سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(162) کیا قصہ نجاشی سے غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال نہیں ہو سکتا؟

  • 23532
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 2288

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز نبوی نامی کتاب میں غائبانہ نماز جنازہ کے عنوان کے تحت لکھا ہے: غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے پر نجاشی کے قصہ سے دلیل لی جاتی ہے۔ یہ قصہ صحیح بخاری (1245،1318،1320،1327،1328،1333) اور صحیح مسلم (951) میں موجود ہے مگر اس سے غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ (ص: 296) کیا یہ درست ہے کہ قصہ نجاشی سے غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال کرنا صحیح نہیں؟ کیا کسی امام، محدث، فقیہ اور کسی معروف عالم دین یا مفتی نے اس قصے سے غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحمہ نجاشی کی (رجب 9 ھ میں) غائبانہ نماز جنازہ ادا کی تھی، جس سے غائبانہ نماز جنازہ کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ یہ استدلال بالکل درست ہے۔ اس کے خلاف کوئی بھی دلیل موجود نہیں۔

قدیم و جدید بے شمار علمائے امت نے قصہ نجاشی سے غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال کیا ہے۔ چند ایک کے استدلالات کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:

1۔ امام شافعی رحمہ اللہ (م 204) کے نزدیک غائبانہ نماز جنازہ قصہ نجاشی کی وجہ سے جائز ہے، لکھتے ہیں:

(ولا باس ان يصلى على الميت بالنية فقد فعل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنجاشى صلى عليه بالنية وقال بعض لا يصلى عليه بالنية وهذا خلاف سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم) (کتاب الام 240/1)

’’اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ کسی میت پر (اسے حاضر فی الذھن کر کے) صرف نیت ہی سے نماز جنازہ ادا کی جائے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کے جنازہ پر اسی طرح کیا تھا۔ آپ نے نیت سے ہی اس پر نماز جنازہ پڑھی تھی اور بعض نے کہا ہے کہ نیت سے میت پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے (یعنی نماز جنازہ غائبانہ نہ پڑھی جائے)۔ یہ بات سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔‘‘

2۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ (م 456ھ) المحلی (169/5) میں لکھتے ہیں:

"ويصلى على الميت الغائب بامام وجماعة قد صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على النجاشى ومات بارض الحبشة وصلى معه اصحابه عليه صفوفا وهذا اجماع منهم"

’’غائب میت پر باجماعت نماز جنازہ پڑھی جائے اور آپ کے صحابہ نے بھی آپ کی اقتداء میں نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی۔ یہ اجماع صحابہ ہے۔‘‘

3۔ امام بیہقی رحمہ اللہ (م 458ھ) کی حدیث نجاشی پر تبویب سے بھی قصہ نجاشی سے غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال ثابت ہوتا ہے۔ باب کے الفاظ یہ ہیں:

(باب الصلٰوة على الميت الغائب بالنية) (السنن الکبری 49/4)

’’غائب میت پر نیت سے ہی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔‘‘

4۔ شارح صحیح مسلم امام نووی رحمہ اللہ (م 676ھ) قصہ نجاشی سے غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال سے موافقت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"وفيه دليل للشافعى وموافقيه فى الصلٰوة على الميت الغائب"(شرح صحیح مسلم 309/1، قدیمی کتب خانہ، کراچی)

’’نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ سے متعلق حدیث میں امام شافعی اور ان سے موافقت کرنے والوں کے لیے غائبانہ نماز جنازہ کی دلیل پائی جاتی ہے۔‘‘

5۔ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ (م 702ھ) نے بھی قصہ نجاشی سے غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال کیا ہے، لکھتے ہیں:

"وفى الحديث دليل على جواز الصلوة على الغائب"(احکام الاحکام شرح عمدة الاحکام 230/3)

’’اس حدیث میں غائب میت پر نماز جنازہ پڑھنے کی دلیل ہے۔‘‘

6۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (م 852ھ) نے حدیث نجاشی سے غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال کو درست قرار دیا ہے، لکھتے ہیں:

(واستدل به على مشروعية الصلوة على الميت الغائب عن البلد وبه قال الشافعى و احمد و جمهور السلف حتى قال ابن حزم لم يات عن احد من الصحابة منعه) (فتح الباري 431/3)

’’حدیث نجاشی سے ملک میں غیر موجود میت پر نماز جنازہ پڑھنے کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے۔ امام شافعی، امام احمد اور جمہور سلف اسی کے قائل ہیں۔ ابن حزم نے تو یہاں تک کہا ہے کہ کسی ایک صحابی سے بھی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے سے منع کرنا مروی نہیں ہے۔‘‘

7۔ علامہ عینی رحمہ اللہ (م 755ھ) نجاشی سے متعلق حدیث میں لکھتے ہیں:

"فيه حجة لمن جوز الصلوة على الغائب ومنهم شافعى و احمد"(عمدۃ القاری 21/8)

’’اس حدیث میں غائبانہ نماز جنازہ کو جائز قرار دینے والوں کی دلیل ہے۔ ان (مجوزین) میں شافعی اور احمد (بن حنبل) بھی شامل ہیں۔‘‘

8۔ بلوغ المرام کے شارح علامہ محمد بن اسماعیل امیریمانی رحمہ اللہ (م 1182ھ) حدیث نجاشی سے استدلال کے بارے میں لکھتے ہیں:

فيه دلالة على شرعية صلوة الجنازة على الغائب(سبل السلام 101/2)

’’یہ حدیث غائبانہ نماز جنازہ کی دلیل ہے۔‘‘

9۔ شوکانی رحمہ اللہ (م 1250ھ) قصہ نجاشی سے غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال کے بارے میں رقمطراز ہیں:

(وقد استدل بهذه القصة القائلون بمشروعية الصلوة على الغائب عن البلد) (نیل الاوطار 53/4)

’’ملک سے غائب میت کی نماز جنازہ کے قائلین نے اس کے جواز پر نجاشی کے واقعہ سے استدلال کیا ہے۔‘‘

10۔ علامہ محمود سُبکی رحمہ اللہ (م 1352ھ) فرماتے ہیں:

وفى الحديث دلالة على جواز الصلوة على الميت الغائب(المنھل العذب المورود شرح ابوداؤد 49/9)

’’اس حدیث میں غائب میت پر نماز جنازہ کے جواز کی دلیل ہے۔‘‘

11۔مسند احمد کی شرح میں شیخ احمد عبدالرحمٰن الساعاتی لکھتے ہیں:

(وقصارى القول ان القائلين بمشروعية صلوة الجنازة على الغائب حجتهم اقوى لانها تتمشى مع الدليل بدون تكلف ولا تاويل) (بلوغ الامانی 223/7)

’’خلاصہ کلام یہ ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ کے جواز کے قائلین کی حجت زیادہ قوی ہے کیونکہ یہ بغیر کسی تکلف اور بغیر کسی تاویل کے دلیل ہے۔‘‘

12۔ موطا امام مالک کی شرح المصفٰى (199/1) میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ حدیث نجاشی کی روشنی میں رقمطراز ہیں:

"يتقدم الامام ويصف الناس خلفه ويكبرون اربع تكبيرات ولو على القبر او الغائب" 

’’نماز جنازہ میں امام آگے کھڑا ہو۔ دیگر لوگ اس کے پیچھے صفیں بنائیں اور چار تکبیریں کہیں اگرچہ یہ (نماز جنازہ) قبر پر ہو غائب پر۔‘‘

13۔ ڈاکٹر خلیل ہراس رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"وفد احتج بهذا الحديث من ذهب الى جواز الصلوة على الغائب وهو حجة قوية وهو الصحيح"(حاشیة الخصائص الکبری للسیوطی 372/2)

’’اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو غائب میت پر نماز جنازہ کے قائل ہیں اور یہ حجت قوی ہے اور یہی صحیح موقف ہے۔‘‘

14۔ شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

نماز جنازہ غائب پر پڑھنا درست ہے۔ اور دلیل میں انہوں نے حدیث نجاشی کو پیش کیا ہے۔ (دیکھیے فتاویٰ نذیریہ 398/1)

15۔ مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ سے غائبانہ نماز جنازہ کا ثبوت طلب کیا گیا تو انہوں نے جواب میں لکھا:

جنازہ غائب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی بادشاہ کا پڑھا اور اس کے بعد کسی روایت میں منع نہیں آیا لہذا یہ فعل سنت ہے۔ (فتاویٰ ثنائیہ 41/1)

16۔ حدیث نجاشی سے استدلال کرتے ہوئے علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میت غائب پر درست ہے۔

(شرح مؤطا امام مالک، ص: 191، اسلامی اکادمی، اردو بازار، لاہور)

17۔ نجاشی سے متعلق احادیث کی تشریح میں شارح صحیح بخاری مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ان سب حدیثوں سے میت غائب پر نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہوا۔ (بخاری 370/2، مکتبہ قدوسیہ، اردو بازار، لاہور)

18۔ مولانا محمود احمد میر پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

بہرحال اس حدیث سے غائبانہ نماز کا ثبوت ملتا ہے، اس کی وجہ یا علت کا کوئی ذکر نہیں آیا۔ (فتایوٰ صراط مستقیم، ص: 256، مکتبہ قدوسیہ، لاہور)

19۔ مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

اس سے معلوم ہوا کہ میت کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔

(نماز نبوی، ص: 296 (حاشیہ)، دارالسلام)

20۔ مولانا محمد عاصم الحداد رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

کسی میت کی غائبانہ نماز پڑھنا صحیح ہے۔ دلیل میں انہوں نے حدیث نجاشی کو پیش کیا ہے۔ پھر لکھتے ہیں:

نماز غائبانہ اسی طرح پڑھی جائے گی جس طرح سامنے رکھے ہوئے جنازہ کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ (فقہ السنۃ 450/1-451، ادارہ معارف اسلامی منصورہ، لاہور)

21۔ مدرس مسجد النبوی الشریف فضیلۃ الشیخ ابوبکر جابر جزائری لکھتے ہیں:

اسی طرح غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھنا جائز ہے۔ چاہے درمیان میں طویل مسافت ہو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی رضی اللہ عنہ کا جنازہ پڑھا تھا اور وہ حبشہ میں تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مدینہ میں تھے۔

(منہاج المسلم، ص: 406، مترجم: شیخ الحدیث مولانا محمد رفیق الاثری)

غائب میت کم فاصلے پر ہو یا زیادہ دُور ہو۔ جہت قبلہ میں یا بالعکس، اس سے غائبانہ نماز جنازہ کے جواز پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میت جس طرف بھی ہو نماز جنازہ پڑھنے والوں کے لیے قبلہ رخ ہونا ضروری ہے۔

22۔ شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

غائبانہ نماز جنازہ درست ہے خواہ شہید کی ہو خواہ غیر شہید کی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی اور شہداء اُحد کی آٹھ سال بعد نماز جنازہ پڑھی جو دونوں ہی غائبانہ ہیں۔ (احکام و مسائل 260/1، المکتبۃ الکریمیۃ، لاہور)

مولانا سے ایک مطالبہ یہ ہوا کہ نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ کے علاوہ اور مسلمانوں (صحابہ) کی غائبانہ نماز جنازہ کے حوالہ جات تحریر کریں تو آپ نے جواب میں لکھا:

نجاشی کے غائبانہ جنازہ والی حدیث کے علاوہ غائبانہ جنازہ کی احادیث پیش کرنے کی ضرورت تب ہے جب نجاشی کے غائبانہ نماز جنازہ والی حدیث ثابت نہ ہو یا اس سے غائبانہ نماز جنازہ ثابت نہ ہوتی ہو۔ تو جب نجاشی کے غائبانہ نماز جنازہ والی حدیث ثابت ہے۔ بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے اور اس سے غائبانہ نماز جنازہ ثابت ہو رہی ہے تو عمل کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے۔ اس کے علاوہ احادیث پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (ایضا)

23۔ غائبانہ نماز جنازہ کی شرعی حیثیت کے بارے میں حافظ عبدالستار حماد حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ہمارا رجحان جواز کی طرف ہے۔ دلیل میں قصہ نجاشی والی احادیث پیش کرتے ہیں۔ (فتاویٰ اصحاب الحدیث 164/1-165، مکتبہ اسلامیہ، اردو بازار، لاہور)

24۔ مسئلہ 435 کے تحت مولانا محمد اقبال کیلانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:

غائبانہ نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے۔ مولانا کیلانی دلیل میں نجاشی سے متعلق متفق علیہ حدیث پیش کرتے ہیں۔ (کتاب الصلوۃ، ص: 161، سعودی عرب)

المختصر، بےشمار ائمہ دین اور علمائے امت حدیث نجاشی سے غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال کرتے ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

نماز جنازہ کے مسائل،صفحہ:411

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ