سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(119) خطبہ جمعہ میں وعظ و نصیحت واجب ہے یا نہیں؟

  • 22884
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-12
  • مشاہدات : 954

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

خطبہ جمعہ میں وعظ و نصیحت واجب ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خطبہ میں وعظ و نصیحت واجب ہے اس لیے کہ اصل مقصود خطبے سے وعظ و نصیحت ہے نیزوعظ و نصیحت روح خطبہ ہے اور حمدو صلاۃ آداب خطبہ سے ہے نہ کہ اصل خطبہ سے لفظ حدیث "ویذکرالناس"جو درباب خطبہ مروی ہے وجوب مذکورکی ایک کافی دلیل ہے۔"دلیل الطالب"(374/1و325)تصنیف نواب صدیق حسن خان  رحمۃ اللہ علیہ  کی عبارت مندرجہ قابل ملاحظہ ہے۔

"اعلم أن الخطبة المشروعة هي ما كان يعتاده صلى الله عليه وسلم من ترغيب الناس وترهيبهم فهذا في الحقيقة هو روح الخطبة الذي لأجله شرعت وأما اشتراط الحمد لله أو الصلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم أو قراءة شيء من القرآن فجميعه خارج عن معظم المقصود من شرعية الخطبة واتفاق مثل ذلك في خطبه صلى الله عليه وسلم لا يدل على أنه مقصود متحتم وشرط لازم ولا يشك منصف أن معظم المقصود هو الوعظ دون ما يقع قبله من الحمد والصلاة عليه صلى الله عليه وسلم. وقد كان عرف العرب المستمر أن أحدهم إذا أراد أن يقوم مقاما ويقول مقالا شرع بالثناء على الله والصلاة على رسوله وما أحسن هذا وأولاه ولكن ليس هو المقصود بل المقصود ما بعده
والوعظ في خطبة الجمعة هو الذي إليه يساق الحديث فإذا فعله الخطيب فقد فعل الفعل المشروع إلا أنه إذا قدم الثناء على الله والصلاة على رسوله أو استطرد في وعظه القوارع القرآنية كان أتم وأحسن وأما قصر الوجوب بل الشرطية على الحمد والصلاة وجعل الوعظ من الأمور المندوبة فقط فمن قلب الكلام وإخراجه عن الأسلوب الذي تقبله الاعلام"

 (آگاہ رہو!مشروع خطبہ وہ ہے جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  حسب معمول ارشاد فرماتے جس میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ترغیب و ترہیب کرتے پس فی الحقیقت خطبے کی روح یہی ہے جس کے لیے اسے مشروع قراردیا گیا ہے رہا خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھنا یا قرآن مجید کے کچھ حصے کی تلاوت کرنا تو یہ سب چیزیں شرعیت خطبہ کے معظم مقصود سے خارج ہیں اس طرح کی چیزوں کا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خطبے میں پا یا جا نا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ یہ خطبے کا حتمی مقصود اور شرط لازم ہیں انصاف پسند شخص کسی شک میں مبتلا نہیں ہوتا کہ خطبے کا سب سے بڑا مقصود وعظ و نصیحت ہے نہ کہ وہ حمد و صلات جو خطبےکی ابتدا میں ہوتے ہیں عربوں کے ہاں یہ معروف طریقہ تھا کہ ان میں سے جب کوئی کسی جگہ کھڑے ہوکر کچھ کہنا چاہتا تو وہ اپنی گفتگو کا آغاز اللہ تعالیٰ کی حمد اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود کے ساتھ کرتا یہ طریقہ کس قدر احسن اور اولیٰ ہے لیکن اگر کوئی کہنے والا کہے کہ محفلوں میں سےکسی محفل میں جو شخص خطیب بن کر کھڑا ہوا اس کو اس پر ابھارنے والی صرف یہ چیز ہے کہ وہ حمدو صلات بیان کرے تو اس کی یہ بات مقبول نہیں ہوگی بلکہ ہر طبع سلیم ناگوارجانتے ہوئے اس کو رد کرے گی۔جب یہ ثابت ہو چکا تو تمھیں یہ معلوم ہوجائے گا کہ خطبہ جمعہ میں وعظ ہی وہ چیز ہے جس کی خاطر کام کو لایا جا تا ہے لہٰذا جب خطیب یہ کام کرے گا تو وہ مشروع کام کا کرنے والا شمار ہو گا۔ہاں جب وہ اپنے خطبے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کرے گا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھے گا اور کچھ قرآنی آیات کی تلاوت کرے گا تو اس کا خطبہ مکمل اور احسن ہوگا وجوب پر اکتفا کرنا بلکہ حمدو صلات کی شرطیت کا قائل ہونا اور وعظ کو صرف امور مندوبہ میں سے قرار دینا کلام کو الٹ پلٹ کرنے اور اسے اس اسلوب سے نکالنے کے مترادف ہے جس کو نمایاں اور سر گردہ لوگ قبول کرتے ہیں)

اسی طرح کتاب زاد المعاد تصنیف حافظ ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  جلد (1)میں خصائص یوم جمعہ میں سے خصیصہ (33)مع فصل جو اس کے بعد ہے قابل دیدہے۔[1]


[1] زاد المعاد (67/1)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:252

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ