سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(133) کیا خطبے میں اردو میں وعظ و نصیحت کرنا درست ہے؟

  • 22898
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 667

سوال

(133) کیا خطبے میں اردو میں وعظ و نصیحت کرنا درست ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عیدین اور جمعہ کے خطبے میں آیات قرآنی اور احادیث نبوی کا ترجمہ بطور وعظ بغرض تفہیم مخاطبین جائز ہےیا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عیدین اور جمعہ کے خطبے میں آیات قرآنی و احادیث نبوی کا  ترجمہ بطور وعظ بغرض تفہیم مخاطبین جائز ہے کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   عید ین اور جمعے کے خطبوں میں وعظ و تذکیر فرمایا کرتے تھے اور یہ ظاہر ہے کہ کسی کلام پر وعظ و تذکیر کا اطلاق اسی وقت صحیح ہو سکتا ہے جبکہ وہ کلام مخاطبین کی زبان میں ہو۔ جس کووہ سمجھ سکتے ہوں ورنہ اس کلام کووعظ و تذکیر کہنا صحیح نہ ہوگا صحیح مسلم (183/1)میں جابر بن عبد اللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے۔

قال كانت للنبي صلي الله عليه وسلم خطبتان يجلس بينهما يقرأالقرأن ويزكر الناس[1]

(راوی بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   دوخطبے ارشاد تھے ان دونوں کے درمیان بیٹھتے تھے(ان خطبوں میں) قرآن پڑھتے اور لوگوں کو عظ ونصیحت تھے)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے۔

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدَأُ بِهِ الصَّلاةُ ثُمَّ يَنْصَرِفُ ، فَيَقُومُ مُقَابِلَ النَّاسِ وَالنَّاسُ جُلُوسٌ عَلَى صُفُوفِهِم ،ْ فَيَعِظُهُمْ وَيُوصِيهِمْ وَيَأْمُرُهُمْ[2](متفق علیه)

(نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن عید گاہ کی طرف جاتے سب سے پہلے نماز عید ادا کرتے پھر نماز سے فارغ ہوکر لوگوں کی طرف منہ کر کے ان کے سامنے کھڑے ہوجاتے جب کہ لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوتے ۔پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   ان کو وعظ و نصیحت اور وصیت کرتے اور ان کو حکم دیتے ۔الحدیث)جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے۔

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: شَهِدْتُ الصَّلَاةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ قَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَى بِلَالٍ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ النَّاسَ وَذَكَّرَهُمْ وَحَثَّهُمْ عَلَى طَاعَتِهِ، ثُمَّ مَالَ وَمَضَى إِلَى النِّسَاءِ وَمَعَهُ بِلَالٌ، فَأَمَرَهُنَّ بِتَقْوَى اللَّهِ وَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ[3]

(راوی ) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کے ساتھ عید کی نماز میں حاضر ہوا ۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے بغیر اذان اور اقامت کے خطبے سے پہلے نماز عید پڑھائی جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے نماز پوری فرمائی تو بلال  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوگئے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے انھیں (اللہ اور رسول کی) اطاعت کی تلقین فرمائی پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   ایک طرف سے ہوکر عورتوں کی طرف گئےبلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بدستور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے ساتھ تھے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ان (عورتوں) کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم دیا اور انھیں وعظ و نصیحت فرمائی)


[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (862)

[2] ۔صحیح بخاری رقم الحدیث (913)صحیح مسلم رقم الحدیث (889)

[3] ۔سنن النساء رقم الحدیث (1575)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:289

محدث فتویٰ

تبصرے