السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایسی مسجد کہ قرب و جوار میں جہاں پنج گانہ اذان نماز و جمعہ ادا کیے جاتے ہوں اور کوئی شخص علیحدہ اپنے مکان میں نماز ادا کیا کرے، اذان کی آواز بھی سنتا ہو، تارک السنۃ النبویّۃ ہے یا نہیں؟ ایسے شخص کی نماز مطابق احادیث صحیح ہوتی ہے یا نہیں؟ کوئی عذر شرعی بھی نہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلا عذر ایسی مسجد کی جماعت چھوڑ کر علیحدہ نماز پڑھنا ہرگز جائز نہیں ہے اور نہ ایسی نماز قبول ہوتی ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ سعادت مہد میں کھلے ہوئے منافق کے سوا اور کوئی بلاعذر ایسی جماعت سے علیحدہ نہیں ہوتا تھا، یہاں تک کہ ایسا مریض جو بغیر دو شخصوں کے کندھوں پر ٹیک دیے ہوئے اپنے آپ کو مسجد حاضر نہیں کر سکتا ہے، وہ بھی غیر حاضر نہیں رہتا تھا، بلکہ دو شخصوں کے کندھوں پر ٹیک دے کر ضرور حاضر ہوتا تھا اور مسجد کے پڑوسی نابینا جن کا کوئی دستگیر نہیں ہوتا، ان کا بھی یہ عذر نابینائی مسموع نہیں ہوتا تھا، بلکہ ان کو بھی حاضر ہونے کا حکم ہوتا تھا اور خود حضرت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الموت میں اس وقت تک شریکِ جماعت ہوا کیے، جب تک کہ دو شخصوں کے کندھوں پر ٹیک دے کر حاضر مسجد ہوسکتے تھے اور ایسی جماعت میں حاضری کی ایسی سخت تاکید تھی کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر حاضر ہونے والوں کو مع ان کے گھروں کے پھونک دینے کا قصد ظاہر فرمایا تھا۔ الحاصل بلا عذر ایسی جماعت چھوڑ کر علیحدہ نماز پڑھنا طریقہ اسلامی کے سراسر خلاف اور موجبِ ضلالت ہے۔ قال الله تعالیٰ:
﴿وَاركَعوا مَعَ الرّٰكِعينَ ﴿٤٣﴾... سورة البقرة
’’اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب