سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(151) صفوں میں دائیں طرف کھڑا ہونا کیوں افضل ہے؟

  • 23521
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-09
  • مشاہدات : 2200

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم نے مجلہ دعوۃ التوحید میں پڑھا کہ حالتِ نماز میں صفوں میں داءیں طرف کھڑا ہونا زیادہ بہتر ہے مگر ہم نے بعض علماء کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مسجد نبوی میں بائیں طرف کھڑے ہونے کا اجر زیادہ ہے کیونکہ اس طرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سامنے آتی ہے۔ آپ ہماری راہنمائی کریں کہ بحالت نماز صفوں میں دائیں طرف کھڑے ہونے کی فضیلت مسجد نبوی میں حاصل نہیں ہوتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامی میں دائیں طرف کو عموما فوقیت حاصل ہے۔ ایسے تمام کام جو زینت، عزت یا شرف کا باعث ہوں انہیں دائیں طرف سے شروع کرنا چاہئے۔ جیسے لباس پہننا، مسجد میں پاؤں رکھنا، سرمہ لگانا، کھانا کھانا، کسی کو کوئی چیز پکڑانا یا لینا، اسی طرح جوتا پہننا، کنگھی کرنا اور وضو کرنا وغیرہ۔ حدیث نبوی ہے:

"كان النبى صلى الله عليه وسلم يحب التيمن ما استطاع فى شانه كله فى طهوره وترجله وتنعله(بخاري، الصلاة، التیمن فی دخول المسجد وغیرہ، ح:426، مسلم، ح:268، ترمذي، ح:608)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام کاموں میں اپنی استطاعت کے مطابق دائیں طرف سے شروع کرنا پسند کرتے، وضو کرنے میں، کنگھی کرنے میں اور جوتا پہننے میں۔‘‘

اسی بنا پر جنت والوں کو اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) کہا گیا ہے۔

نماز میں بھی یہی اصول ہے۔ اور دائیں طرف کو پسند کیا گیا ہے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ان الله وملائكته يصلون على ميامن الصفوف)(ابوداؤد، الصلاۃ، الصف بین السواري، ح:676)

اسے سفیان ثوری (مدلس) نے عنعن سے بیان کیا ہے۔)

’’صفوں میں دائیں طرف کھڑے ہونے والوں پر اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل کرتا ہے اور فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔‘‘

بعض احادیث میں پہلی صفوں کے لیے رحمت کا اعلان کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں تمام صفوں کی دائیں طرف کے لیے اعلانِ رحمت کیا گیا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ ہر صف کی دائیں طرف اس کی بائیں طرف سے افضل ہے۔ اور یہ حکم تمام مساجد کے لیے ہے۔ مسجد نبوی کو اِس حکم سے مستثنیٰ کرنے کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں۔ بلکہ یہ حکم اور فضیلت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنیادی طور پر مسجد نبوی کے لیے ہی بیان کی تھی اور باقی مساجد ضمنا اس حکم میں داخل ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے وقت جس چیز کا وجود ہی نہیں تھا وہ اس حکم کا سبب نہیں ہو سکتی، یہ ظاہر ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا فضیلت بیان کی تھی اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک بنی ہی نہیں تھی! لہذا جو علماء مسجد نبوی میں بائیں طرف کھڑے ہونے کو ترجیح دیتے ہیں ان کا قول بے دلیل اور غلو فی الدین کے مترادف ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اذان و نماز،صفحہ:385

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ