سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(56) اسلامی نکاح کی شرائط و آداب

  • 23343
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 1529

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسلامی نکاح کی شرائط اورآداب اختصار کےساتھ بیان کریں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواباً عرض ہےکہ قرآن وسنت کےمطابق ایک اسلامی نکاح کےلیے مندرجہ ذیل شرائط اورآداب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

1۔ نکاح کےوقت لڑکی کےولی(جیسے باپ،چچا، دادا، بھائی وغیرہ) کی رضا مندی ضروری ہے۔اگر نکاح ولی کی رضامندی کےبغیر کیاگیا تووہ نکاح اسلام میں تسلیم نہیں کیا جائے گا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے:

«لا نكاح الابولى وشاهدى عدل»

’’ نکاح ولی اوردوثقہ گواہوں کےبغیر منعقد نہیں ہوتا۔،،

2۔ جیسے والی کی اجازت ضروری ہے،ویسے ہی لڑکی کی رضامندی بھی ضروری ہےاور اگر وہ راضی نہ ہوتو نکاح کااعتبار نہیں کیاجائے گا۔

رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا:

« البكر تستأذن واِذنها صماتها والثيت تستأمر»

’’ کنواری لڑکی سےاجازت طلب کی جائے اوراس کا خاموش رہنا ہی اجازت ہےاور ثیبہ ( مطلقہ یابیوہ) سےبصراحت اجازت لی جائے۔،،( ان الفاظ کےساتھ مجھے یہ حدیث نہیں مل سکی لیکن معمولی سی تقدیم وتاخیر کےساتھ یہ الفاظ اکثر کتب احادیث میں موجود ہیں۔ دیکھیے:صحیح البخاری، النکاح،حدیث: 5136، وصحیح مسلم، النکاح، حدیث:1419- 1427 )

ایک دوسری حدیث سےمعلوم ہوتاہےکہ ایک خاتون، جن کانام خنساء بنت خذام ہے، رسول اللہﷺ کےپاس آئیں اورکہا: میرا باپ میری شادی میرے چچا زاد بھائی سےکرنا چاہتاہےلیکن میں اسے پسند نہیں کرتی۔ کیامجھے ایسی شادی کوفسخ کرنے کاحق حاصل ہے؟ آپ ﷺ نےفرمایا:’’ہاں! تم اس نکاح کوفسخ کرسکتی ہو۔،،جس                 پرخنساء نےکہا: میں اس سوال کےجواب سے یہ واضح کرناچاہتی تھی کہ ہمارے اولیاء ہماری مرضی کےبغیر ہم پرشادی مسلط نہیں کرسکتے،گو میں اپنے باپ کی بات اب مان لیتی ہوں اور اس شادی کی اجازت دیتی ہوں۔( ڈاکٹر صاحب نے دو الگ الگ احادیث کویہاں جمع کردیا ہے۔پہلی حدیث ہے: حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک لڑکی نےرسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر عرض کی: اللہ کے رسول! میرے والد نےاپنے بھتیجے کی خساست دور کرنےکے لیے میری شادی اس کےساتھ کردی ہے۔ اس پررسول اللہﷺ نےیہ معاملہ اسی پرچھوڑدیا(اختیار دےدیا کہ وہ نکاح برقرار رکھے یافسخ کردے) ۔ اس لڑکی نےکہا: میرے باپ نےجوکیاہے میں اسے برقرار رکھتی ہوں۔ لیکن میں ی چاہتی تھی کہ خواتین کومعلوم ہوجائےکہ ان کےباپوں کےپاس اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں ہے۔(سنن النسائی ،النکاح ، حدیث: 3271، ومسند احمد: 6؍136) دوسری حدیث ہےکہ خنساء بنت خذام نامی ایک ثیبہ بیوہ یا طلاق یافتہ) خاتون کےباپ نےاس کی( دوسری )شادی کردی۔ اس خاتون نےاس شادی کوناپسند کیااور خدمت رسالت مآب میں آکر شکایت کی تو آپ  نے اس نکاح کوفسخ کردیا۔ (صحیح البخاری ، النکاح، حدیث:5138 ).

3۔ اگر لڑکی کوباپ کی ناراضی کااندیشہ ہوتووہ نکاح کرنے میں جلد بازی نہ کرے بلکہ اپنے باپ کوراضی کرنےکی کوشش کرے،چاہے اس میں کافی وقت لگے لیکن اگر باپ کسی بھی صورت میں ایسی شادی کی اجازت نہیں دیتا جس سےوہ لڑکی کرنا چاہتی ہےتو پھر دیکھا جائے گاکہ آیا جس شوہر کاانتخاب لڑکی نےکیا ہےوہ ایک نیک نمازی مسلمان ہے، باروزگار ہے،یعنی بیوی کانان ونفقہ ادا کرسکتا ہےاور باپ بغیر کسی معقول وجہ سے اس رشتے کاانکار کررہاہےتوپھر وہ لڑکی باپ کےبجائے کسی دوسرےقریبی ولی(یعنی چچا یابھائی)کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کرےاور اگر وہ بھی انکار کریں(بغیرکسی معقول وجہ کے) توپھر ایک مسلمان ملک میں مقامی حاکم ایسی عورت کاولی متصور ہوگا اورایک غیرمسلم ملک میں کوئی صاحب حیثیت آدمی جیسے امام مسجد یا اسلامی جمعیت کاصدر وغیرہ اس عورت کاولی بن کر اس کا نکاح دوگواہوں کی موجودگی میں کرسکتاہے۔اور اس کی دلیل رسول اللہﷺ کایہ فرمان ہے:

«فان اشتجروا، فالسلطان ولى من لا ولى له»

’’ اگر اولیاء آپس میں اختلاف کریں تو پھرحاکم ایسی عورت کاولی ہےجس کا کوئی ولی نہیں۔،،

(سنن ابی داؤد، النکاح، حدیث: 2083، وجامع الترمذی، النکاح، حدیث: 1102 واللفظ لہ)

4۔ اس آخری اقدام سےقبل ضروری ہےکہ دونوں والد اورلڑکی اپنی اپنی ذمہ داری کونہ کرےجہاں وہ شادی نہیں کرنا چاہتی اوراگر لڑکی کی پسند می کوئی  شرعی عیب نہیں ہےتوپھر ولی ایسی شادی کی اجازت دے دے۔

ایسے ہی لڑکی کوبھی خیال کرناچاہیے  کہ جن والدین نےاسے پالا پوسا ہےاورجن کی وجہ سے وہ اس دنیا میں آئی ہے، ان کےجذبات کا بھی خیال کرےاور اگردن کی پسند کےرشتے میں کوئی قباحت نہیں ہےتواس رشتے کوقبول کرے، بہرصورت چونکہ اسی نے اپنےشوہر کےساتھ ساری زندگی گزارنی ہے،اس لیے وہ اپنی پسند پراصرار بھی کرسکتی ہے جیسا کہ خنساء بنت خذام کےواقعہ سےمعلوم ہوتاہے۔

مندرجہ بالا امور کوہرشادی میں ملحوظ رکھا جائے توامید کی جاسکتی ہےکہ شادی کامیاب رہےگی اورفریقین میں سے کسی کی دل آزاری نہیں ہوگی۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

نکاح و طلاق کےمسائل،صفحہ:370

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ