السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا مزدلفہ کی رات سورج نکلنے سے پہلے جمرات کو کنکریاں مار لینا درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مزدلفہ سے مِنیٰ کی طرف فجر کی نماز پڑھ کر طلوعِ آفتاب سے پہلے پہلے روانہ ہو جانا سنت ہے۔ طلوعِ آفتاب کے بعد چلنا زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا طریقہ تھا۔
خواتین اور دیگر معذور افراد کو اجازت ہے کہ وہ تھوڑی دیر مزدلفہ میں ٹھہریں اور پھر منیٰ کی طرف روانہ ہو جائیں، وہ لوگ جو خواتین اور دیگر معذوروں کے ساتھ ہوتے ہیں انہیں پہلے روانہ ہو جانے کی اجازت ہے۔ یہ سب لوگ اگر رات کو ہی منیٰ پہنچ کر کنکریاں مار لین تو ان کی رمی درست ہو گی۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کے کمزور افراد کو پہلے ہی بھیج دیا کرتے تھے اور وہ رات ہی کو مزدلفہ میں مشعر الحرام کے پاس آ کر ٹھہرتے اور اپنی استطاعت کے مطابق اللہ کا ذکر کرتے۔ پھر امام کے ٹھہرنے اور لوٹنے سے پہلے ہی (منیٰ) آ جاتے تھے۔ بعض تو فجر کی نماز کے وقت منیٰ پہنچتے اور بعض اس کے بعد۔ جب وہ منیٰ پہنچتے تو کنکریاں مارتے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب لوگوں کے لیے یہ اجازت دی ہے۔
(بخاري، الحج، من قدم ضعفة اھله بلیل ۔۔، ح: 1676)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’میں ان لوگوں میں سے تھا جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے کمزور افرادکے ساتھ مزدلفہ کی رات ہی میں منیٰ بھیج دیا تھا۔‘‘(ایضا، ح: 1678)
اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا بھی رات کو کنکریاں مار کر واپس آ گئی تھیں۔ اس سلسلے میں صحیح بخاری کے مذکور بالا باب میں رمت الجمرة کے الفاظ موجود ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب