سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(109) کیا مقتدی سے لقمہ لینا مفسد نماز ہے؟

  • 22874
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1471

سوال

(109) کیا مقتدی سے لقمہ لینا مفسد نماز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مصلی کا غیر مصلی سے لقمہ لینا مفسدِ نماز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مصلی کا غیر مصلی سے لقمہ لینا مفسدِ نماز نہیں ہے، اس لیے کہ اس کے مفسدِ نماز ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے اور جو کہے کہ مفسدِ نماز ہے تو اس کا ثبوت اس کے ذمے ہے۔ جو لوگ اس کو مفسدِ نماز کہتے ہیں، وہ اس کا ثبوت یہ پیش کرتے ہیں کہ مصلی کے غیر مصلی سے لقمہ لینا، دوسرے سے قرآن سیکھ کر پڑھنا ہے اور دوسرے سے قرآن سیکھ کر پڑھنا کلام الناس میں داخل ہے اور کلام الناس مفسدِ نماز ہے تو مصلی کا غیر مصلی سے لقمہ لینا بھی مفسدِ نماز ہوگا، اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ دلیل صحیح مان لی جائے تو امام کا اپنے مقتدی سے بھی لقمہ لینا مفسدِ نماز ہوگا، کیونکہ یہ بھی دوسرے سے قرآن سیکھ کر پڑھنا ہے، حالانکہ حسبِ قول صحیح امام کا اپنے مقتدی سے لقمہ لینا مفسدِ نماز نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ امام کا اپنے مقتدی سے لقمہ لینا اگرچہ دوسرے سے قرآن سیکھ کر پڑھنا ہے اور مقتضائے دلیل تو یہی تھا کہ یہ بھی کلام الناس اور مفسدِ نماز ہوتا، لیکن چونکہ مقتدی اپنی نماز کی اصلاح کی طرف مضطر ہے، لہٰذا اس کا یہ فعل یعنی اپنے امام کو لقمہ دینا مفسدِ نماز نہیں ہوا۔ ہدایہ (۱/ ۵۶ چھاپہ علوی) میں ہے:

’’وإن فتح علیٰ إمامہ لم یکن کلاما [فاسدا] استحسانا، لأنہ مضطر إلی إصلاح صلاته، فکان ھذا من أعمال صلاته معنی‘‘ اھ۔

[اگر وہ اپنے امام کو لقمہ دے تو استحساناً یہ کلام فاسد نہ ہوگا، کیونکہ  وہ اپنی نماز کی اصلاح کرنے میں لاچار و مجبور ہے، تو یہ معنوی طور پر اس کی نماز کے اعمال میں سے شمار ہوگا]

تو اس کا ایک جواب یہ ہے کہ گو مقتدی کا یہ فعل بوجہ مذکور اعمالِ نماز سے معدود ہوا، کلام الناس اور مفسدِ نماز نہ ہوا، لیکن یہاں مقتدی کے فعل میں کلام نہیں ہے، جو لقمہ دینے والا ہے، بلکہ امام کے فعل میں کلام ہے، جو لقمہ لینے والا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امام لقمہ لینے والے نے، دوسرے سے یعنی اپنے مقتدی سے قرآن سیکھ کر پڑھا، پس اگر دوسرے سے قرآن سیکھ کر پڑھنا کلام الناس میں داخل اور مفسدِ نماز ہے تو امام کا مقتدی سے بھی لقمہ لینا کلام الناس میں داخل اور مفسدِ نماز ہوگا۔ وإذ لیس فلیس۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ جس طرح مقتدی اپنی نماز کی اصلاح کی طرف مضطر ہے، اسی طرح امام، بلکہ منفرد بھی، پس جس طرح مقتدی کا فعلِ مذکور کلام الناس اور مفسدِ نماز نہیں ہوا، اسی طرح امام اور منفرد کا فعل بھی کلام الناس نہیں ہوا اور وہ اعمالِ نماز سے معدود ہونا چاہیے اور مفسد نماز نہیں ہونا چاہیے، ورنہ وجہ فرق بیان کرنا چاہیے۔

دوسرا ثبوت یہ دیتے ہیں کہ غیر مصلی کا مصلی کو لقمہ دینا اور مصلی کا غیر مصلی سے لقمہ لے لینا، یہ تعلیم و تعلم ہے اور تعلیم و تعلم دونوں میں سے ہر ایک مفسدِ نماز ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  بنی عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے تھے، اتنے میں نماز کا وقت آگیا۔ آپ تشریف نہیں لائے۔ بلال رضی اللہ عنہ  نے بحکم  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ابوبکر رضی اللہ عنہ  کو امامت کے لیے کھڑا کر دیا۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ  نماز شروع کر چکے تو آپ تشریف لائے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے پیچھے ہٹنا چاہا، آپ نے ان کو اشارہ فرمایا: (( أن امکث مکانک )) [1] یعنی اپنی جگہ پر رہو، پیچھے نہ ہٹو۔ (دیکھو: صحیح بخاری مع فتح الباری، چھاپہ دہلی: ۱/ ۳۷۸) یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابوبکر رضی اللہ عنہ  کو اس وقت فرمایا تھا کہ ابھی آپ نماز میں شامل نہیں ہوئے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ  نماز شروع کر چکے تھے۔

اس حدیث سے مصلی کا غیر مصلی سے تعلیم پانا ثابت ہوا۔ ورنہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ایسا نہ کرتے۔ اور سنیے! ہدایہ میں ہے کہ، امام جو مسافر ہو، جب سلام پھیرے تو اس کو مستحب ہے کہ مقتدیوں سے یوں کہے کہ: ’’أتموا صلاتکم فإنا قوم سفر‘‘[2] یعنی تم لوگ اپنی نماز کو پوری کر لیتے جاؤ، اس لیے کہ ہم مسافر ہیں۔ یوں کہنا اس واسطے مستحب ہوا کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب مکے کے لوگوں کو نماز پڑھائی تھی اور آپ مسافر تھے تو ان کو آپ نے فرمایا تھا۔[3] امام زیلعی ’’نصب الرایۃ تخریج أحادیث ہدایۃ‘‘ (ص: ۳۰۹) میں اس حدیث کی نسبت فرماتے ہیں:

’’أخرجه أبو داؤد و الترمذي، وقال الترمذي: حدیث حسن صحیح، و رواہ الطبراني في معجمه، وابن أبي شیبة في مصنفه، وإسحاق بن راھویہ وأبو داؤد الطیالسي والبزار في مسانیدھم، ولفظ الطیالسي: قال: ما سافرت مع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  سفرا قط إلا صلیٰ رکعتین۔۔۔ إلی قولہ: ثم حججت مع أبي بکر، واعتمرت فصلیٰ رکعتین، ثم قال: أتموا صلاتکم فإنا قوم سفر‘‘ اھ۔

[اسے ابو داؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے، ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسے طبرانی نے اپنی معجم میں اور ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں بھی روایت کیا ہے۔ نیز اسحاق بن راہویہ، ابو داود طیالسی اور بزار نے اپنی اپنی مسند میں اسے بیان کیا ہے۔ ابو داؤد طیالسی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ راوی نے کہا: میں نے جب بھی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ سفر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دو ہی رکعتیں پڑھائیں۔۔۔ پھر میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج اورعمرہ کیا تو انھوں نے دو رکعتیں پڑھانے کے بعد کہا کہ تم اپنی نماز مکمل کر لو، بلاشبہ ہم تو مسافر ہیں]

اس حدیث کی تخریج کے بعد فرماتے ہیں:

’’أثر عمر، رواہ مالک في الموطأ، عن الزھري عن سالم بن عبد  الله عن أبیہ أن عمر بن الخطاب کان إذا قدم مکة صلیٰ بھم رکعتین ثم یقول: یا أھل مکة أتموا صلاتکم فإنا قوم سفر‘‘

[عمر رضی اللہ عنہ  کے اثر کو امام مالک رحمہ اللہ  نے موطا میں زہری سے، انھوں نے سالم بن عبد  الله سے اور انھوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ  جب مکے میں تشریف لاتے تو ان کو دو رکعت نماز پڑھا کر فرماتے: اے مکہ والو! تم اپنی نماز مکمل کر لو، ہم تو مسافر لوگ ہیں]          


[1]              صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۵۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۴۲۱)

[2]                الھدایة (۱/ ۸۱)

[3]              سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۱۲۲۹) اس کی سند میں ’’علي بن زید بن جدعان‘‘ ضعیف ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:239

محدث فتویٰ

تبصرے