سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(139) نماز باجماعت میں شرکت کریں یا مریض دیکھیں؟

  • 23509
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 674

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا کلینک مسجد کے بالکل سامنے ہے، میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ نماز باجماعت ادا کروں، لہذا اذان سنتے ہی مسجد میں چلا جاتا ہوں، وضو کرتے وقت یا سنتیں ادا کرنے کے وقت مسجد کا گن مین یا کوئی اور نمازی پیغام دیتا ہے کہ آپ کی دکان کے باہر عورتیں (مریض) کھڑی ہیں۔ میں اکثر کہہ دیتا ہوں کہ نماز پڑھ کر آتا ہوں، بعض نمازی حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ آپ غلط کر رہے ہیں کیونکہ یہ بھی عبادت ہے۔ اکثر اوقات میں دکان پر چلا جاتا ہوں، لیکن دل مطمئن نہیں ہوتا، کیونکہ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ مریض کو چیک کرتے وقت یا دوا دیتے وقت کوئی اور مریض آ گیا تو پھر جماعت گزر گئی۔ مجھے بعد میں اکیلے نماز ادا کرنا پڑتی ہے، امام صاحب سے اس مسئلہ پر بات ہوئی تو انہوں نے یہ حدیث سنا دی کہ جب دوران نماز کسی بچے کے رونے کی آواز آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ہلکی کر دیتے تھے۔ مجھے اس صورت حال میں کیا کرنا چاہئے، یاد رہے کہ میرے پاس کوئی ملازم بھی نہیں ہے، اگر ہوتا تو میں اس کے لیے بھی اس بات کو ترجیح دیتا کہ وہ بھی باجماعت نماز ادا کرے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز باجماعت ادا کرنے کی اسلام میں بہت تاکید آئی ہے، اللہ رب العزت نے نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم﴿وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ ﴿٤٣﴾..البقرة: 43/2) کے الفاظ سے دیا ہے، جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگانے کا ارادہ کر لیا تھا جو جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے۔ (بے قصور بچوں اور عورتوں کی وجہ سے آپ نے یہ ارادہ ترک کر دیا تھا۔) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(والذي نفسي بيده لقد هممت أن آمر بحطب ليحطب ، ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها ، ثم آمر رجلا فيؤم الناس ، ثم أخالف إلى رجال فأحرق عليهم بيوتهم)(بخاري، الاذان، وجوب صلوة الجماعة، ح: 644، مسلم، المساجد، فضل صلوٰة الجماعة، ح: 651)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جن ہے، میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کا حکم دوں، اس کی اذان دی جائے، پھر ایک شخص کو کہہ دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں انہیں پیچھے چھوڑ کر ان لوگوں کے پاس جاؤں تو (جو جماعت میں حاضر نہیں ہوئے) ان کے گھر جلا دوں۔‘‘

ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی شخص جماعت پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دے گا۔ مریضوں کو چیک کرنا جہاں خدمت خلق ہے وہاں کاروبار بھی ہے، کاروبار، بیع و شراء (خریدوفروخت) اور دکانداری پر نماز باجماعت مقدم ہے، حالانکہ یہ بھی عبادت ہے، بشرطیکہ کرنے والے کی نیت خالص ہو اور وہ باقی شرعی پابندیوں کا لحاظ رکھتا ہو، ورنہ یہ "عبادت" تو کفار بھی کرتے ہیں۔ یہ سوچنے کی بات ہے اگر ڈاکٹر صاحب کو اپنا ذاتی کام ہو مثلا کوئی شادی وغیرہ کی تقریب ہے یا انہوں نے آرام کے لیے دکان بند کر دی ہو تو کیا آپ ڈاکٹر صاحب کو یہی مشورہ دیں گے کہ 24 گھنٹے کلینک پر رہیں (عبادت کریں!) آرام نہ کریں۔ کیونکہ مریض آئے ہوئے ہیں؟ تو کیا نماز باجماعت کی انسان کے اپنے ذاتی کام جتنی بھی اہمیت نہیں۔ البتہ اگر ہنگامی حالت ہو تو ایسی صورت میں نماز تاخیر سے بھی پڑھی جا سکتی ہے کیونکہ ایمرجنسی میں شریعت رخصت دیتی ہے، ایسے احکام کو فقہاء احکام الطواری کا نام دیتے ہیں۔ کہ جن میں بعض حرام چیزیں بھی مباح ہو جاتی ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کس قدر ایمرجنسی پر رخصت ملتی ہے؟ اس کا اندازہ کرنے کے لیے سورۃ النساء (آیت: 102) کا مطالعہ کریں۔ کہ جہاں صلاۃ الخوف کا بیان ہے، دشمن کے ساتھ جنگ جاری ہو تب بھی حتی الوسع کوشش کریں کہ باجماعت نماز ادا کی جائے۔

ملحوظہ: محترم امام صاحب کا اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں کہ "جب دوران نماز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو آپ نماز ہلکی کر دیتے تھے" کیونکہ یہ اختیاری کام ہے، اگر کوئی امام بچے کے رونے کے بغیر بھی ہلکی نماز پڑھائے تو اسے بھی اجازت ہے، بلکہ عام طور پر ہلکی نماز پڑھانے کی ہی تلقین ہے۔ یہ جو احادیث میں ہے کہ سیدنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ لمبی نماز پڑھانے کا ارادہ کرتے مگر کسی بچے کے رونے کی وجہ سے نماز مختصر کر دیتے، یہ اس لیے تھا کہ بچے کی ماں کو پریشانی اور تکلیف نہ ہو۔

چونکہ عورتیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے باجماعت نماز پڑھتی تھیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طرزِ عمل اختیار کیا، اگر بچے کی ماں نماز نہ پڑھ رہی ہو اور اس کا بچہ رونے لگے یا مسجد کے پڑوس میں کسی بچے کے رونے کی آواز آئے تو کیا اس وقت بھی امام صاحب کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز مختصر کر دے، ظاہر بات ہے کہ اس کی نوعیت مختلف ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اذان و نماز،صفحہ:364

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ