سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(140) کیا قضا عمری کی کوئی شرعی دلیل ہے؟

  • 23510
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 811

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا قضا عمری شریعت مطہرہ سے ثابت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وہ لوگ جن پر نماز فرض ہو جاتی ہے لیکن وہ ادا نہیں کرتے مگر جب وہ باقاعدہ نمازی بن جاتے ہیں تو ان کی جو نمازیں رہ گئی ہوتی ہیں ان کی ادائیگی کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک نماز کے ساتھ ایک قضا نماز بھی ادا کر لی جائے۔ مثلا اگر ظہر کی نماز پڑھ رہے ہیں تو ظہر کی قضا نماز بھی ادا کر لی جائے۔ مگر اس کی شریعت میں کوئی دلیل اور بنیاد نہیں ہے، بلکہ یہ شریعت کے خلاف ہے۔ جو نماز رہ جائے اس کی ادائیگی کے لیے شریعت نے یہ بیان کیا ہے کہ اسے فوری طور پر ادا کیا جائے۔ زندگی پر بھروسہ نہ کیا جائے، مثلا اگر چار نمازیں (ظہر، عصر، مغرب، عشاء) چُھوٹ گئی ہیں تو بجائے اس کے کہ انہیں کل تک مؤخر کیا جائے کہ ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کے ساتھ ایک ایک کر کے پڑھ لی جائے، انہیں فوری ادا کر لینا چاہئے جیسا کہ غزوہ احزاب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی چار نمازیں رہ گئی تھیں تو انہوں نے انہیں موقع ملتے ہی ایک ساتھ ادا کر لیا تھا۔

اگر ایک شخص نے بدقسمتی سے عرصہ دراز تک نماز نہیں پڑھی یا کبھی پڑھتا رہا کبھی چھوڑتا رہا، یا بعض نمازیں پڑھتا رہا مگر بعض سے لاپرواہی اختیار کرتا رہا تو دریں صورت اسے چاہئے کہ صدق دل سے اپنے گناہوں کی اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرے اور آئندہ نماز ترک نہ کرنے کا پختہ عزم کرے۔ یقینا اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے۔

مذکورہ حالات میں چُھوٹی ہوئی نمازوں کی ادائیگی نہیں ہو سکتی کیونکہ آدمی کو حتمی طور پر علم ہی نہیں کہ اس کی کتنی نمازیں چُھوٹی ہیں۔

بعض لوگ ایک اور مختصر راستہ اختیار کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں قضا عمری یعنی ساری عمر کی چُھوٹی ہوئی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ اختیار کرتے ہیں کہ پانچ نمازیں پڑھ کر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ " جمعة الوداع" کی برکت سے اللہ تعالیٰ گزشتہ زندگی کی چُھوٹی ہوئی نمازیں بھی قبول کر لیتا ہے۔ یہ عمل یقینا مضحکہ خیز اور عقل سلیم کے خلاف ہے۔ شریعتِ بیضاء (روشن شریعت) میں اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم نے اس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ ایک اور بات جو قابل غور ہے کہ "جمعۃ الوداع" کا جو تصوربرصغیر پاک وہند میں پایا جاتا ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ عہد نبوی اور عید صحابہ و تابعین میں یہ جمعہ بھی رمضان المبارک کے باقی جمعوں کی طرح گزر جاتا۔ اس کے لیے کبھی کسی نے خصوصی اہتمام نہیں کیا تھا۔

پھر یہ بات بھی توجہ چاہتی ہے کہ بعض اوقات رمضان کے آخری جمعہ کے بارے میں یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ آخری ہے۔ مثلا اگر رمضان کی 23 تاریخ کو جمعہ آتا ہے، اب آپ شک میں مبتلا ہیں کہ شاید یہ آخری جمعہ ہے۔ اب اگر آپ اس جمعہ کو یہ قضا عمری نہیں کرتے کہ 30 رمضان کو آخری جمعہ ہو گا لیکن رمضان المبارک 29 دن کا ہو جاتا ہے تو پھر آپ کیا کریں گے؟ خدارا! اپنی طرف سے شریعت سازی نہ کریں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اذان و نماز،صفحہ:366

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ