السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نمازی کے کس قدر آگے سے گزرنا منع ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نمازی کی نماز کی جو حد ہے، یعنی جہاں سترہ قائم کرنے کا حکم ہے، اس کے آگے سے گزر سکتا ہے، اس کے اندر گزرنا منع ہے۔ صحیحین میں ہے:
’’عن أبي جحیفة: رأیت بلالا أخذ عنزة فرکزھا، وخرج رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم في حلۃ حمراء مشمرا، صلی إلی العنزة بالناس رکعتین، ورأیت الناس والدواب یمرون بین یدي العنزة‘‘ (متفق علیہ) [1]
[میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے چھوٹا نیزہ لے کر گاڑ دیا، پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سرخ جوڑا زیب تن کیے ہوئے تیزی سے تشریف لائے، آپ نے چھوٹے نیزے کی طرف رخ کر کے لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں اور میں نے لوگوں اور چوپاؤں کو نیزے کے آگے سے گزرتے ہوئے دیکھا]
سترہ قائم کرنے کی جگہ سجدہ گاہ کے آگے ہے، جو قریب ڈھائی تین ہاتھ کے ہے۔
’’عن نافع أن عبد الله کان إذا دخل الکعبة مشیٰ قبل وجھہ حین یدخل، وجعل الباب قبل ظھرہ، فمشیٰ حتی یکون بینہ وبین الجدار الذي قبل وجھہ قریبا من ثلاثة أذرع صلیٰ، یتوخیٰ المکان الذي أخبرہ بہ بلال أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم صلیٰ فیہ‘‘ (بخاري بعد باب الصلاة بین السواري في غیر جماعۃ) [2]
[نافع بیان کرتے ہیں کہ عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما جب کعبے کے اندر داخل ہوتے تو سامنے کی طرف چلتے اور دروازہ اپنی پیٹھ کی طرف چھوڑ دیتے، پھر اس طرح چلتے اور جب سامنے کی دیوار تقریباً تین ہاتھ رہ جاتی تو نماز پڑھتے تھے، اس طرح آپ اس جگہ نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے، جس کے متعلق بلال رضی اللہ عنہ نے انھیں بتایا تھا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں نماز پڑھی تھی]
’’وعن سھل بن سعد قال: کان بین مصلیٰ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وبین الجدار ممر الشاة‘‘ (بخاري، باب قدر کم ینبغي أن یکون بین المصلي والسترة) [3]
[سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے نماز اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے گزرنے کے برابر جگہ ہوتی تھی]
قال الحافظ في الفتح (۲/ ۲۸۶): ’’قال ابن بطال: ھذا أقل ما یکون بین المصلي والسترة، یعني قدر ممر الشاة، وقیل: أقل ذلک ثلاثة أذرع، لحدیث بلال أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم صلی في الکعبة، وبینہ وبین الجدار ثلاثة أذرع، کما سیأتي قریباً بعد خمسة أبواب، وجمع الداودي بأن أقلہ ممر الشاة، وأکثرہ ثلاثة أذرع، وجمع بعضھم بأن الأول في حال القیام والقعود، والثاني في حال الرکوع والسجود‘‘ انتھیٰ ما في الفتح۔
وقال في نیل الأوطار: ’’والظاھر أن الأمر بالعکس (یعني أن ثلاثة أذرع في حالة القیام وقدر ممر الشاة في حال الرکوع والسجود) وقال ابن الصلاح: قدروا ممر الشاة بثلاثة أذرع، قال الحافظ: ولا یخفیٰ ما فیہ، وقال البغوي: استحب أھل العلم الدنو من السترة، بحیث یکون بینہ وبینھا قدر إمکان السجود، وکذلک بین الصفوف‘‘[4]
وقد ورد الأمر بالدنو منھا، وفیہ بیان الحکمة في ذلک، وھو ما رواہ أبو داود وغیرہ من حدیث سھل بن أبي حثمة مرفوعاً: (( إذا صلی أحدکم إلی سترة فلیدن منھا، لا یقطع الشیطان علیہ صلاتہ )) انتھی (فتح الباري: ۲/ ۲۸۶)
[حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں: ابن بطال نے کہا ہے کہ یہ وہ کم از کم جگہ ہے، جو نمازی اور سترے کے درمیان ہونی چاہیے، یعنی بکری کے گزرنے کے برابر، ایک قول کے مطابق اس کی کم از کم مقدار تین ہاتھ ہے، کیوں کہ بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے میں نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اور دیوار کے درمیان تین ہاتھ کے برابر فاصلہ تھا، جیسا کہ پانچ ابواب کے بعد آرہا ہے۔
امام داودی نے اس طرح تطبیق دی ہے کہ اس کی کم از کم مقدار بکری گزرنے کے برابر اور زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ ہے۔ بعض اہلِ علم نے اس طرح بھی دونوں حدیثوں میں تطبیق دی ہے کہ پہلی کیفیت قیام اور قعدے کے وقت ہے اور دوسری رکوع و سجود کے وقت ہے۔ لیکن نیل الاوطار میں امام شوکانی نے کہا ہے کہ حدیث سے اس کے برعکس ظاہر ہوتا ہے (یعنی تین ہاتھ رکوع و سجود کے وقت اور بکری کے گزرنے کے برابر قیام و قعدے کے وقت ہے) حافظ ابن الصلاح نے کہا ہے کہ علما نے بکری گزرنے کی مقدار تین ہاتھ بتائی ہے، لیکن حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس کی کمزوری عیاں ہے۔ امام بغوی فرماتے ہیں کہ اہلِ علم نے سترے کے اس قدر قریب ہونا مستحب قرار دیا ہے کہ نمازی اور سترے کے درمیان اتنی جگہ ہو کہ بہ آسانی سجدہ کرنا ممکن ہو اور اتنا ہی فاصلہ صفوں کے درمیان ہونا چاہیے۔
سترے کے قریب ہونے کا حکم بھی حدیث میں مروی ہے، جس میں اس کی حکمت بھی بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ امام ابو داود وغیرہ سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی ایک نماز پڑھے تو سترے کے قریب ہو جائے، کہیں شیطان اس پر اس کی نماز کو قطع نہ کر دے]
اور یہ حکم ہے کہ اگر کوئی نمازی اور اس کے سترے کے درمیان سے گزرے تو نمازی اس کو جس طرح ہو سکے، روکے:
عن أبي سعید قال: سمعت النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقول: (( إذا صلی أحدکم إلی شيء یسترہ من الناس فأراد أحد أن یجتاز بین یدیہ فلیدفعہ، فإن أبیٰ فلیقاتلہ فإنما ھو شیطان )) (بخاري، باب یرد المصلي من مر بین یدیہ) [5]
[ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسی چیز کی طرف رخ کر کے نماز پڑھے جو اسے لوگوں سے چھپا رہی ہو (یعنی کسی چیز کو سترہ بنا کر نماز پڑھے) اور پھر بھی کوئی شخص اس کے آگے سے گزرنا چاہے تو وہ اسے روکے، لیکن اگر وہ باز نہ آئے تو پھر وہ اس سے لڑے، کیونکہ وہ شیطان ہے]
ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ نمازی کی نماز کی جگہ کی حد اس کے کھڑے ہونے کی جگہ سے سجدہ گاہ تک ہے، اس درمیان سے گزرنا منع ہے اور اس کے آگے سے درست ہے، اسی مدعا کی موید صحیحین کی یہ روایت بھی ہے:
’’عن ابن عباس قال: أقبلت راکبا علی أتان، وأنا یومئذ قد ناھزت الاحتلام، و رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یصلي بالناس بمنیً إلی غیر جدار فمررت بین یدي بعض الصف فنزلت، وأرسلت الأتان ترتع، ودخلت في الصف فلم ینکر ذلک علَيَّ أحد‘‘ (متفق علیہ) [6]
[ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں ایک دن گدھی پر سوار ہو کر آیا، میں ان دنوں قریب البلوغ تھا۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کسی دیوار کی اوٹ لیے بغیر مِنٰی میں نماز پڑھا رہے تھے، پس میں ایک صف کے آگے سے گزرا، پھر میں گدھی سے اترا اور اسے چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود صف میں شامل ہوگیا اور کسی نے بھی مجھ پر اعتراض نہ کیا]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۶۹) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۰۳)
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۸۴)
[3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۷۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۰۸)
[4] نیل الأوطار (۳/ ۳)
[5] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۸۷) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۰۵)
[6] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۷۶) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۰۴)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب