ایک شخص مسمی عبدالغنی جس کی صرف ایک زوجہ مسماۃ زہرہ ہے،اپنی زوجہ سے ناخوش ہوا،مگر اس کے سامنے کچھ نہیں کہا،وہ باہر گیا دو آدمی کو بلا کر ان سے یہ کہا کہ ہم نے اس کو طلاق دی،طلاق دی،طلاق دی،اس کو بیٹی سمجھتے ہیں۔فقط اس صورت میں طلاق ہوا یا نہیں؟اگر طلاق ہوئی تو کیا طلاق ہوئی؟ ایک طلاق ہوئی یا تین طلاق ہوئیں اور زوجہ عبدالغنی بلا حلالہ کے،یعنی بغیر دوسرے سے نکاح کے عبدالغنی کے پاس رہ سکتی ہے یا نہیں اور بلا حلالہ کے عبدالغنی کے پاس رہ سکے تو تجدید نکاح کی عبدالغنی کے ساتھ حاجت ہوگی یا نہیں؟وکفارہ ظہار بھی دینا ہوگایانہیں؟واضح رہے کہ عبدالغنی کا لفظ"ہم اسے بیٹی سمجھتے ہیں"تک ہے،جس کے اوپر لکیر کھینچی ہے۔عبدالغنی نے دن دونوں آدمی سے یہ کلام پہنچانے کو زوجہ تک نہیں کہا تھا اور نہ لفظ زوجہ کا کہا تھا اور نہ نام زوجہ کہا تھا،وقت کلام کے صرف وہی لفظ بولا تھا،جو اوپر مذکور ہوا۔
اس صورت میں ایک طلاق واقع ہوئی اور حلالہ کی حاجت نہیں ہے اور نہ کفارہ لازم ہے۔اگر عدت نہ گزری ہوتو عبدالغنی رجعت کرسکتے ہیں،یعنی طلاق مذکورہ واپس لے سکتے ہیں اور صرف اس قدر کہنے سے کہ ہم نے جو اپنی زوجہ مسماۃ فلانہ کو طلاق دی تھی،اس طلاق کو واپس لیا،رجعت ہوجائےگی اور اگر عدت گزر گئی ہو اور دونوں باہم راضی ہوں تو تجدید نکاح کی ضرورت ہے ۔صحیح مسلم(1/477 چھاپہ دہلی) میں ہے:
"راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ،ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں اور عہد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا،تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:لوگ اس معاملے(طلاق) میں ،جس میں انھیں مہلت حاصل تھی،جلدی کرنے لگے ہیں،اگر ہم(ان کی تین طلاقوں کو،تین طلاقیں ہی) ان پر نافذ کردیں(تو بہتر ہے) چنانچہ انھوں نے اس کو نافذ کردیا"
کتبہ:محمد عبداللہ مہر مدرسہ۔ھذا الجواب صحیح ثابت عندی
کتبہ:ابو العلیٰ محمد عبدالرحمان المبارکفوری۔
[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(1472)
ماخذ:مستند کتب فتاویٰ