ہندہ بالغہ باکرہ کہ منسوب ایک سال سے تھی ہندہ اور ہندہ کے باپ وغیرہ کو معلوم تھا کہ آج ہندہ کا نکاح ہے لیکن ہندہ کا باپ چار کوس پر تھا ہندہ کے باپ نے بکر کے نام خط لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میں بیمار ہوں سواری ملتی نہیں پیادہ روی سے مجبورہوں میں تو چاہتا تھا کہ تاریخ بڑھا دی جاتی تاکہ میری بھی شرکت ہوتی مگر جبکہ عورتوں نے تاریخ مقرر کر لی ہے تو انجام ہی ہو جانا بہتر ہے زید وہاں موجود ہے بعوض ایک ہزار نکاح کردے لڑکی میری دانست میں بالغ ہے اس سے بھی اجازت لے لیں اور احمد آرندہ خط کو بھی زبانی ہدایت ایسے ہی کردی زید ہندہ کے باپ کا صرف خط بھیجنا سننا تھا بغیر اجازت بکر کے خط پڑھ کت اور احمد آرندہ خط کا زبانی بیان سن کر بلا لیے ثبوت شہادت کے زید نے مبلغ ایک ہزار روپیہ جو مہر مثل سے نصف کے قریب ہے ایک مجمع عام میں بلا نام زد کرنے نام دو گواہ کے ہندہ کا نکاح خالد سے کردیا زید یا پدرہندہ نے خود ہندہ سے قبل نکاح اجازت نہیں لی اور نہ بعد نکاح خود زید یا کسی دوسرے شخص خاص نے ہندہ کو خبر نکاح کی دی مگر جب نکاح ہو گیا گھر باہر شورو غل مچ گیا کہ ہندہ کا نکاح ہو گیا جس وقت تواتر سے نکاح کی خبر ہندہ کو پہنچی ہندہ بہیتر(اندرون خانہ) میںتھی ہندہ نے صریح لفظوں میں اقرار یاانکار نہ کیا اور خلوت صحیحہ بھی ہو گئی ہندہ خالد سے راضی ہے اور ہندہ کے باپ کو بھی کوئی کلام نہیں ہے ایسی صورت میں نکاح صحیح و نافذ ہو جائے گا یا تجدید نکاح و صریح اقرار ہندہ کی ضرورت ہے؟
انتباہ مانحن فیہ امور خمسہ مفصلہ ذیل پر ضرور دلیل شافی ہونی چاہیے۔
1۔ اس صورت میں زید وکیل من جانب پدر ہندہ قرار پائے گا یا نہیں ؟ خانیہ وغیرہ میں مصرح ہے کہ ولی نے اگر بلا اجازت اپنی لڑکی بالغہ کا نکاح پڑھا دیاتو یہ نکاح لڑکی کی رضا پر موقوف ہے اگربالغہ باکرہ ہے تو سکوت ہی رضا ہو گا جیسا کہ عند الاستیذن سکوت رضا پر محمول ہے پس اگر زید وکیل پدر ہندہ قرار پا تا ہے تو اس نکاح پڑھا دینے میں سکوت رضا پر محمول ہو گا یا نہیں اور اگر بالفرض زید وکیل نہیں بلکہ فجولی قرار دیا جائے تو بغیر تصریح اذن ہندہ کے یہ نکاح نافذ ہو گایا نہیں؟
2۔انعقاد نکاح کے وقت نام زد کرنا دو گواہوں کا جیسا کہ فی زمانہ رائج ہے یہی ضروری ہے یا صرف موجود رہنا کافی ہے؟
3۔بعد نکاح منکوحہ کے پاس روبرو شخص خاص کو جاکر نکاح کی اطلاع بھی دینا ضروری ہے یا کسی طرح اطلاع ہو جانا کا فی ہے؟
4۔استیذان غیر ولی میں تکلم بلسان شرط ہے جیسا کہ ہدایہ میں ہے۔
"واذا استاذنها الولي فسكتت او ضحكت فهو اذن وان فعل هذا غير الولي لم يكن رضا حتيٰ تتكلم به"(جب ولی اس (لڑکی) سے(نکاح کی) اجازت طلب کرے تو وہ خاموش رہے یا ہنسنے لگے تو یہ اجازت شمار ہو گی اور اگر غیر ولی یہ کام کرے تو جب تک وہ بول کر اجازت دے تو یہ (اس کی خاموشی وغیرہ) اس کی رضا شمار نہیں ہو گی) اور مانحن فیہ میں یہ نکاح بوجہ ترک استیذان ہندہ کے اجازت پر موقوف ہے جیسا کہ ہدایہ میں ہے
وتزويج العبد والامة بغير اذن مولاهما فهو موقوف فان اجازه المولي جاز‘وان رده بطل وكذلك لو زوج رجل امراة بغير رضاها او رجلا بغير رضاه"(غلام اور لونڈی کے آقا کی اجازت کے بغیر کیا ہوا نکاح موقوف ہو گا۔ اگر ان کاآقا نکاح کی اجازت دے دے تو جائز ہے اور اگر وہ اس کو رد کردے تو نکاح باطل ہوگا ۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہو گا جب کوئی آدمی عورت کی رضاکے بغیر یا مرد کی رضا کے بغیر ان کا نکاح کردے ) پس استیذان اور اجازت شرعاًدو شے ہے یا شے واحد؟ اگر دو شے ہے تو جس طرح استیذان غیر ولی میں متکلم باللسان شرط ہے اسی طرح تکلم باللسان اجازت میں شرط ہے یا نہ اور ہرواحد کے بقول مفتی بہ اجمالاً یا جداگا نہ کیا تعریف ہے؟
5۔مجرد سکوت دلیل اجازت ہے یا نہ؟ اور اگر بالفرض مجرد سکوت دلیل اجازت نہیں ہے تو خلوت صحیحہ دلیل اجازت ہو گی یا نہ؟
اس صورت میں نکاح صحیح و نافذ ہو جائے تو تجدید نکاح و صریح اقرار ہندہ کی ضرورت نہیں ہے لما سیاتی ۔
1۔ اس صورت میں کہ پدر ہندہ نے بکر کو یہ لکھا اور احمد کی زبانی بھی کہلا بھیجا کہ زید وہاں موجود ہے بعوض ایک ہزار روپیہ کے نکاح کردے زید وکیل منجانب پدر ہندہ قرارپائے گا اور اس کا نکاح کیا ہوا پدر ہندہ کا نکاح کیا ہوا سمجھا جائے گا اس لیے کہ وکیل کا فعل عین موکل کا فعل تصور کیا جاتا ہے اور جب بکر بالغہ کا نکاح اس کا ولی کردے اور اس نکاح کی خبر اس کو کوئی ایک ہی فضولی کردے جو عدل ہو یا دو مستور فضولی کردیں اور وہ اس خبر کو سن کر سکوت کرے تو ایسا سکوت دلیل رضا ہو تا ہے بس اسی طرح جب وکیل نکاح کردے اور باقی حالت بدستور ہو تو سکوت مذکور دلیل رضا ہو گا اور مانحن فیہ تو ہندہ کو نکاح کی خبر بتواتر پہنچ گئی تھی ۔ جو دو ایک فضولی کی خبر سے کہیں بڑھ کر ہے تو اس صورت میں تو ہندہ کا سکوت بطریق اولیٰ دلیل رضا ہو گا درمختار میں ہے۔
"فان استاذنها هو اي الولي وهو السنة او وكيله او رسوله او زوجها وليها واخبرها رسوله او فضولي عدل فسكتت عن رده مختارة او ضحكت غير مستهزئة او تبسمت او بكت بلا صوت فلو بصوت لم يكن اذنا ولا ردا حتي لو رضيت بعده انعقد سراج وغيره فمافي الوقاية والملتقي فيه نظر فهو اذن"[1]انتھی(اگر ولی اس(عورت ) سے (نکاح کی) اجازت طلب کرے اور سنت طریقہ یہی ہے یا اس (ولی) کا وکیل یا اس کا ایلچی اجازت طلب کرے یا اس (عورت ) کا ولی اس کا نکاح کردے اورولی کا ایلچی یا عادل فضولی اس (عورت) کو اس کی خبر دے تو وہ مختار ہونے کے باوجود اس کو رد کرنے سے خاموش رہے یا بغیر استہزا کے ہنسنے لگے یا تبسم کرے یا بغیر آواز کے رونے لگے تو یہ اجازت ہوگی نہ انکار لیکن اگر وہ بعد میں راضی ہو جائے تو یہ نکاح منعقد ہو جائے گا وقایہ اور متقی میں جو مذکورہے وہ محل نظر ہے درحقیقت یہ اجازت تصور ہوگی) شامی (2/296)مصری ) میں ہے۔
"قوله او فضولي عدل شرط في الفضولي العدالة او العدد فيكفي اخبار واحد عدل او مستورين عند ابي حنيفة"(اس کا یہ قول یا عادل فضولی۔ فضولی میں عدالت یا عدد کی شرط لگائی گئی ہے تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایک عادل یا دو مستورافراد کا خبر دینا کافی ہے۔)
اگر بالفرض زید وکیل منجانب پدر ہندہ نہ ہو بلکہ فضولی قرار دیا جائے تو بھی بغیر تصریح اذن باللسان ہندہ کے یہ نکاح نافذ ہو گا اس لیے کہ ہندہ کی رضائے سے خلوت صحیحہ کا ہونا تصریح اذن سے بڑھ کر ہے شامی(ص 301) میں ہے۔
"لانه اذا ثبت الرضا بالقول يثبت بالتمكين من الوطي بالاولي لانه اول علي الرضا"(کیوں کہ جب بول کر اجازت دینے سے رضا ثابت ہوجاتی ہے تو اپنے اوپر وطی کی قدرت دینے سے تو بالا اولیٰ ثابت ہو جائے گی اس لیے کہ یہ رضا کی زیادہ صراحت کرتا ہے)
2۔انعقاد نکاح کے وقت گواہوں کا ہونا یعنی موجود رہنا کافی ہے ان کا نام زد کرنا ضروری نہیں ہے ہدایہ میں ہے ۔
"ولا ينعقد نكاح المسلمين الا بحضور شاهدين...الخ[2](مسلمانوں کا نکاح گواہوں کی موجودگی ہی میں منعقد ہوتا ہے۔الخ)
3۔بعد نکاح کے منکوحہ کو نکاح کی اطلاع ہو جا نا خواہ ولی خود اطلاع دے یا اس کا کوئی فرستادہ اطلاع دے یا کوئی ایک فضولی اطلاع دے کافی ہے عبارت درمختار و شامی منقولہ نمبر (1) ملاحظہ ہو۔
4۔ استیذان کے معنی ہیں اذن طلب کرنا اور اجازت کے معنی ہیں اذن دینا استیذان خواہ ولی اقرب کرے یا غیر ولی اقرب ان دونوں میں سے کسی صورت میں بھی اجازت یعنی اذن دینا تکلم باللسان پر موقوف نہیں ہے ہاں پہلی صورت میں مجرد سکوت کافی ہے دوسری صورت میں سکوت کے ساتھ کسی فعل دال علی الرضا کا پا یا جا نا بھی ضروری ہے کما سیاتی تفصیلہ
5۔استیذان ولی اقرب کی صورت میں مجرد سکوت بالغہ تحقیق اذن کے لیے کافی ہے اور استیذان غیر ولی اقرب کی صورت میں مجرد سکوت کافی نہیں ہے بلکہ سکوت کے ساتھ بکر بالغہ کی جانب سے کسی ایسے فعل کا پا یا جا نا بھی ضروری ہے جو اذن اور رضا مندی نکاح پر دال ہو جیسے مہر یا نفقہ طلب کرنا وغیرہ وغیرہ اور خلوت صحیحہ بھی جو برضا ہو اس میں داخل ہے یعنی وہ دلیل اجازت ہے درمختار میں ہے ۔
"فان استاذنهاغير الاقرب‘كاجنبي اوولي بعيدفلاعبرة لسكوتها‘بل لا بد من القول كالشيب البالغة لا فرق بينهما الا في السكوت ‘لان رضاهما يكون بالدلالة كما ذكره بقوله:او ما هو في معناه من فعل يدل علي الرضا كطلب مهرها ونفقتها وتمكينها من الوطي ودخوله بها برضاها ظهرية وقبول التهنية والضحك سرورا ونحو ذلك"واللہ اعلم۔[3](پھر اگر قرابت دار کے سوا کوئی اور اس (عورت ) سے اذن (نکاح) طلب کرے جیسے اجنبی یا دورکاولی تو ایسی صورت میں عورت کی خاموشی کا اعتبار نہ ہوگا بلکہ ثیبہ بالغہ کی طرح اس کا بول کر اجازت دینا ضروری ہے ان دونوں کے درمیان صرف خاموشی کا فرق ہے کیوں کہ ان دونوں کی رضا دلالت کے ساتھ ہوگی جیسے اس نے اپنے اس قول کے ساتھ ذکر کیا۔"یا جو اس کے معنی و مفہوم میں ہو" یعنی اس کی طرف سے کوئی ایسا فعل سر زد ہو جو اس کی رضا پر دلالت کرتا ہو۔ جیسے اس (عورت ) کا مہر اور نفقہ طلب کرنا شوہر کو اپنے اوپر وطی کی قدرت فراہم کرنا اور اس (شوہر ) کا اس (عورت) کی اجازت کے ساتھ اس پر داخل ہونا (شادی کی) مبارک باد کو قبول کرنا اور خوشی سے ہنس دینا وغیرہ)کتبہ: محمد عبد اللہ (9/رجب 1330ھ)