیرہ پیشاب اور پاخانہ نکلنے کی صورت میں دلائل شرعیہ اور اجماع امت کے فیصلے کے مطابق وجو ٹوٹ جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے" موجبات وضو" کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

"أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ"

 "یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو( تو وضو کرے)[1]

اگر منی یا مذی نکلے تو احادیث صحیحہ کی روشنی میں وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ امام ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اسی طرح استحاضہ کا خون آنے سے بھی وضو قائم نہیں رہتا ۔ واضح رہے کہ استحاضہ کا خون عورت کو بیماری لاحق ہونے کی وجہ سے آتا ہے اور وہ حیض کے خون کے علاوہ ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت ابی حیش رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کو استحاضہ کا خون آتا تھا ان کے مسئلہ دریافت کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"فتوضئي وصلي فإنما هو عرق"

"تم وضو کر کے نماز پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ بیماری کا خون ہے۔"[2]

ہوا کے خارج ہونے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہےجس پر احادیث صحیحہ اور اجماع دلیل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے۔

"لاَ يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاَةَ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ"

"اللہ تعالیٰ بے وضو شخص کی نماز قبول نہیں فرما تا حتی کہ وہ وضو کر لے۔"[3]

جس شخص کو شک پڑجائے کہ اس کی ہوا نکلی ہے یا نہیں اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لَا يَنْصَرِفْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا"

"وہ جب تک آواز نہ سن لے یا بو محسوس نہ کرے تب تک (نیا وضو کرنے کے لیے) واپس نہ جائے۔"[4]

پیشاب اور پاخانہ کے راستوں کے علاوہ اگر کسی اور راستے سے کوئی چیز خارج ہوئی ہو۔ مثلاً:خون قے اور نکیر وغیرہ تو اس میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ ان صورتوں کے پیش آجانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔

زوال عقل:زوال عقل ہو یا عقل پر پردہ پڑجائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ زوال عقل سے مراد پاگل پن وغیرہ ہے اور عقل پر پردہ پڑجانے کا مطلب نیند کا غلبہ یا بے ہوشی ہے۔یہ تمام حالتیں "نواقض وضو" کی ہیں کیونکہ ان میں غیر محسوس طور پر وضو کے ٹوٹ جانے کا امکان ہے البتہ اگر بیٹھے بیٹھے معمولی سی نیند آگئی تو وہ ناقض وضو نہیں۔ اس لیے کہ روایات میں ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   نماز باجماعت ادا کرنے کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے سو جایا کرتے تھے۔[5]

ہاں دلائل کے درمیان جمع کے لیے ہم یہی کہیں گے کہ قصداً اور بھر پورسونے سے وضو قائم نہیں رہتا۔

اونٹ کا گوشت کھانا: اونٹ کا گوشت (تھوڑا یا زیادہ ) کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے بقول امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح اور صریح دو روایتیں آتی ہیں۔"[6]اونٹ کے علاوہ کسی اور حلال جانور کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔

اس باب میں کچھ ایسی اشیاء بھی ہیں جن میں علماء کا اختلاف ہے کہ ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں ۔اور وہ یہ ہیں۔

1۔ شرم گاہ کو چھونا (2)شہوت سے عورت کو پکڑنا(3)میت کو غسل دینا اور (4)مرتد ہو جانا۔

اہل علم کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ درج بالا صورتوں میں سے کوئی ایک پیش آجائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے جب کہ بعض اہل علم ان میں سے کسی صورت میں نقض وضو کے قائل نہیں۔ دراصل یہ مسئلہ غور و فکر کا محتاج اور اجتہادی ہے۔ اگر اختلاف کی دلدل سے نکلنے کی خاطر وضو کر لیا جائے تو مستحسن ہے۔

اب زیر بحث موضو ع سے متعلق ایک اہم مسئلہ باقی رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ یقینی طور پر طہارت حاصل کر لینے کے بعد کسی کو شک ووہم پڑگیا کہ کسی وجہ سے اس کا وضو قائم نہیں رہا تو وہ کیا کرے؟اس بارے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ فِي بَطْنِهِ شَيْئًا فَأَشْكَلَ عَلَيْهِ أَخَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ أَمْ لا فَلا يَخْرُجَنَّ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا "

"جب کوئی شخص اپنے پیٹ میں بوجھ وغیرہ محسوس کرے پھر اسے شک پڑ جائے کہ پیٹ سے کوئی شے نکلی ہے یا نہیں تو وہ شخص آواز یا بو محسوس کیے بغیر (وضو کرنے کے لیے) مسجد سے باہر نہ نکلے۔"[7]

روایت مذکورہ اور اس موضوع  کی دیگر روایات سے یہ مسئلہ واضح ہوتا ہے کہ اگر کسی مسلمان کو اپنی طہارت پر پہلے یقین ہو پھر اسے زوال طہارت کا شک پڑجائے تو اس کی طہارت باقی رہے گی کیونکہ یہ اصلی اور یقینی حالت ہے جب کہ نقض طہارت مشکوک ہے اور شک سے یقین زائل نہیں ہوتا علاوہ ازیں یہ ایک عام اور عظیم قاعدہ ہے کہ ہر چیز اپنی اصلی حالت پر رہتی ہے جب تک کسی معقول وجہ سے اس کی مخالف حالت کا یقین نہ ہو۔ اسی طرح اس کے برعکس صورت ہے یعنی جب کسی شخص کو اپنی حالت حدث (وضو نہ رہنے) کا یقین ہواور طہارت میں شک ہوتو وہ وضو کر لے کیونکہ یہاں حدث اصل اور یقینی ہے جو شک و شبہ سے ختم نہ ہوگا۔

میرے مسلمان بھائی! نماز کے لیے طہارت کا اہتمام و انتظار کیجیے کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ شیطانی وسوسوں اور شیطان کے غلبہ سے خود کو بچانے کی فکرو کوشش کیجیے ۔ وہ آپ کی طہارت کے ٹوٹنے کا وسوسہ بار بار آپ کے سینے میں ڈالتا ہے اور پریشان کرتا ہے اس کی شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کیجیے اس کے وسوسوں کی طرف توجہ مت دیجیے ۔اہل علم سے طہارت کے مسائل پوچھیے تاکہ آپ کی بصیرت رہے۔ اپنے کپڑوں کو پاک و صاف رکھیے تاکہ آپ کی نماز صحیح اور عبادت درست ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوّ‌ٰبينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرينَ ﴿٢٢٢﴾... سورة البقرة

"بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔"[8]

اللہ تعالیٰ ہمیں علم نافع اور عمل صالح کی توفیق بخشے۔(آمین)


[1]۔المائدہ:5/6۔

[2]۔سنن ابی داؤد الطہارۃ باب اذا اقیلت الحیضہ تدع الصلاۃ حدیث : 286 وسنن الدارقطنی 1/206۔

[3]۔صحیح البخاری الحیل باب فی الصلاۃ ھدیث 6954وصحیح مسلم الطہارۃ باب وجوب الطہارۃ للصلاۃ حدیث 225۔

[4]۔صحیح البخاری الوضو باب لا یتوضا من الشک حتی یستیقن حدیث 137وصحیح مسلم الحیض باب الدلیل علی ان من تیقین الطہارۃ ثم شک فی الحدث فللہ ان یصلی یطہارۃ تلک حدیث 361۔

[5]۔سنن ابی داؤد الطہارۃ باب فی الوضو ء من النوم حدیث 200 وجامع الترمذی الطہارۃ باب ماجاء فی الوضو من النوم حدیث 78واصلہ فی صحیح مسلم الحیض باب الدلیل علی ان نوم الجالس لا ینقض الوضو ء حدیث 376۔

[6]۔صحیح مسلم الحیض باب الوضو من لحوم الابل حدیث 360۔عن جابربن سمرۃ وسنن ابی داؤد الطہارۃ باب الوضو ء من لحوم الابل حدیث 184 عن البراء

[7]۔صحیح مسلم الحیض باب الدلیل علی ان من تیقین الطہارۃ حدیث 362۔

[8]۔البقرۃ:2/222۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

جلد 01: صفحہ 55

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ