السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1۔ صحنِ مسجد میں جماعت قائم ہونے کے تھوڑی دیر بعد بارش شروع ہوگئی:
2۔ پس مصلین کو بحالہ بھیگتے ہوئے نماز ادا کرنا چاہیے؟
3۔ یا امام و مقتدی کو بڑھ کر اندر مسجد داخل ہو کر نماز ادا کرنا چاہیے؟
4۔ یا نیتوں کو توڑ کر پھر سے جماعت قائم کی جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔ صورت مسؤل عنہا میں مصلیانِ مسجد بھیگتے ہوئے نماز پوری ادا کریں، اگر بھیگنے میں ان کو خوف ضرر نہ ہو۔
2۔ آگے بڑھ کر اندر داخل ہو کر نماز پوری کریں، اگر بھیگنے سے خوف ضرر ہو، بشرطیکہ آگے بڑھ کر اندر مسجد داخل ہونے میں استقبالِ قبلہ فوت نہ ہو اور بشرطیکہ اگر صحن مسجد سے داخل مسجد تک ایک صف کے قدر سے زیادہ مسافت یکبارگی اس مسافت کو طَے نہ کریں، بلکہ بقدر ایک صف کے آگے بڑھیں، پھر کچھ ٹھہر جائیں، پھر کسی قدر آگے بڑھیں، پھر ٹھہر جائیں۔
3۔ اگر ان دونوں شرطوں میں سے کوئی شرط بھی فوت ہو جائے تو پھر سے جماعت قائم کریں۔ یہ جواب فقہ کے موافق ہے۔ حدیث کا جواب چنداں اس کے خلاف نہیں ہے۔ حدیث کے تفصیلی جواب کی کارڈ میں گنجایش نہیں ہے۔ فتاوی عالمگیری (۱/ ۶۵ مطبوعہ مصطفائی) میں ہے: ’’المشي في الصلاة إذا کان مستقبل القبلة لا یفسد، إذا لم یکن متلاحقا۔۔۔ إلی قولہ: وإذا استدبر القبلة فسدت، کذا في الظھیریة، و لو مشیٰ في صلاتہ مقدار صف واحد لم تفسد صلاتہ، ولو کان مقدار صفین إن مشیٰ دفعة واحدة فسدت صلاتہ، وإن مشی إلی صف، ووقف، ثم إلی صف، لا تفسد، کذا في فتاویٰ قاضي خان‘‘ اھ۔
[دورانِ نماز قبلے کی طرف چلنا نماز کو خراب نہیں کرتا، بشرطیکہ ایسا مسلسل نہ ہو۔۔۔ اگر وہ قبلے کی مخالف سمت چلے تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ ظہیریہ میں ایسے ہی ہے۔ اگر وہ اپنی نماز میں ایک صف کی مقدار میں چلے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ اگر وہ یک مشت دو صفوں کی مقدار میں چلے تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ اگر وہ ایک صف کی مقدار میں چل کر ٹھہر جائے اور پھر ایک صف کی مقدار میں چلے تو اس کی نماز خراب نہیں ہوگی۔ فتاویٰ قاضی خان میں بھی ایسے ہی بیان ہوا ہے]
’’رد المحتار‘‘ (۱/ ۴۲۱ مطبوعہ مصر) میں ہے:
’’في الحلیة عن الذخیرة أنہ روي أن أبا برزة رضی اللہ عنہ صلیٰ رکعتین، آخذاً بقیاد فرسہ، ثم انسل من یدہ، فمضیٰ الفرس علیٰ القبلة، فتبعہ حتی أخذ بقیادہ، ثم رجع ناکصا علی عقبیہ، حتی صلی الرکعتین الباقیتین۔ قال محمد في السیر الکبیر: وبھذا نأخذ، ثم لیس في ھذا الحدیث فصل بین المشي القلیل والکثیر جھةالقبلة، فمن المشائخ من أخذ بظاھرہ، ولم یقل بالفساد، قل أو کثر۔۔۔ إلی قولہ: والحدیث خص حالة العذر فیعمل بالقیاس في غیرھا‘‘
’’مروی ہے کہ ابو برزہ رضی اللہ عنہ نے اپنے گھوڑے کی لگام کو تھام کر دو رکعتیں پڑھائیں، پھر ان کے ہاتھ سے لگام چھوٹ گئی اور گھوڑا قبلے کی جانب بھاگ گیا۔ ابو برزہ رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے گئے اور اس کی لگام کو پکڑ لیا، پھر اپنی ایڑھیوں کے بل واپس آئے اور باقی کی دو رکعتیں پڑھائیں۔‘‘
امام محمد رحمہ اللہ نے ’’السیر الکبیر‘‘ میں فرمایا کہ ہم اسی سے دلیل پکڑیں گے۔ پھر یہ کہ اس حدیث میں قبلے کی جانب کم یا زیادہ چلنے میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ مشائخ میں سے بعض نے اس حدیث کے ظاہر سے دلیل لیتے ہوئے فرمایا ہے کہ نماز فاسد نہیں ہوگی، خواہ وہ تھوڑی مقدار میں چلے یا زیادہ مقدار میں ۔۔۔ مذکورہ حدیث عذر کی حالت کے ساتھ خاص ہے، لہٰذا اس کے علاوہ دیگر حالات میں قیاس پر عمل کیا جائے گا۔
صفحہ (۴۲۲) میں ہے:
’’وإن کان بعذر، فإن کان للطھارة عند سبق الحدث أو في صلاۃ الخوف لم یفسدھا، ولم یکرہ قل أو کثر، استدبر أو لا ‘‘ اھ۔
[اگر ایسا کرنا کسی عذر کے ساتھ ہو، پس اگر وہ سابقہ حدث سے طہارت حاصل کرنے کے لیے ہو یا نمازِ خوف میں ہو تو یہ نماز کو فاسد نہیں کرے گا اور ایسا کرنا مکروہ بھی نہیں ہے، خواہ یہ چلنا کم مقدار میں ہو یا زیادہ مقدار میں، وہ پیچھے کی طرف چلے یا نہ]
جاننا چاہیے کہ اگر نمبر 2 میں کوئی ایسا عذر پیش آجائے کہ دونوں شرطوں کی رعایت دشوار ہو تو ایسے عذر کی حالت میں دونوں شرطیں ساقط ہوجاتی ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب