ایک عورت اپنے آپ کو صحیح النسب جان کر کہتی ہے کہ میں خاوند کے پاس نہیں جاتی میرا خاوند ولد الزنا ہے۔اگر میں خاوند کے پاس جاؤں گی تو میری اولاد بھی حرامی ہو گی اور میرا نکاح اس کے ساتھ درست نہیں اور عورت اور اس کے والدین اور غیر لوگ بھی کہتے ہیں کہ عورت صحیح النسب کا نکاح مرد ولد الزنا سے شرع شریف میں درست نہیں ہے اور ولد الزنا دوزخی ہے سو یہ کہنا عورت اور اس کے والدین اور غیر لوگوں کا صحیح ہے یا نہیں ؟موافق قرآن وحدیث و اقوال صحابہ بسند صحیح بتفصیل جواب تحریر فرمائیں۔
عورت یا اس کے والدین یا اور لوگوں کا یہ کہنا کہ عورت صحیح النسب کا نکاح مرد ولد الزنا سے شرع شریف میں درست نہیں ہے بالکل غلط ہے شرع شریف میں کہیں اس کا پتا نہیں ہے عورت مسلمہ کے نکاح کے لیے صرف اس قدر شرط ہے کہ مرد بھی مسلمان ہی ہو۔ غیر ملت کاشخص نہ ہواور یہ کہ ولد الزنا بھی نہ ہو کہیں سے یہ ثابت نہیں ہے محض بے اصل ہے اسی طرح عورت یا اس کے والدین یا اور لوگوں کا یہ کہنا کہ ولد الزنا دوزخی ہے بھی غلط ہے۔اصول شرع شریف سے یہ ہے کہ ایک شخص کے گناہ سے دوسراشخص نہیں پکڑا جا تا جو گناہ کرتا ہے وہی پکڑا جا تا ہے اس مضمون کی آیات کریمات قرآن مجید میں بہت ہیں جیسے:
(اور نہ کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسری کا بوجھ اٹھائے گی) واللہ تعالیٰ اعلم۔