سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(245) قرآن کے سائے میں دلہن کی رخصتی؟

  • 23615
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1653

سوال

(245) قرآن کے سائے میں دلہن کی رخصتی؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل بعض گھرانوں میں یہ رواج ہے کہ دلہن کو قرآن کے سائے میں رخصت کیا جاتا ہے اور یہ اعتقاد رکھا جاتا ہے کہ اگر ہم اس کے سر پر قرآن کا سایہ کریں گے تو وہ سکھی رہے گی۔ کیا یہ عمل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسا کرنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و اہل بیت بھی تو اپنی بیٹیوں کو رخصت کرتے تھے مگر انہوں نے کبھی یہ کام نہیں کیا۔ دلہن کو دعا دیں اور کتاب و سنت کی تعلیمات پر عمل کرنے کی تلقین کریں تاکہ اللہ اسے سُکھ اور چین نصیب کرے۔ قرآن اس لیے نازل نہیں ہوا کہ اس سے سروں پر سایہ کیا جائے یا قسم کے وقت اٹھایا جائے۔ یہ تو پڑھنے اور عمل کرنے کے لیے ہے۔ اگر سر پر کرنے سے سُکھ چین نصیب ہوتا ہو تو کیا دولہا کو سُکھ اور چین کے حصول کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی! فافهم و تدبر !

البتہ دلہن کو رخصت کرتے وقت مسافر کو رخصت کرنے والی دعائیں پڑھ دی جائیں تو درست ہو گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسافر کو ودع کرتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے:

(استودع الله دينك و امانتك و خواتيم عملك)(ترمذي، الدعوات عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ما یقول الانسان اذا ودع انسانا، ح: 3442، 3443)

’’میں تیرا دین، تیری امانت (اہل و عیال وغیرہ) اور تیرا انجامِ کار اللہ کی حفاظت میں دیتا ہوں۔‘‘

ایک حدیث میں اخر کی جگہ پر خواتيم ہے۔ (ایضا)

مفہوم دونوں کا ایک ہے۔

رخصت ہونے والا دوسروں سے دعا بھی کروا سکتا ہے جیسے کہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! میں سفر پر جانا چاہتا ہوں، مجھے زادِراہ دیجیے۔ آپ نے دعا کی:

(زودك الله التقوى)

’’اللہ تجھے تقویٰ کا زادِراہ عطا کرے۔‘‘

اس نے عرض کیا اور زیادہ کیجیے۔ آپ نے دعا کی:

(و غفر ذنبك)

’’اللہ تیرے گناہ بخش دے۔‘‘

اس نے پھر عرض کیا، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! اور زیادہ کیجیے۔ آپ نے مزید دعا دی:

(ويسر لك الخير حيث ما كنت) (ایضا، ح: 3444)

’’تُو جہاں کہیں بھی ہو اللہ تیرے لیے خیر (بھلائی) آسان کر دے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

نکاح کے مسائل،صفحہ:534

محدث فتویٰ

تبصرے