سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(519) شوہر، بیٹی اور باپ

  • 23284
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 600

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے اپنی حیات میں کل جایداد منقولہ وغیر منقولہ مع حق پدری مسماۃ حامد ہ اپنی دختر کو دے کر بجائے اپنے اپنی لڑکی مذکورہ کو مالک کامل جائیداد کایہ اختیار مالکانہ کرادیا لیکن بتقدیر الٰہی مسماۃ حامدہ مذکورہ نے بحالت حیات زید کے وفات پایا اور چھوڑا اس نے باپ شوہر دختر اور بعد وفات کے باپ مذکور نے یہ کہا کہ اب بجائے دختر کے ہماری نواسی ہماری کل جائیداد کی وارث و مالک ہے مزید برآں انتظام بھی آج تک ویسا ہی چلا آتا ہے جیسا کہ دختر (حامدہ) کی حیات میں تھا پس جائیداد مذکورالصدر کا شرعی وارث کون کون ہو گا اور ہر ایک وارث کا کس قدر حصہ ہو گا؟بیان فرمائیے مطابق کتاب اللہ و کتاب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ترکہ مسماۃ حامدہ کا حسب فرمان الٰہی بارہ سہام پر منقسم ہو گا جس میں نصف اعنی چھ سہام اس کی بیٹی کو ملیں گے۔

﴿وَإِن كانَت و‌ٰحِدَةً فَلَهَا النِّصفُ...﴿١١﴾... سورة النساء

(اور اگر عورت ہو تو اس کے لیے نصف ہے۔)

اور ربع اعنی تین سہام شوہر کو جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے۔

﴿فَإِن كانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمّا تَرَكنَ... ﴿١٢﴾... سورة النساء

(پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمھارے لیے اس میں سے چوتھا حصہ ہے جو انھوں نے چھوڑا)

بقیہ تین سہام باپ کو سدس من حیث فرضیت کے جیسا کہ کلام خدائے علام میں وارد ہے۔

﴿وَلِأَبَوَيهِ لِكُلِّ و‌ٰحِدٍ مِنهُمَا السُّدُسُ مِمّا تَرَكَ إِن كانَ لَهُ وَلَدٌ...﴿١١﴾... سورة النساء

(اور اس کے ماں باپ کے لیے ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کا چھٹا حصہ ہے جو اس نے چھوڑا۔اگر اس کی کوئی اولاد ہو)

اور ایک باعتبار عصوبت کے۔

قالَ رسولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ)). مُتَّفَقٌ عليهِ [1](رواہ البخاري)

(رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا :"مقررہ حصے ان کے مستحقین کو دواور باقی بچے وہ (میت کے) قریب ترین مرد (رشتے دار) کا حصہ ہے)

اس موقع میں باپ ہی کا حصب ہبہ اس کے اس کی نواسی اعنی حامدہ کی بیٹی کو ملے گا تو اب میت کی بیٹی کو نو  سہام ملا چھ بحسب ترکہ اور تین بحسب ہبہ میت کو اس کے باپ کا اپنا حق پدری دینا کچھ نافع نہ ہو گا کیونکہ وہ اس وقت وہ اس کا مستحق نہ تھا ۔


[1] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث(6351)صحیح مسلم رقم الحدیث (1615)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الفرائض،صفحہ:758

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ