سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(393) ملکیت سے خارج شے کی خریدو فروخت کرنا

  • 23158
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 968

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک صحابی فرماتے ہیں۔

"فعَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رضي الله عنه قَالَ : أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : يَأْتِينِي الرَّجُلُ يَسْأَلُنِي مِنْ الْبَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدِي ، أَبْتَاعُ لَهُ مِنْ السُّوقِ ثُمَّ أَبِيعُهُ ؟ قَالَ : (لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ)(مشکوۃ)[1]

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے اس چیز کو بیچنے سے منع کیا جو میرے پاس نہیں ہے۔میں نے عرض کی:میرے پاس ایک شخص آتا ہے اور مجھ سے کوئی چیز خریدنا چاہتا ہے،جب کہ وہ چیز میرے پاس موجود نہیں،پھر میں اسے بازار سے خرید کر دے دیتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’جو چیز تیرے پاس نہیں وہ فروخت نہ کرو‘‘

اس کے بعد اور بھی اس مضمون کی حدیث ہے اور مشکوۃ میں اس حدیث کوصحیح کہا ہے۔اب میں چند صورتیں پیش کرکے ان کے جواب کا انتظار کرتا ہوں،کتابیں  نہیں ہیں،ورنہ آپ کو ان کے جوابات کی تکلیف نہ اٹھانی پڑتی۔

شق اول:بعض خریدار خوددکاندار سے کہتے ہیں کہ تم فلاں کپڑا مجھے دو اور اگر تمہارے پاس نہیں ہے تو دوسری دکان سے مجھے لادو،اس پر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دکاندار جس د ام پر دوسری دکان سے کپڑا لاتاہے،اسی دام پر خریدار کو دیتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دکاندار،مثلاً آٹھ آنہ گز دوسری دکان سے لاتا ہے اور نو آنہ گز خریدار کو دیتا ہے۔اگر خریدار خود دوسری دکان سے وہ کپڑا لیتا ہے تو اس کو وہاں بھی 9آنہ گز ملتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دکاندار ،مثلاً: 8آنہ گز لاکر 9آنہ گز خریدار کو دیتاہے،لیکن اگر خریدار خود اسی دکان پر جا کر لیتا ہے تو اس کو 8آنہ گز ملتاہے،یعنی اس تیسری صورت میں خریدار کو نقصان پہنچا۔

شق ثانی:بعض خریدار دکاندار سے خود نہیں لیتے،مگر دکاندار اس کو پھنسائے  رہنے کے خیال سے دوسری دکانوں سے اس کی فرمائش کو پورا کردیتا ہے،اس شق میں بھی وہی تینوں صورتیں ہیں،جوشق اول میں مذکور ہوئیں،تو اب کل چھ صورتیں ہیں،ان میں سے ہر ایک صورت میں د وقسمیں پیدا ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ خریدار کوا ن سب باتوں کا علم ہے،جن میں دکاندار اس قسم کے معاملات برتتے ہیں،دوسری یہ کہ خریدار کو علم نہیں ہے اور وہ ان باتوں کو نہیں جانتے۔یہ سب بارہ صورتیں ہیں۔آیا حدیث کی رو سے یہ سب صورتیں ناجائز ہیں یا بعض جائز اور بعض ناجائز؟بصورت  ثانی جواز ناجواز کی صورتوں کی تعین کردی جائے۔

دوسرے دکاندار اگر میرے پاس سے لے جائیں اپنے خریدار کو دینے کے لیے تو میں ان کو دوں یا نہ دوں؟یہاں کپڑے کے دو بازار ہیں،ایک خردہ فروش کا اور ایک تھوک فروشوں کا ،تھوک فروشوں کی دکان مارواڑیوں کی ہے،جتنے خردہ فروش ہیں،بوقت ضرورت مارواڑیوں سے لے کر بیچا کرتے ہیں،بسا اوقات یہ صورت پیش آجاتی ہے کہ کسی چیز کی فرمائش کی اور وہ موجود نہیں رہی،تو تھوک فروش یعنی مارواڑیوں کے یہاں سے اسی وقت یا دوسرے وقت لاتے اور خردہ فروش کے طور پر بیچتے ہیں۔

اگر خریدار دو چار گز کا خریدار ہے،مارواڑیوں سے لینا چاہے تو نہیں دیں گے ،تھان دو تھان یا اسے زیادہ دیں گے اور اسی نرخ سے خرید ار کو دیں گے،جس نرخ سے خردہ فروش دکانداروں کو دیتے ہیں۔دکاندار لوگ مارواڑیوں کے یہاں سے لاتے ہیں اور کسی قدر نفع رکھ کر خردہ فروشی کے طور پر بیچتے ہیں۔پس خریدار کی فرمائش پر مارواڑیوں کے یہاں سے کپڑا لاکر اور اپنا نفع رکھ کر بیچنا درست ہے یا نہیں؟

میرے خیال میں صحابی مذکور کے جواب میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمانا:

" لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ "

ان کا یہ مطلب ہے کہ جو تم نے صورت بتائی ہے۔ وہ میری بیع  میں داخل نہیں ہے،اس لیے کہ وہ چیز تمہارے پاس ہے،اگرچہ تم اس کو دوسرے کی دکان سے لاتے ہو۔میں یہ کہتا ہوں کہ تم اس چیز کو نہ بیچو،جو تمہارے پاس نہیں ہے،جیسے عبد آبق یا مال مسروق۔یہ مطلب کیساہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(( لا تبع ما لیس عندک )) قابلِ احتجاج معلوم ہوتی ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ نے اس کی تصحیح بھی کر دی ہے۔ (دیکھو: نیل: ۵/ ۱۵) اس حدیث میں جو (( ما لیس عندک )) ہے، اس کے معنی نیل (۵/ ۱۵) میں یہ لکھے ہیں:

"اي ما ليس في ملك وقدرتك ‘والظاهر انه يصدق علي العبد المغصوب الذي لا يقدر علي انتزاعه من هوفي يده وعلي الآبق الذي لايعرف مكانه والطير المنفلت الذي لايعتاد رجوعه ويدل علي ذلك معني"عند" لغة قال الرضي :انها تستعمل في الحاضر القريب وماهو في حوزتك وان كان بعيدا"انتهي

’’یعنی جو چیز تیری ملکیت اور قدرت میں نہیں ہے۔ظاہر یہ حدیث اس غصب شدہ غلام پر بھی صادق آتی ہےجس کو غصب کرنے والے کے ہاتھ سے لینا  ممکن نہ ہوا اور اس مفرور غلام پر جس کی جائے قرار کاعلم ہی نہ ہواور ایسا چھوٹا ہوا پرندہ جو عادتاً واپس نہیں آتا،جیساکہ"عند" کا لغوی معنی بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔رضی نے کہا ہے کہ یہ حاضر قریب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔نیز اس چیز کے لیے جو تمھاری سلطنت میں ہو چاہے وہ دور ہی ہو‘‘

"فَيَخْرُجُ عَنْ هَذَا مَا كَانَ غَائِبًا خَارِجًا عَنْ الْمِلْكِ أَوْ دَاخِلًا فِيهِ خَارِجًا عَنْ الْحَوْزَةِ، وَظَاهِرُهُ أَنَّهُ يُقَالُ: مَا كَانَ حَاضِرًا وَإِنْ كَانَ خَارِجًا عَنْ الْمِلْكِ. فَمَعْنَى قَوْلِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ أَيْ: مَا لَيْسَ حَاضِرًا عِنْدَكَ وَلَا غائبا في ملكك وتحت حوزتك قال البغوي:النهي في هذا لحديث عند بيوع الاعيان التي لا يملكها اما بيع شئي موصوف في ذمته فيجوز فيه السلم بشروطه......الي قوله:وظاهر النهي تحريم مالم يكن في ملك الانسان ولا داخلا تحت مقدرته واستثني من ذلك السلم فتكون ادلة جوازه مخصصة لهذا العموم وكذلك اذا كان في ذمة المشتري اذ هو كالحاضر المقبوض"انتهي

’’پس اس سے وہ چیز خارج ہے جو غائب ہو اور ملکیت سے باہر ہو یاملکیت میں داخل ہو۔اس سے تویہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ (عند) اس چیز پر بولا جاتاہے جو حاضر ہو،اگرچہ وہ ملکیت سے خارج ہو۔لہذا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان"جو چیز تیرے پاس نہیں’’وہ فروخت نہ کر‘‘کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز فروخت نہ کر جو تیرے پاس حاضر نہیں اور نہ وہ چیز جو تیری ملکیت سے خارج ہے اور تیرے زیراثر نہیں۔امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ   نے کہا ہے کہ اس حدیث میں جونہی اور ممانعت   ہے،وہ بعینہ ان چیزوں سے ہے ،جن کا فروخت کنندہ مالک نہ ہو۔لیکن وہ چیز جو اس کی ذمہ داری میں ہے تو اس میں مع شروط بیع سلم کرناجائز ہے...اس نہی سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جو چیز انسان کی ملکیت وقدرت میں نہ ہو،اس کوفروخت کر ناحرام ہے۔ نہ کہ وہ چیز جو اس کی قدرت اور اختیار میں ہو۔بیع سلم اس سے مستغنیٰ ہے۔لہذا اس کے جواز کے دلائل اس عموم کو خاص کرنے والے ہوں گے۔اسی طرح جو بیچی جانے والی چیز خریدار کے ذمے ہو،کیوں کہ وہ حاضر اور قبضے کے حکم میں ہے۔‘‘

مَا لَيْسَ عِنْدَكَ سے صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیع(بعد اس کے کہ بائع وقت بیع خود اس کا مالک ہو یا منجانب مالک اس کی بیع کرنے کامجاز ہو اور اس کی دلیل وہی عدم جوازتصرف در ملک غیر بلا اذن ہے،باستثناء سلم) مبیع بوقت بیع بائع کے قابو قدرت  میں ہو کہ خریدار کو بعد بیع کے تسلیم کرسکے۔صورت مسئولہ میں خواہ خریدار خود بائع سےکہے کہ مجھے دوسری دکان سے لادو یا منگادو اور بائع  خود دوسری دکان سے لائے یامنگائے،خریدار کے ہاتھ جتنے دام کو چاہے بیچے،بشرط یہ کہ کسی قسم کی دغا کو اس میں دخل نہ ہونے پائے تو یہ بیع مالیس عندک میں داخل نہیں ہے۔


[1]                یہ دو احادیث کے الفاظ ہیں۔ دیکھیں: سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۲۳۲، ۱۲۳۵) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۵۰۳) سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۶۱۳) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۲۱۸۷)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب البیوع،صفحہ:608

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ