سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(132) خطبہ عیدین کی تعداد

  • 22897
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 687

سوال

(132) خطبہ عیدین کی تعداد

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

خطبہ عید ین کا مثل خطبتین جمعہ دو پڑھے جائیں یا صرف ایک خطبہ پڑھنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خطبہ عید ین دو پڑھے جائیں ۔ابن ماجہ (ص93)میں ہے۔

عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ : ( خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فِطْرٍ أَوْ أَضْحَى ، فَخَطَبَ قَائِمًا ، ثُمَّ قَعَدَ قَعْدَةً ، ثُمَّ قَامَ )[1]

(جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   عید الفطر یا عید الاضحیٰ کے دن نکلے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا پھر کچھ دیر کے لیے بیٹھ گئے پھر کھڑے ہوئے)

اگر چہ اس حدیث کی اسناد میں اسماعیل بن مسلم ہے اور وہ ضعیف ہے لیکن اولاً تو یہ حدیث بلا معارض ہے۔ثانیاً اثر ذیل سے جو مثقی کے"باب خطبہ العید واحکامہا "میں مذکورہے یہ ضعیف منجبر ہوجاتا ہے۔

عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة قال يكبر الإمام يوم العيد قبل أن يخطب تسع ... أنه قال: ( من السنة أن يخطب الإمام في العيدين خطبتين، يفصل بينهما بجلوس )[2](رواہ الشافعی)

(عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں سنت یہ ہے کہ امام عید کے دوخطبے دے اور ان دونوں کے درمیان کچھ دیر بیٹھ کر فاصلہ کرے)

ثالثاً قیاس علی الجمعۃ اور تورات قدیم اس کے موید ہیں واللہ اعلم بالصواب۔


[1] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (1289)اس کی سند میں اسماعیل بن مسلم "اور "ابو بکر البکراوی "دوراوی ضعیف ہیں علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث کو منکر قراردیا ہے۔

[2] ۔مسند الشافعی (342)اس اثر کے قائل"عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ "تابعی ہیں اور جب کوئی تابعی کسی مسئلےسے متعلق بات کو "السنۃ "کے لفظ سے بیان کرے تو وہ مرفوع کے حکم میں نہیں ہوتا البتہ اگر کوئی صحابی کسی بات کو"السنۃ"کے لفظ کے ساتھ بیان کرے تو وہ حکماً مرفوع ہوتا ہے (معرفۃ علوم الحدیث ص62فتح الحدیث (119/1)سید نا ابن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی ایک اثر ان الفاظ "السنة ان يخطب في العيدين خطبتين فيفصل بينها بجلوسکے ساتھ مروی ہے لیکن امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  اس کے متعلق فرماتے ہیں "ضعیف غیر متصل "(نصب الرایۃ 149/2)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:289

محدث فتویٰ

تبصرے