سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(97) فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا

  • 22862
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 587

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جماعت فرض میں نماز کے بعد مناجات کے واسطے ہاتھ اٹھانا چاہیے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:’’ تمھارا رب حیادار کریم ہے، جب اس کا بندہ اس کی طرف اپنے ہاتھوں کو اٹھاتا ہے، تو اس کو شرم آتی ہے کہ اس کے ہاتھوں کو خالی پھیر دے۔‘‘[1]

دوسری حدیث میں ہے: ’’رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  جب اپنے ہاتھوں کو دعا میں اٹھاتے تو بغیر منہ پر ملے، ان کو نہ چھوڑتے۔‘‘[2]

ان دونوں حدیثوں سے علی العموم ہر دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہوتا ہے، خواہ بعد نماز فرض کے ہو یا کسی دوسرے وقت میں، اور دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانے کے بارے میں بہت حدیثیں آئی ہیں۔ صرف بخاری اور مسلم میں بہ قول نووی رحمہ اللہ  تیس حدیث کے قریب موجود ہیں۔[3]جلال الدین سیوطی کا اس بارے میں ایک مستقل رسالہ ہے اور اس میں قریب چالیس حدیث کے جمع کیا ہے۔[4] حافظ منذری نے بھی اس بارے میں ایک جزو جمع کیا ہے۔[5]

الغرض دعا میں ہاتھ اُٹھانا عموماً و خصوصاً قولاً و فعلاً ہر طرح سے رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے۔ پس بعد نمازِ فرض کے بھی جماعت کے ساتھ یا بغیر جماعت دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانا، ان دونوں حدیثوں سے اور نیز ان احادیث سے جو اس بارے میں وارد ہوئی ہیں، ثابت ہوتا ہے۔ ہاں اگر کسی حدیث میں بعد نمازِ فرض دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانے کی ممانعت آئی ہو تو البتہ اس وقت ہاتھ اٹھانا، ان احادیث سے جن سے عموماً ہر دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہوتا ہے، مخصوص ہوجاتا، مگر واضح ہو کہ ممانعت میں کوئی حدیث، صحیح ہو خواہ ضعیف، مرفوع ہو خواہ موقوف، نہیں آئی ہے، بلکہ بعض روایت سے گو وہ ضعیف ہے، ہر نماز کے بعد فرض ہو یا نفل، جماعت کے ساتھ ہو یا بغیر جماعت، دعا کرنے میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہوتا ہے۔

انس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’جو بندہ اپنی ہتھیلیوں کو پھیلا کر ہر نماز کے بعد کہے گا: ’’اللھم إلٰھي وإلہ إبراھیم۔۔۔‘‘ [اے  اللّٰه ! اے میرے اور ابراہیم کے الٰہ!] تو ہر گز   الله تعالیٰ اس کے ہاتھوں کو نامراد نہ پھیرے گا۔‘‘[6]

اس حدیث کی تائید ابن ابی شیبہ کی یہ حدیث جو اسود عامری کے باپ سے مروی ہے، کرتی ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نمازِ فجر پڑھی، جب حضرت نے سلام پھیرا تو مڑ کر بیٹھے اور اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور دعا کی۔[7] الحدیث

عن سلمان رضی اللہ عنہ  قال: قال رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( إن ربک حیي کریم، یستحي من عبدہ، إذا رفع إلیہ یدیہ أن یردھما صفرا )) [8] (أخرجہ الأربعة إلا النسائي وصححہ الحاکم)

[سلمان رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’ بلاشبہ تمھارا پروردگاربہت حیادار اور سخی ہے، وہ اس بات سے شرماتا ہے کہ بندہ اس کی طرف ہاتھ اٹھائے اور وہ انھیں خالی پھیر دے]

’’وعن عمر رضی اللہ عنہ  قال: کان رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  إذا مد یدیہ في الدعاء، لم یردھما حتی یمسح بھما وجھہ‘‘ (أخرجہ الترمذي، [9]لہ شواھد، منھا حدیث ابن عباس عند أبي داؤد،[10] و مجموعھا یقتضي أنہ حدیث حسن۔ بلوغ المرام، ص: ۱۵۰، مطبوعہ بھوپال)

[عمر رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ جب رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو انھیں چہرے پر پھیر کر نیچے گرایا کرتے تھے]

عن أنس عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم  أنہ قال: (( ما من عبد بسط کفیہ في دبر کل صلاۃ ثم یقول: اللھم إلھي وإلٰہ إبراھیم وإسحاق ویعقوب وإلٰہ جبریل ومیکائیل وإسرافیل! أسألک أن تستجیب دعوتي، فإني مضطر، و تعصمني في دیني فإني مبتلی، وتنالني برحمتک فإني مذنب، وتنفي عني الفقر فإني متمسکن، إلا کان حقا علی   الله عز و جل أن لا یرد یدیہ خائبتین )) [11]

[انس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’جو بندہ اپنی ہتھیلیوں کو پھیلا کر ہر نماز کے بعد کہے گا: ’’اے  اللّٰه ! اے میرے الٰہ! اے ابراہیم، اسحاق اور یعقوب(سوال:) کے الٰہ! اے جبریل، میکائیل اور اسرافیل کے الٰہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میری دعا کو قبول فرما لے، یقینا میں لاچار ہوں۔ میرے دین کے بارے میں مجھے بچا لے، بے شک میں (مصیبت وغیرہ میں) مبتلا ہوں۔ میں گناہ گار ہوں، مجھے اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے۔ میں مسکین اور بے چارہ ہوں، مجھ سے فقر و فاقے کو دور کر دے۔‘‘ تو   الله تعالیٰ پر یہ حق ہوگا کہ وہ اس کے ہاتھوں کو خالی اور نامراد نہ لوٹائے]

عن أسود العامري عن أبیہ قال: (( صلیت مع رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  الفجر، فلما سلم، انحرف، و رفع یدیہ، ودعا )) [12] (الحدیث)

[اسود عامری اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نمازِ فجر ادا کی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سلام پھیرا تو پیچھے کو مڑے، اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی]

 


[1]              سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۴۸۸) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۵۵۶) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۸۶۵)

[2]              سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۳۸۶) امام ابن الجوزی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ’’حدیث في مسح الوجہ بالیدین عند الدعاء قد روي عن عمر و ابن عباس۔۔۔‘‘ پھر دونوں حدیثیں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’ھذان حدیثان لا یصحان‘‘ (العلل المتناھیة: ۲/ ۸۴۰) نیز دیکھیں:

ضعیف الجامع، رقم الحدیث (۴۴۱۲)

[3]                شرح صحیح مسلم (۶/ ۱۹۰)

[4]              امام سیوطی رحمہ اللہ  نے اس سلسلے میں ’’فض الوعاء في أحادیث رفع الیدین في الدعاء‘‘ کے نام سے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔

[5]              دیکھیں: فتح الباري (۲/ ۵۰۷)

[6]                عمل الیوم واللیلة لابن السني (۱۳۷ ) اس کی سند میں ’’عبد العزیز بن عبد الرحمن البالسي‘‘ راوی متروک ہے۔ دیکھیں: لسان المیزان (۴/ ۳۴) امام ابن عدی فرماتے ہیں: ’’وعبد العزیز ھذا یروي عن خصیف أحادیث بواطیل‘‘ (الکامل: ۵/ ۲۸۹)

[7]                مصنف ابن أبي شیبة (۳۱۱۰) ا س حدیث میں مڑ کر بیٹھنے کے بعد ہاتھوں کو اٹھانے اور دعا کرنے کے الفاظ نہیں ہیں۔ واﷲ أعلم۔ مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ  ہی ’’تحفة الأحوذي‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’الحدیث رواہ ابن أبي شیبة في مصنفہ، کذا ذکر بعض الأعلام ھذا الحدیث بغیر سند، وعزاہ إلی المصنف، ولم أقف علی سندہ فاﷲ تعالیٰ أعلم کیف ھو صحیح أو ضعیف؟‘‘  (تحفة الأحوذي: ۲/ ۱۷۱) یہ حدیث مصنف ابن ابی شیبہ میں بایں سند ’’حدثنا ھشیم قال: أنا یعلیٰ بن عطاء عن جابر بن یزید الأسود العامري عن أبیہ...‘‘ موجود ہے، لیکن اس میں دعا کرنے اور ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں۔

[8]                اس حدیث کا ذکر گذشتہ صفحے میں گزر چکا ہے۔

[9]              اس حدیث کی تخریج اور تضعیف گذشتہ صفحے میں گزر چکی ہے۔

[10]               سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۴۸۵) امام ابو داود یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’روي ھذا الحدیث من غیر وجہ عن محمد بن کعب، کلھا واھیة، وھذا الطریق أمثلھا، وھو ضعیف أیضا‘‘ نیز امام ابو حاتم فرماتے ہیں: ’’ھذا حدیث منکر‘‘ (العلل: ۲/ ۳۵۱) نیز دیکھیں: سنن البیھقي (۲/ ۲۱۲) نصب الرایة (۳/ ۵۷)

[11]             اس کی تخریج گذشتہ صفحے میں ملاحظہ کریں۔

[12]               اس کی تخریج گذشتہ صفحے میں ملاحظہ کریں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:219

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ