السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ان دنوں (ذوالحجہ میں) لوگ دھڑا دھڑ شادیاں رچا رہے ہیں، جس کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ محرم میں شادیاں روک دی جاتی ہیں۔ کیا ماہِ محرم میں شادی نہیں کرنی چاہئے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام میں کوئی مہینہ ایسا نہیں جس میں شادی کرنا جائز نہ ہو۔ اگر شہادت یا حادثہ کی وجہ سے کسی مہینے میں شادی کرنا جائز نہ ہوتا تو پھر کوئی شادی منعقد ہی نہ ہو سکتی کیونکہ تاریخ اسلام کا کوئی مہینہ، کوئی ہفتہ بلکہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں کوئی نہ کوئی صدمہ مسلمانوں کو نہ پہنچا ہو۔
اگر کہا جائے کہ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے محرم میں شادی بیان کرنا جائز نہیں تو کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ صفر کے مہینے میں بھی شادی کرنا جائز نہیں کیونکہ اس ماہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے اس دارِ فانی سے رختِ سفر باندھا۔ ماہ صفر کا ایک اور سانحہ واقعہ رجیع (4 ہجری) بھی ہے قریش نے قبیلہ عضل اور قارہ کے ساٹھ آدمیوں کو ملا کر ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ ہمارے قبائل مشرف بہ اسلام ہونے کو تیار ہیں، آپ ہمارے ساتھ چند معلم روانہ کر دیں جو ہمیں اسلام کی تعلیم دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس معلم ان کے ہمراہ کر دیے جنہیں بعد ازاں دھوکے سے قتل کر دیا گیا۔ اسی ماہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ایک اور صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ قبیلہ بنی کلاب کے سردار عامر بن مالک کے مطالبے پر آپ نے ستر صحابہ کرام تعلیمِ دین کے لیے بھیجے جنہیں بنی عامر نے اپنے علاقے میں لے جا کر بئر معونہ کے مقام پر قتل کر دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس سانحے کا اتنا صدمہ ہوا کہ کبھی اتنا صدمہ نہیں پہنچا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک فرض نمازوں میں قاتلوں کے لیے قنوت نازلہ (کفار کے لیے بددعا) کرتے رہے۔ لہذا اِس مہینے میں بھی شادی کرنا ناجائز ٹھہرا! کیا کوئی اس کا قائل ہے؟
اسی طرز پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ذوالحجہ میں بھی شادی جائز نہیں کیونکہ اس مہینے میں خلیفہ سوم عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت واقع ہوئی تھی، مزید برآں اسی مہینے جنگ صفین کا المناک حادثہ وقوع پذیر ہوا، اس معرکہ میں صحابہ کرام کی کثیر تعداد خاک و خون میں لت پت ہو گئی، یہ سانحہ کسی صورت بھی سانحہ کربلا سے کم نہیں بلکہ صدمہ کے اعتبار سے واقعہ کربلا سے کہیں بڑھ کر ہے، واقعہ کربلا میں مسلمان باہم دست و گریباں ہوئے تھے اسی طرھ جنگ صفین میں بھی مسلمانوں کے مقابلے میں مسلمان ہی تھے۔
جنگ جمل میں جو ماہِ جمادیٰ ثانیہ میں پیش آئی تھی، عشرہ مبشرہ میں سے طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما سمیت تیری ہزار کے لگ بھگ مسلمان شہید ہوئے۔ اس افسوسناک حادثے کی بنا پر کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ جمادی ثانیہ میں شادی کرنا جائز نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات بھی اسی مہینے میں ہوئی تھی۔ رمضان المبارک میں خلیفہ چہارم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تھا۔
ماہ شوال میں غزوہ اُحد پیش آیا تھا جس میں اہل اسلام کا کافی جانی نقصان ہوا، تقریبا ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جام شہادت نوش کر گئے۔
رجب کے مہینے میں مسلمانوں کو کتنے صدمے سہنے پڑے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا، ام المومنین حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا اور ملتِ اسلامیہ کے عظیم سپوت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اسی ماہ اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔
اگر کسی المیہ کی وجہ سے کسی مہینے میں شادی کرنا ناجائز ہوتا تو وہ ربیع الاول کا مہینہ ہوتا کہ جس میں سید الانبیاء والمرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے، اس سانحے عظیم نے مسلمانوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم) کے ہوش و حواس اڑا دیے تھے۔ خلیفہ دوم عمر رضی اللہ عنہ جیسے جری جوان شدت غم و الم، فرط محبت و عقیدے اور عالَم وارفتگی میں اپنے ہوش کھو بیٹھے تھے جگر گوشہ رسول فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا پر رنج و الم کی بجلیاں ٹوٹ پڑی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے ان پر اس قدر مصائب و آلام کے پہاڑ گر پڑے کہ اگر وہ دنوں پر پڑتے تو دن سیاہ ہو کر راتوں میں بدل جاتے۔ کوئی اندازہ کر سکتا ہے غم کی شدت کا! واقعہ کربلا کا الم تو اس کا عُشر عشیر بھی نہیں۔ جب ایسے مہینے میں شادیاں کرنا درست ہیں تو اس کے مقابلے میں کسی اور مہینے یا حادثے کی حیثیت ہی کیا ہے؟
امِ حبیبہ اور صفیہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم میں شادی کی۔
محرم کو ماتمی مہینہ سمجھ کر شادیاں بند نہیں کرنی چاہئیں۔ اس خیالِ فاسد کو دل و دماغ سے نکال دینا چاہئے کہ محرم الحرام میں شادی کرنا درست نہیں۔ اس کے لیے عوام الناس کی سوچ کا صحیح رخ پر ڈالیں۔ محرم ماتمی مہینہ نہیں ہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر جو ماتم کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اسلام میں اس کی قطعا کوئی گنجائش نہیں، شریعت مطہرہ میں کسی بھی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں۔ عورت اپنے شوہر کی وفات پر اسلام کی حدود میں رہتے ہوئے چار مہینے دس دن سوگ کر سکتی ہے، صدیاں بیت جانے کے بعد بھی سوگ مناتے رہنا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب