ایک لڑکی بالغہ اور اس کی ماں کو اس کے باپ نے ناپرسازی میں ڈال رکھا ہے بلکہ نان نفقہ کا بھی کفیل نہیں ناداری نہیں بلکہ بے رغبتی کے سبب سے بالغہ کے نکاح کی طرف اصلاً توجہ نہیں کرتا اس کی ماں نکاح کرا دینا چاہتی ہے اس صورت میں بغیر اذن باپ کے اس کا نکاح جائز ہے یا نہیں؟جواب باصواب سے عبد اللہ ماجورو عند الناس مشکور ہوں۔
اس لڑکی کا نکاح اس کی ماں نہیں کروا سکتی اس لیے کہ عورت کا نکاح اذن ولی کے بغیر نہیں ہو سکتا اور عورت ولی نہیں ہو سکتی پس اس صورت میں باپ کو ہدایت کی جائے کہ لڑکی مذکورہ کا نکاح کرادے اور بے توجہی سے باز آئے۔اگر اس پر بھی نہ مانے تو ولایت سے معزول ہو جائے گا اور بجائے اس کے اس لڑکی کا کوئی اور ولی اس کا نکاح کرادے اور اگو کوئی اس کا ولی نہ ہو تو سلطان اس کا نکاح کرادے کیونکہ جس عورت کا کوئی ولی نہ ہو تو سلطان ہی اس کا ولی ہے ۔نیل الاوطار (6/33)میں حدیث معقل بن یسار کے تحت میں ہے۔
"وفي حديث معقل هذا دليل علي ان السلطان لا يزوج المراة الا بعد ان يامر وليها بالرجوع عن العضل فان اجاب فذلك وان اصر زوجها"(معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ سلطان کسی عورت کا نکاح کرانے سے پہلے اس کے ولی کو حکم دے کہ وہ عورت کو نکاح سے روکنے والے عمل سے باز آجائے اگر تو وہ یہ بات مان لے تو ٹھیک ورنہ اس کے اس عمل پر اصرا رکی صورت میں سلطان اس کا نکاح کرادے )
مشکوۃ (ص262)میں ہے۔
(رواہ احمد والترمذی و ابو داؤد و ابن ماجہ والدارمی)
(سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے اس کا نکاح باطل ہے اس کا نکاح باطل (کا لعدم) ہے جس کا کوئی ولی (سر پرست ) نہ ہو بادشاہ اس کا ولی (سر پرست ہے)
صحیح بخاری (3/152) میں ہے۔
(باب جس نے کہا کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہو تا ۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔"پس تم ان کو مت روکو ۔"اس میں ثیبہ اور باکرہ سب داخل ہیں نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔"اور (اپنی عورتیں ) مشرک مردوں کے نکاح میں نہ دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ۔"نیز اس کا فرمان ہے۔"اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں اور عوتوں کا نکاح کردو۔ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ بلا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کو خبر دی کہ زمانہ جاہلیت میں چار طرح سے نکاح ہوتے تھے ایک صورت تو یہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کی طرف پیش قدمی کر کے اس سے نکاح کرتا۔ پھر جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ رسول بن کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے تمام نکاح باطل قراردیے صرف اس نکاح کو باقی رکھا جس کا آج کل رواج ہے حسن رحمۃ اللہ علیہ سے آیت:
(( فَلا تَعْضُلُوهُنَّ ))کی تفسیر میں مروی ہےکہ ہمیں معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ یہ آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔معقل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی بہن کا نکاح ایک شخص سے کردیا تھا اس نے اسے طلاق دے دی لیکن جب عدت پوری ہوئی تو وہ شخص پھر اس (میری بہن ) سے نکاح کا پیغام لے کر آیا میں نے اس سے کہا۔میں نے تم سے(اپنی بہن کا) نکاح کیا۔ اسے تیری بیوی بنایا اور تمھیں عزت دی لیکن تم نے اسے طلاق دے دی اور اب پھر تم اس سے نکاح کا پیغام لے آئے ہو!ہر گز نہیں اللہ کی قسم! اب میں تمھیں کبھی اسے نہ دوں گا وہ شخص (ابو البداح کوئی آدمی برانہیں تھا اور عورت بھی اس کے پاس واپس جا نا چاہتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔"تم ان (عورتوں ) کو مت روکو" میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اب میں کردوں گا راوی کا بیان ہے کہ پھر انھوں نے اپنی بہن کا نکاح اس شخص سے کر دیا)
[1] ۔مسند احمد (6/66)سنن ابی داؤد رقم الحدیث (2083)الترمذی رقم الحدیث (1102) سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (1879)
[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (4837)