السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1۔ قنوت نمازِ پنج گانہ میں پڑھنے کی سند تحریر فرمائیے۔
2۔ تخصیص بھی کسی دعا کی ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔ عن أبي ھریرۃ قال: لأقربن صلاۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، فکان أبو ھریرة یقنت في الرکعۃ الآخرة من صلاة الظھر، وصلاة العشاء، وصلاة الصبح، بعد ما یقول سمع الله لمن حمدہ، فیدعو للمؤمنین ویلعن الکفار۔[1]وعن أنس قال: کان القنوت في الفجر والمغرب۔[2] (صحیح بخاري)
[ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں تمھیں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھاؤں گا، چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ظہر، عشا اور صبح کی نمازوں کی آخری رکعت میں ’’سمع الله لمن حمدہ‘‘ کہنے کے بعد قنوت کرتے، مسلمانوں کے حق میں دعا کرتے اور کافروں پر لعنت فرماتے اور انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قنوت فجر اور مغرب میں تھی]
’’وظاھر سیاق حدیث الباب أن جمیعہ مرفوع، ولعل ھذا ھو السر في تعقیب المصنف لہ بحدیث أنس، إشارۃ إلی أن القنوت في النازلة لا یختص بصلاة معینة‘‘ اھ۔(فتح الباري: ۴/ ۴۳۶، مطبوعہ دہلی)
[باب میں مذکور حدیث کے سیاق کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری حدیث مرفوع ہے۔ شاید مصنف کے اس حدیث کے متصل بعد انس رضی اللہ عنہ کی حدیث لانے میں یہی راز ہے، یہ اشارہ کرتے ہوئے کہ قنوتِ نازلہ کسی متعین نماز کے ساتھ خاص نہیں ہے]
(( وعن أبي ھریرة أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کان إذا أراد أن یدعو علی أحد أو یدعو لأحد، قنت بعد الرکوع فربما قال: إذا قال سمع الله لمن حمدہ، ربنا لک الحمد، اللھم أنج الولید بن الولید، وسلمة بن ھشام، وعیاش بن أبي ربیعة، اللھم اشدد وطأتک علی مضر، واجعلھا سنین کسني یوسف، یجھر بذلک۔۔۔ الخ )) (متفق علیہ۔ مشکوة شریف مطبوعہ أنصاری، ص: ۱۰۵) [3]
[ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے خلاف بد دعا یا کسی کے حق میں دعا کرنے کا ارادہ فرماتے تو رکوع کے بعد قنوت (میں ایسا) کرتے۔ راوی نے کبھی یوں بھی کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’سمع الله لمن حمدہ، ربنا لک الحمد‘‘ کہہ چکتے تو فرماتے: اے الله ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے۔ قبیلہ مضر پر اپنی سزا سخت کر دے اور ان پر ایسا قحط مسلط کر دے، جیسا کہ قومِ یوسف پر آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے یہ دعا کیا کرتے تھے]
’’وعن ابن عباس قال: قنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم شھرا متتابعاً في الظھر والعصر والمغرب والعشاء وصلاۃ الصبح، إذا قال سمع الله لمن حمدہ من الرکعۃ الآخرۃ، یدعو علی أحیاء من بني سلیم علی رعل وذکوان وعصیۃ، ویؤمن من خلفہ‘‘ (رواہ أبو داؤد) [4]
[ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ بیان منقول ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ متواتر ظہر، عصر، مغرب، عشا اور فجر کی نمازوں میں قنوت پڑھی۔ ہر نماز کی آخری رکعت میں ’’سمع الله لمن حمدہ‘‘ کہنے کے بعد بنو سلیم میں سے رعل، ذکوان اور عصیہ کے قبائل پر بد دعا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے والے آمین کہتے تھے]
’’وفي صحیح ابن خزیمة عن أنس أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان لا یقنت إلا إذا دعا لقوم أو دعا علیٰ قوم‘‘ (فتح الباري، ص: ۵۴۰) [5]
[صحیح ابن خزیمہ میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بلاشبہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت قنوت پڑھتے، جب کسی قوم کے لیے دعا یا کسی قوم کے خلاف بد دعا کرنا ہوتی]
’’وروی الخطیب في کتاب القنوت من حدیث محمد بن عبد الله الأنصاري ثنا سعید بن أبي عروبة عن قتادة عن أنس أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان لا یقنت إلا إذا دعا لقوم أو دعا علیھم، وھذا سند صحیح، قالہ صاحب تنقیح التحقیق‘‘ (فتح القدیر: ۱/ ۱۸۶) [6]
[خطیب نے کتاب القنوت میں محمد بن عبد الله انصاری کی حدیث روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، وہ قتادہ سے اور قتادہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت قنوت پڑھتے، جب کسی قوم کے حق میں دعا یا ان کے خلاف بد دعا کرنا مقصود ہوتا۔ اس کی سند صحیح ہے، جیسا کہ صاحبِ ’’تنقیح التحقیق‘‘ نے کہا ہے]
2۔ قنوتِ نوازل میں اس امر کی تخصیص ہے کہ اس میں مومنین کی فتح و نصرت اور کفار کی، جو مزاحمین مسلمین ہوں، ہزیمت و شکست کی دعا ہو، جیسا کہ حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ و حدیثِ انس رضی اللہ عنہ سے جو سوال نمبر1 کے جواب میں منقول ہوئیں، ظاہر ہے۔ اگر اس مضمون کی دعا کے خاص الفاظ حضرت رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جائیں تو ازیں چہ بہتر، کیونکہ جو خیر و برکت ان میں مرجو ہے، وہ دوسرے الفاظ میں مرجو نہیں ہے، ورنہ جو دعا متضمن مضمون مذکورہ بالا پڑھی جائے، کافی ہے، کیونکہ اس باب میں تخصیص کسی دعا کی بلفظ اس طرح پر کہ انھیں الفاظ سے پڑھی جائے، نہ دوسرے الفاظ سے، کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اس مضمون کی ماثور دعاؤں میں سے ایک دعا یہ ہے:
عن عبد الله بن أبي أوفیٰ قال: دعا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یوم الأحزاب علیٰ المشرکین، فقال: ((اللھم منزل الکتاب سریع الحساب، اللھم اھزم الأحزاب، اللھم اھزمھم وزلزلھم )) (متفق علیہ، مشکوة شریف، ص: ۲۰۵) [7]
[عبد الله بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احزاب کے دن مشرکین کے خلاف دعا فرمائی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے الله ! اے کتاب نازل کرنے والے! اے جلد حساب لینے والے! اے الله ! جماعتوں کو شکست دے دے۔ اے اللّٰه ! انھیں شکست دے اور انھیں لڑکھڑا دے]
وفي روایة: (( اللھم منزل الکتاب ومجري السحاب، وھازم الأحزاب، اھزمھم وانصرنا علیھم )) [8] (نزل الأبرار، ص: ۳۲۴)
[ایک روایت میں یہ الفاظ ہے: اے اللّٰه! اے کتاب نازل کرنے والے! اے بادل کو چلانے والے! اے جماعتوں کو شکست دینے والے! ان کو شکست دے اور ان کے خلاف ہماری مدد فرما]
دوسری دعا یہ ہے:
(( اللھم إني أسألک [النعیم یوم العیلة و] الأمن یوم الخوف، اللھم إني عائذ بک من شر ما أعطیتنا، ومن شر ما منعتنا، اللھم حبب إلینا الإیمان، وزینہ في قلوبنا، وکرہ إلینا الکفر والفسوق والعصیان، واجعلنا من الراشدین، اللھم توفنا مسلمین، وألحقنا بالصالحین غیر خزایا ولا مفتونین، اللھم قاتل الکفرة الذین یکذبون رسلک، ویصدون عن سبیلک، واجعل علیھم رجزک وعذابک، إلہ الحق آمین )) (أخرجہ النسائي، وھذا لفظہ، وابن حبان، وصححہ الحاکم في المستدرک، وقال: صحیح علی شرط الشیخین)
[9] [اے اللّٰه ! میں تجھ سے (تنگی کے دن نعمت اور) جنگ کے دن امن کا سوال کرتا ہوں، اے اللّٰه ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں، اس کے شَر سے جو تو نے ہمیں دیا اور جو تو نے ہم سے روک لیا۔ اے اللّٰه ! ہمارے لیے ایمان کو محبوب بنا دے اور اسے ہمارے دلوں میں مزین کر دے اور کفر، گناہ اور نافرمانی کو ہمارے لیے ناپسندیدہ بنا دے اور ہمیں ہدایت والے بنا دے۔ اے اللّٰه ! ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں فوت کر اور ہمیں رسوائی کے بغیر اور فتنہ زدہ بنائے بغیر نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔ اے الله ! ان کافروں کو، جو تیرے رسولوں کو جھٹلاتے اور تیری راہ سے روکتے ہیں، ہلاک کر اور ان پر اپنا غصہ اور عذاب نازل فرما۔ اے الٰہ الحق! ہماری دعا قبول فرما۔ اسے نسائی نے روایت کیا اور یہ الفاظ اسی کے ہیں۔ نیز ابن حبان نے اسے روایت کیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے اپنی مستدرک میں اسے صحیح کہا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ روایت شیخین کے شرط پر صحیح ہے]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۷۶۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۶۷۶)
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۷۶۵)
[3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۲۸۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۶۷۵)
[4] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۴۴۳)
[5] صحیح ابن خزیمة (۱/ ۳۱۴)
[6] تنقیح التحقیق للذھبي (۱/ ۲۱۹)
[7] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۷۷۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۷۴۲)
[8] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۸۰۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۷۴۲)
[9] مسند أحمد (۳/ ۴۲۴) سنن النسائي، الکبریٰ (۶/ ۱۵۶) الأدب المفرد (ص: ۲۴۳) المستدرک للحاکم (۳/ ۲۶)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب