سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(160) بچے کی نماز جنازہ پڑھنا ضروری نہیں؟

  • 23530
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 726

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک بچہ اپنی پیدائش کے دو تین گھنٹے بعد فوت ہو گیا، لوگ امام مسجد کے پاس گئے تاکہ وہ اس کی نماز جنازہ پڑھائے تو امام صاحب فرمانے لگے کہ نماز جنازہ پڑھنے کی ضرورت نہیں، اس کے لیے دعائے خیر کر لینا۔ لوگوں نے بچے کو نماز جنازہ پڑھے بغیر دفن کر دیا، عوام الناس میں طرح طرح کی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ کیا امام صاحب کا طرز عمل درست تھا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وہ بچہ جو زندہ پیدا ہوا ہو اُس کی نماز جنازہ پڑھنا مشروع ہے۔ بلکہ وہ بچہ جس میں روح پھونکی جا چکی ہو اگر وہ مردہ پیدا ہو تو اس کی بھی نماز جنازہ پڑھنا مشروع ہے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(الراكب يسير خلف الجنازة والماشى يمشى خلفها و امامها وعن يمينها وعن يسارها قريبا منها والسقط يصلى عليه ويدعى لوالديه بالمغفرة والرحمة)(ابوداؤد، الجنائز، المشی امام الجناز، ح: 3180، نسائي، ح: 1942)

’’سوار جنازہ کے پیچھے چلے، جب کہ پیدل آگے، پیچھے اور دائیں بائیں اس کے قریب چلیں اور سقط (ناتمام بچہ) پر بھی نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کے والدین کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کی جائے۔‘‘

ایک حدیث میں (والطفل يصلى عليه) (بچے پر نماز جنازہ پڑھی جائے) کے الفاظ ہیں۔ (ترمذي، الجنائز، ما جاء فی الصلاۃ علی الاطفال، ح: 1031)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تعلیقا روایت کیا ہے کہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

(يقرأ على الطفل بفاتحة الكتاب و يقول: اللهم اجعله لنا سلفا و فرطا واجرا) (بخاري، الجنائز، قراءة فاتحة الکتاب علی الجنازة)

’’بچے کی نماز جنازہ میں پہلے سورۃ الفاتحہ پڑھی جائے (جیسے بڑوں کے لیے پڑھی جاتی ہے) اور پھر یہ دعا اللهم ۔۔۔۔ واجرا  پڑھی جائے (جس کا ترجمہ یہ ہے) "یا اللہ! اس بچے کو ہمارے لیے آگے چلنے والا، پیش رو (میرِ سامان) اور باعث اجر بنا۔‘‘

اس روایت سے بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔

ملحوظہ: سلف اس مال کو کہتے ہیں جو آدمی فائدے کے لیے آگے بھیجتا ہے اور فرط اس شخص کو کہتے ہیں جو لشکر سے آگے جا کر اُس کے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے، تو گویا جو بچے فوت ہو جاتے ہیں وہ اپنے والدین کے نفع بخش مال کی طرح ہوتے ہیں جو اُن کے آگے جاتا ہے نیز وہ اپنے والدین کے لیے اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ انہیں راحت و نجات حاصل ہو نیز بچے کی وفات پر اس کے والدین صبر کرتے ہیں تو انہیں اجر ملتا ہے حتی کہ باقی لوگوں کو حکم ہے کہ وہ اس بچے کے والدین کے لیے بھی رحمت و مغفرت کی دعا کریں جیسا کہ اوپر حدیث میں گزرا۔

البتہ یہ بات واضح رہے کہ بچے کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے فرض و واجب نہیں کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرزند ابراہیم رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

"مات ابراهيم بن النبي صلى الله عليه وسلم وهو ابن ثمانية عشر شهرا فلم يصل عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم(ابوداؤد، الجنائز، فی الصلاۃ علی الطفل، ح: 3187)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم نے ڈیڑھ سال کی عمر میں وفات پائی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

نماز جنازہ کے مسائل،صفحہ:406

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ