السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہند میں عام طور سے یہ رواج ہے کہ بہن حقیقی یا بیٹی سگی یا سگی پتوہ یعنی سگے بیٹے کی جورویا سوتیلی ماں اپنے بھائی یا اپنے باپ اپنے یا خسریا اپنے بیٹے کے سامنے ہوتے ہیں اور وہ ان کو کھانا کھلاتے ہیں بات چیت کرتے ہیں یہ شرعاً درست ہے یا نہیں اور محرم عورتوں کے کون لوگ ہیں اور غیر محرم کون ہیں اور احتیاطاًاگر محرم کے سامنے بھی نہ ہوں تو شرعاً کیسا ہے؟بخاری شریف میں عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔
"عن عقبةَ بنِ عامِرٍ رَضِيَ اللهُ عنهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلى اللهُ عليهِ وسلمَ قالَ: ((إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ)) فَقَالَ رَجُلٌ مِن الأَنْصَارِ : يا رَسُولَ اللهِ، أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ ؟ قَال: ((الْحَمْوُ المَوتُ))" .
(بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔’’لوگوں میں سے کسی آدمی نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !دیور کے بارے میں کیا حکم ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دیورموت ہے)
اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ ازروئے لغت کے زوج کا باپ بھی داخل ہے اور قرآن مجید میں زوج کا باپ داخل محارم ہے تو حدیث و آیت میں کیا مطابقت ہوگی؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بہن حقیقی اور سگی بیٹی اور سگی پتوہ اور سوتیلی ماں کو اپنے بھائی اور باپ اور خسر اور سوتیلے بیٹے کے سامنے ہونا شرعاً درست ہے۔
﴿وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا لِبُعولَتِهِنَّ أَو ءابائِهِنَّ أَو ءاباءِ بُعولَتِهِنَّ أَو أَبنائِهِنَّ أَو أَبناءِ بُعولَتِهِنَّ أَو إِخوٰنِهِنَّ...﴿٣١﴾... سورة النور
(اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں اگر اپنے خاوندوں کے لیے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں (کے لیے)جس چیز کا جواز واباحت شرع شریف سے بلا اشتباہ ثابت ہو اور شارع کی طرف سے اس میں احتیاط کرنے کونہ فرمایا گیا ہو اس سے احتیاط کرنا شرعاً ناجائز ہے۔
"عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي أَمْرٍ فَتَنَزَّهَ عَنْهُ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَغَضِبَ حَتَّى بَانَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ ثُمَّ قَالَ " مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَرْغَبُونَ عَمَّا رُخِّصَ لِي فِيهِ فَوَاللَّهِ لأَنَا أَعْلَمُهُمْ بِاللَّهِ وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً " . [1](متفق علیه مشکوة شریف ص27)
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں رخصت دے دی تو کچھ لوگوں نے رخصت کو قبول کرنے سے اجتناب کیا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں پتا چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی پھر فرمایا "لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جو کام میں کرتا ہوں وہ اس سے دور رہتے ہیں اللہ کی قسم ! میں اللہ کے متعلق ان سے زیادہ جانتا ہوں اور ان سے زیادہ اس سے ڈرتا ہوں)
’’عورتوں کے محرم وہ لوگ ہیں جن سے ان عورتوں کا نکاح کبھی حلال نہیں‘‘
"المحرم من لا يحل له نكاحها(مجمع البحار)[2]
(اور عورتوں کے) محرم وہ ہیں جن سے ان عورتوں کا نکاح کبھی حلال نہیں) لفظ "حمو"میں ازروئے لغت کے زوج کا باپ بھی داخل ہے اور سورہ نور کی آیت مذکور ہ بالا سے حکم حدیث وہ مخصوص ہے یہی آیت و حدیث میں مطابقت ہے۔
[1] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث (5750)صحیح مسلم رقم الحدیث (2356)
[2] ۔مجمع بحار الا نوارللفتني (257/1)طبع نول کشور
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب