سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(85) صلاۃ مکتوبہ کے بعد امام کا ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا

  • 22850
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 1264

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعد ہر صلاۃِ مکتوبہ کے امام کا ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اور مقتدیوں کو آمین آمین کہنا اور اس کو ہر نماز کے بعد لازم کر لینا کیسا ہے؟ مشکوۃ المصابیح ’’باب الذکر بعد الصلاة‘‘ کی حدیث: ’’عن عائشة رضی اللہ عنہا  قالت: کان رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  إذا سلم لم یقعد إلا مقدار ما یقول: اللھم أنت السلام ۔۔۔‘‘ الخ[1] (رواہ مسلم) [عائشہ رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  سلام پھیرنے کے بعد صرف اتنی دیر بیٹھتے، جتنی دیر میں یہ پڑھ لیں: ’’اللھم أنت السلام۔۔۔ الخ‘‘] تو ہر نماز کے بعد (سوائے فجر و عصر کے، کیونکہ دوسری روایتوں میں ان دونوں نمازوں کے پیچھے ذکر و دعا کرنے کا طلوع و غروبِ آفتاب تک ثبوت ملتا ہے) مناجات بہیئت مذکورہ کا التزام و مواظبت خلافِ سنت نبویہ معلوم ہوتا ہے-


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہر صلاِۃ مکتوبہ کے بعد ہر شخص کو، خواہ امام ہو یا مقتدی یا منفرد، دعا مانگنا بلاشبہ سنت سے ثابت ہے، لیکن ہر صلاۃِ مکتوبہ کے بعد امام اور مقتدیوں کا اس طریقے سے دعا مانگنے کو لازم کر لینا جو طریقہ سوال میں مذکور ہے، اس کا ثبوت سنت سے نہیں ملتا۔ لہٰذا التزام مذکور کو توڑ دینا مناسب ہے اور اس حکم میں کل صلوات مکتوبہ یکساں ہیں، ان میں سے فجر و عصر کے استثنا کی کوئی وجہ نہیں ہے، گو دوسری روایتوں سے ان دونوں نمازوں کے بعد ذکر و دعا کرنے کا طلوع و غروبِ آفتاب تک ثبوت ملتا ہو، لیکن ان سے بطریق مذکورہ سوال ان دونوں نمازوں کے بعد مانگنے کا ثبوت نہیں ملتا اور حدیث مندرجہ سوال کا مطلب یہ ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  سلام کے بعد باستثناے مقدار ’’اللھم أنت السلام‘‘ کہنے کے اُس ہیئت پر نہیں بیٹھے رہتے تھے، جس ہیئت پر قبل سلام بیٹھے ہوتے، بلکہ دائیں یا بائیں طرف پھر کر مقتدیوں کے روبرو بیٹھ جاتے تھے، چنانچہ صحیح بخاری کی حدیثِ ذیل سے یہ امر بخوبی واضح ہے:

قال البخاري في صحیحہ: ’’باب یستقبل الإمام الناس إذا سلم۔ حدثنا موسیٰ بن إسماعیل قال: حدثنا جریر بن حازم قال: حدثنا أبو رجاء عن سمرة بن جندب قال: کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم  إذا صلیٰ صلاة أقبل علینا بوجھہ۔۔۔‘‘[2]

[امام بخاری رحمہ اللہ  نے اپنی صحیح میں فرمایا ہے: اس بارے میں باب کہ جب امام سلام پھیر چکے تو وہ لوگوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے۔ ہمیں موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں جریر بن حازم نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں ابو رجا نے بیان کیا، انھوں نے سمرہ بن جندب سے روایت کیا، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز پوری کر لیتے تو (سلام پھیر کر) ہماری طرف منہ پھیر لیتے۔۔۔]


  [1]              صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۹۲) مشکاۃ المصابیح (۱/ ۲۱۰)

[2]                صحیح البخاري، رقم الحدیث (۸۰۹)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:203

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ