سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(143) نماز چوری سے روک دے گی!

  • 23513
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 1689

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دفتر میں ایک صاحب نماز پڑھنے والوں پر برس پڑے کہ تمہاری نمازوں کا کیا فائدہ جب آپ غلط کام ترک نہیں کرتے۔ تم سے ہم بے نماز ہی اچھے ہیں جو گناہ کے کاموں سے بچتے ہیں۔ میں نے کہا کہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں مگر نماز نہیں چھوڑنی چاہئے۔ ایک آدمی نماز بھی پڑھتا تھا اور چوری بھی کرتا تھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی نماز اسے چوری سے روک دے گی۔" بےنماز کہنے لگا: ایسی کوئی بات نہیں۔ اس گفتگو کو مدنظر رکھتے ہوئے راہنمائی کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز برے کاموں سے روکتی ہے، جیس کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ إِنَّ الصَّلو‌ٰةَ تَنهىٰ عَنِ الفَحشاءِ وَالمُنكَرِ ...﴿٤٥﴾... سورة العنكبوت

’’یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘

ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿ إِنَّ الإِنسـٰنَ خُلِقَ هَلوعًا ﴿١٩ إِذا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزوعًا ﴿٢٠ وَإِذا مَسَّهُ الخَيرُ مَنوعًا ﴿٢١ إِلَّا المُصَلّينَ ﴿٢٢ الَّذينَ هُم عَلىٰ صَلاتِهِم دائِمونَ ﴿٢٣﴾... سورة المعارج

’’بےشک انسان بڑے کچے دل والا بنایا گیا ہے۔ جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑ بڑا اُٹھتا ہے اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے، مگر وہ نمازی (ایسے نہیں ہوتے) جو اپنی نماز پر ہمیشگی کرنے والے ہیں۔‘‘

شعیب علیہ السلام نے جب غیراللہ کی عبادت، ماپ تول میں کمی بیشی کے ذریعے لوگوں کی حق تلفی کرنے سے اپنی قوم کو منع کیا اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نفع پر اکتفا کرنے کی تلقین کی تو قوم نے اُن کا مذاق اُڑایا:

﴿قالوا يـٰشُعَيبُ أَصَلو‌ٰتُكَ تَأمُرُكَ أَن نَترُكَ ما يَعبُدُ ءاباؤُنا أَو أَن نَفعَلَ فى أَمو‌ٰلِنا ما نَشـٰؤُا۟ إِنَّكَ لَأَنتَ الحَليمُ الرَّشيدُ ﴿٨٧﴾... سورة هود

’’انہوں نے جواب دیا: شعیب! کیا تیری صلوٰۃ (عبادت) تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں اس کا کرنا بھی چھوڑ دیں تو بڑا ہی باوقار اور نیک چلن آدمی ہے!‘‘

شعیب علیہ السلام کی مشرک، حرام خور اور مفسد قوم کا خیال یہ تھا کہ نماز (عبادت) کا دیگر اعمال زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جو آج بھی بعض لوگوں میں پائی جاتی ہے، جو کہتے ہیں کہ نماز اپنی جگہ پر اور باقی کام اپنی جگہ پر۔ جبکہ قرآن کی مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا انسان کے اخلاق و کردار اور اس کی معاشی و معاشرتی زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ہے مگر اس گہرے تعلق کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نمازی سے گناہ کا ارتکاب ہو ہی نہیں سکتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بعض ایسے لوگوں پر حد کا نفاذ کیا گیا تھا جو نمازی بھی تھے۔

وہ لوگ جو نماز کی صحیح معنوں میں پابندی کرنے والے ہوں، وہ برائیوں اور گناہوں پر اصرار کرنے والے نہیں ہوتے، اگر کہیں شیطان کا حملہ ان پر ہوتا ہے، تو وہ نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے چوکنا ہو جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ نافرمانی ہو جانے کی وجہ سے نماز بھی چھوڑ دیتے ہوں۔ فرض نماز کا چھوڑنا بذات خود گناہ کبیرہ ہے۔

مزید برآں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نماز گناہوں کو دُور کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَقِمِ الصَّلو‌ٰةَ طَرَفَىِ النَّهارِ وَزُلَفًا مِنَ الَّيلِ إِنَّ الحَسَنـٰتِ يُذهِبنَ السَّيِّـٔاتِ ذ‌ٰلِكَ ذِكرىٰ لِلذّ‌ٰكِرينَ ﴿١١٤﴾...سورة هود

’’دن کے دونوں سروں میں نماز قائم رکھ اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی۔ یقینا نیکیاں برائیوں کو دُور کر دیتی ہیں، یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لیے۔‘‘

احادیث میں اس سلسلے کی بہت تفصیلات بیان کی گئی ہیں، ارشاد نبوی ہے:

(الصلوات الخمس والجمعة الى الجمعة ورمضان الى رمضان مكفرات ما بينهن اذا اجتنب الكبائر)(مسلم، الطھارة، الصلوات الخمس والجمعة الی الجمعة ۔۔، ح: 233)

’’پانچ نمازیں، جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ان کے مابین ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔‘‘

(بعض دیگر احادیث کے لیے دیکھیے (بخاري، مواقیت الصلاة، الصلوت الخمس کفارة، ح: 528، مسلم، المساجد، مشی الی الصلوة یمحی بہ الخطایا و ترفع به الدرجات، ح: ح: 666-667)

نماز پڑھنے والے اگر گناہ کے کام چھوڑنا چاہتے ہوں تو نماز اس سلسلے میں  ان کی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا: فلاں شخص رات کو نماز پڑھتا ہے، مگر جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(انه سينهاه ما يقول)

’’اس کا یہ عمل عنقریب اسے اس (چوری) سے روک دے گا۔‘‘

یہاں یہ بات قابل غور ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ نماز بھی چھوڑ دے، بلکہ یہ نوید سنائی کہ اس کی نماز اسے چوری سے عنقریب روک دے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نماز کی پابندی کرنے اور اس کے پیغام پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا کرے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اذان و نماز،صفحہ:373

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ