سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(85) سجودِ تلاوت کی تعداد اور مقامات؟

  • 23455
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 9381

سوال

(85) سجودِ تلاوت کی تعداد اور مقامات؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن مجید میں تلاوت کے کتنے سجدے ہیں؟ کچھ لوگ 14 جبکہ بعض 15 سجدوں کے قائل ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح موقف کے مطابق سجود تلاوت کی کل پندرہ ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔ ’’عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن میں پندرہ سجدے پڑھائے، جن میں سے تین مفصل سورتوں میں جبکہ دو سجدے سورۃ الحج میں ہیں۔‘‘

(ابوداؤد، سجود القرآن، تفریع ابواب السجود و کم سجدة فی القرآن، ح: 1401، ابن ماجه، اقامة الصلوات، عدد سجود القرآن، ح: 1057)

نوٹ: مفصل سورتوں سے مراد سورۃ الحجرات سے لے کر سورۃ الناس تک کی سورتیں ہیں۔ ان میں سورۃ النجم، الانشقاق اور العلق میں سجدہ تلاوت ہے۔

بعض محققین نے اس حدیث کو ضعیف جبکہ امام نووی اور منذری نے حسن قرار دیا ہے۔ احناف کے نزدیک سجود تلاوت کی تعداد چودہ ہے۔ وہ سورۃ الحج کے دوسرے سجدے کے قائل نہیں۔ جبکہ عقبہ بن عامر فرماتے ہیں: میں نے اللہ کے رسول سے پوچھا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا سورۃ الحج میں دو سجدے ہیں؟ آپ نے فرمایا:

(نعم، ومن لم يسجدهما فلا يقرأهما) (ابوداؤد، سجود القرآن، تفریع ابواب السجود و کم سجدۃ فی القرآن، ح: 1401، ترمذی، الصلاة، ما جاء فی السجدة فی الحج، ح: 578)

’’ہاں! جو یہ دو سجدے نہ کرے وہ ان کی تلاوت ہی نہ کرے۔‘‘

یہ حدیث حسن درجے کی ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو تعلیقات المشکاۃ (الصلاۃ، ح: 1030) میں صحیح قرار دیا ہے۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ سورۃ الحج (آیت: 18) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث قوی ہے لیکن امام صاحب رحمہ اللہ کا یہ قول قابل غور ہے کیونکہ اس کے راوی ابن لہیعہ رحمہ اللہ نے اپنی سماعت کی اس میں تصریح کر دی ہے اور اُن پر بڑی جرح کی گئی ہے۔ جو اس سے اٹھ جاتی ہے۔ ابوداؤد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ سورۃ الحج کو قرآن کی اور سورتوں پر یہ فضیلت دی گئی ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سند سے تو یہ حدیث مستند نہیں لیکن اور سند سے یہ مسند بھی بیان کی گئی ہے مگر صحیح نہیں۔ مروی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے حدیبیہ میں اس سورت کی تلاوت کی اور دو بار سجدہ کیا اور فرمایا: اسے ان دو سجدوں سے فضیلت دی گئی ہے۔ (ابوبکر بن عدی) عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے قرآن میں پندرہ سجدے پڑھائے، تین مفصل سورتوں میں سو دورۃ الحج میں۔ (ابن ماجہ و دیگر) پس یہ سب روایتیں اس بات کو پوری طرح مضبوط کر دیتی ہیں۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر)

صحابہ کے عمل سے بھی سورۃ الحج میں دو سجدوں کے موقف کی تائید ہوئی ہے۔ ایک مصری آدمی نے بتایا کہ عمر بن خطاب نے سورۃ الحج کی تلاوت کی تو اس میں دو سجدے کئے، پھر فرمای: اس سورت کو دو سجدوں سے فضیلت عطا کی گئی ہے۔ (مؤطا، القرآن، ماجاء فی سجود القرآن، ح: 479)

’’عبداللہ بن دینار فرماتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ سورۃ الحج میں دو سجدے کرتے تھے۔‘‘ (ایضا، ح: 480)

ان دلائل کے ہوتے ہوئے بعض لوگوں کا یہ کہنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا کہ سورۃ الحج (آیت: 77) میں خاص طور پر سجدہ کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ عام نیکیوں کا حکم دیا گیا ہے، نیکیوں میں ایک نیکی سجدہ بھی ہے۔ نیز یہ استدلال بھی حقیقت سے دُور ہے کہ سورۃ الحج میں دوسرا سجدہ سجدہ تلاوت نہیں کیونکہ اس آیت میں رکوع اور سجدہ دونوں کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے آیت میں گویا نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

سجدہ یقینا نیکی ہے مگر سجدہ تلاوت کر لینے سے اس نیکی پر کیا حرف آتا ہے؟ اسی طرح اگر بالفرض نماز پڑھنے کا ہی حکم دیا گیا ہے تو اس سے سجدہ تلاوت کی نفی کیسے نکل آئی؟ سورۃ الحج کے دوسرے سجدے کے منکرین کی مذکورہ بالا قیاس آرائیاں بالکل قابل توجہ نہیں ہیں۔ اس لیے کہ جو بات سورۃ الحج کے دوسرے مقام سجدہ تلاوت کے بارے میں کہی گئی ہے وہی سورۃ الاعراف (آیت: 206) اور سورۃ النجم (آیت: 62) کے مقامات سجدہ کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ کیونکہ ان مقامات پر بھی سجدہ کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود احناف سورۃ ص کے سجدے کے قائل ہیں۔ آکر سورۃ الحج کا دوسرا سجدہ تسلیم کرنے میں کیا امر مانع ہے؟

شوافع کے نزدیک بھی قرآن مجید میں چودہ سجدے ہیں۔ وہ سورۃ الحج کے دو سجدوں کے تو قائل ہیں مگر سورۃ ص کے سجدے کے قائل نہیں حالانکہ سورۃ ص کی تلاوت کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سجدہ تلاوت کیا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

سورۃ ص کا سجدہ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں ہے البتہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

’’تاکیدی سجدوں میں نہیں ہے‘‘ کا مفہوم یہ ہے یہاں آیت سجدہ میں سجدہ کرنے کی تلقین نہیں ہے بلکہ یہاں داؤد علیہ السلام کی توبہ کا تذکرہ ہے۔ اللہ نے ان کی توبہ قبول کی۔ انہی کی سنت پر چلتے ہوئے ہم بھی شکر کے لیے یہ سجدہ کرتے ہیں۔ جب نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سجدہ کیا تو آپ کی اتباع میں ہمارے لیے بھی یہ سجدہ کرنا مسنون قرارپایا۔ ایک لمبی حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے برسر منبر سورۃ ص کی تلاوت کی، آیت سجدہ پر پہنچے تو آپ نے منبر سے اتر کر سجدہ تلاوت ادا کیا۔

مالکیہ کے نزدیک سورۃ النجم، الانشقاق اور العلق کے سجدے منسوخ ہیں، اس طرح ان کے نزدیک سجودِ تلاوت کی تعداد گیارہ رہ جاتی ہے مگر یہ موقف درست نہیں کیونکہ اس کی بنیاد ایک ضعیف روایت پر رکھی گئی ہے۔ (دیکھیے ابوداؤد: 1403)

نیز صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سورتوں میں تلاوت کے سجدے کئے ہیں۔ (مسلم، ح: 574، ابوداؤد: 1407)

سورۃ النجم کے سجدے کے بارے میں عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے النجم کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا۔ اس وقت قوم کا کوئی فرد (مسلمان یا کافر) بھی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ البتہ ایک شخص نے ہاتھ میں کنکری یا مٹی لے کر اپنے چہرہ تک اٹھائی اور کہا کہ میرے لیے یہی کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بعد میں میں نے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت ہی میں قتل ہوا۔ (یہ امیہ بن خلف تھا۔)‘‘

(بخاري، سجود القرآن، سجدة النجم، ح: 1070، مسلم، المساجد، سجود التلاوة، ح: 574، ابوداؤد، سجود القرآن، من رای فیھا سجودا، ح: 1406)

سورۃ الانشقاق کے سجدے کے بارے میں ابو رافع بیان کرتے ہیں:

’’میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز عشاء پڑھی۔ آپ نے ﴿إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ﴾کی تلاوت کی اور سجدہ کیا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ انہوں نے اس کا جواب دیا: میں نے اس میں ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں سجدہ کیا تھا اور ہمیشہ سجدہ کرتا رہوں گا تاآنکہ آپ سے جا ملوں۔‘‘

(بخاري، سجود القرآن، من قرا السجدة فی الصلاة فسجد بھا، ح: 1078، نیز دیکھیے ح: 1074، مسلم، ایضا، ح: 578، ابوداؤد، سجود القرآن، سجود فی إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ ، اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ، ح: 1408، ترمذي، السفر، فی السجدۃ فی إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ ، اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ، ح: 573، نسائي: 965، ابن ماجه، ح: 1058)

بعض احادیث میں سورۃ الانشقاق کے سجدے کے ساتھ سورۃ العلق کے سجدے کا بھی تذکرہ ہوا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سورۃ ﴿إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ﴾ اور ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ میں سجدہ کیا۔‘‘

(مسلم، المساجد، سجود التلاوة، ح: 578، ابوداؤد، ح: 1407، ترمذي، ح: 573، نسائي، ح: 966، ابن ماجه، ح؛ 1058)

یہ احادیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فتح خیبر کے موقع پر 7ھ میں مسلمان ہوئے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری زمانے کا عمل ہے۔ ان سجدوں کو منسوخ کہنا درست نہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ احادیث سے تلاوت کے پندرہ سجدوں کا ثبوت ملتا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

قرآن اور تفسیر القرآن،صفحہ:219

محدث فتویٰ

تبصرے